عنوان بدل گئے ہیں فسانے بدل گئے
عنوان بدل گئے ہیں فسانے بدل گئے
تو بھی بدل کہ اب تو زمانے بدل گئے
دل میں نہ رکھ دبا کے تمنا کی بجلیاں
اکثر انہی سے آئنہ خانے بدل گئے
ہم سے محبتوں کی کہانی نہ پوچھئے
سب تیر چل چکے تو نشانے بدل گئے
جس حسن کی تلاش میں صدیوں رواں رہے
پہنچے وہاں تو لوگ سہانے بدل گئے
جذبات عشق نے نئی راہیں تلاش لیں
ارباب حسن کے بھی بہانے بدل گئے
خط کو کبوتروں کی ضرورت نہیں رہی
جادے پیام بر کے پرانے بدل گئے
رہنا سنور کے حسن کا فطری مزاج ہے
گیسو بدل گئے ہیں تو شانے بدل گئے
ساز قدیم رونق بزم طرب نہیں
مستی بدل گئی ہے ترانے بدل گئے
صورت بدل گئی ہے جزیروں کی اس طرح
جیسے سمندروں کے ٹھکانے بدل گئے
سجتی ہیں پارکوں میں حسینوں کی محفلیں
لذت بدل گئی ہے تو کھانے بدل گئے
یورپ سنوارنے کے عزائم تھے شیخ کے
پہنچے وہاں تو اپنے گھرانے بدل گئے
بدلی رتوں کی روشنی شاہیںؔ عجیب ہے
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تھانے بدل گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.