اڑے ہیں کوچۂ دلبر میں جان سے گزرے
اڑے ہیں کوچۂ دلبر میں جان سے گزرے
یہ جان کیا ہے کہ دونوں جہان سے گزرے
اگر وو ہوش ربا سربسر جو ہو محکوم
تو ہے قسم کہ ہر اک آن مان سے گزرے
بسنتی پوش کروں ہائے رے میں آنکھوں سے
تو زیر چشم اگر خوں فشان سے گزرے
قسم ہے تج کو چھڑکوا کے جم ہی جاوے گا
جو رنگ قطرۂ آب چکان سے گزرے
نہیں خبر تجھے ناصح کہ ہم گئے کاں تک
ترے تو عقل و قیاس و گمان سے گزرے
میں اک کشش میں پہنچ جاؤں یار تک اپنے
جو تیر چھوٹ کے جیسا کمان سے گزرے
جو چھر چھڑا کے دل لا مکاں کرے پرواز
توقع ہے کہ نوؤں آسمان سے گزرے
خیال یار کا توسن ہے خوش خرام مرا
خدا کبھی نہ کرے زیر ران سے گزرے
اگر نصیب ہی ہو جائے فقر کا مجھے فخر
تو زندگی مری کیا عز و شان سے گزرے
سخن ہیں حلقۂ مصرع میں جیوں در شہوار
ہے یہ رجا کہ قدر داں کے کان سے گزرے
اے امتیازؔ تو ہو زائر مدینہ حرم
تو کیا سرور و خوشی آن آن سے گزرے
مأخذ:
کلیات امتیاز (Pg. 136)
- مصنف: لطف النسا امتیاز
-
- ناشر: او۔ایس۔ گرافکس، حیدرآباد
- سن اشاعت: 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.