تجھی سے کرتا ہوں میں حال دل بیاں قاصد
کہ تو ہی ہے مرا دنیا میں راز داں قاصد
سناتا خوب مری ان کو داستاں قاصد
ترے دہن میں جو ہوتی مری زباں قاصد
چراغ عمر مرا گل ہے بیٹھ میرے پاس
اندھیری رات میں جائے گا تو کہاں قاصد
نہ پونچھ حال مرا تجھ کو رنج ہوتا ہے
بتاؤں درد تجھے ہے کہاں کہاں قاصد
پتہ نہ اس کا ملا اور نہ کوئی خط آیا
خدا ہی جانے گیا ہے مرا کہاں قاصد
یقیں ہے سن کے مجھے وہ بھی دیکھنے آئیں
جو ان کے کان میں پہنچے مری فغاں قاصد
جو ان سے سننا وہی مجھ سے تو بیاں کرنا
کہ میرے ان کے تو ہے تو ہی درمیاں قاصد
چبا چبا کے نہ تو ذکر غیر مجھ سے کر
ترے مذاق میں جائے گی میری جاں قاصد
کچھ ان کے غصہ کا انداز تو بیاں تو کر
اڑائیں کس طرح نامہ کی دھجیاں قاصد
الٰہی آتے ہوں وہ یا مجھے بلایا ہو
سنا تو ہے کہ کچھ آتا ہے شادماں قاصد
وہ ہوشیار ہے پہنچا جو اس کے کوچہ میں
ہر ایک شخص سے ہوتا ہے بد گماں قاصد
تمام عمر ترا ایسا انتظار کیا
کہ کھنچ کے آئی ہے آنکھوں میں میری جاں قاصد
یہ غیر کہنے لگے اس سے ان کی صحبت میں
جو کچھ کہا تری کٹ جائے گی زباں قاصد
جو اس نے پوچھا مجھے اس کو خوب وقت ملا
شفیقؔ کہنے لگا تیری داستاں قاصد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.