اٹھا جو دست ستم قتل بے نوا کے لئے
نگاہ شوق نے بوسے ہر اک ادا کے لئے
مہک ہے تیرے شبستاں کی بوئے زلف صبا
چلی ہے باد صبا اک شکستہ پا کے لئے
سنو کہ دل کو مرے اعتبار زیست نہیں
رکا ہوں ایک نفس عرض مدعا کے لئے
مرے خیال نے پہنا لباس حرف و ندا
صریر خامہ ہے رقصاں مری نوا کے لئے
دیار دل تو ہوا وقف آہوان جواں
اب اور کوئی بنائیں گے گھر خدا کے لئے
مرے خیال کو قید مکاں قبول نہیں
حدود بحر و بیاباں نہیں ہوا کے لئے
رہی نظر میں ہمارے عروس شوق مدام
فنائے زیست رہے زیست کی بقا کے لئے
کسے بتائیں کہ ہم نے پلا کے خون جگر
چمن میں پھول کھلائے تری قبا کے لئے
خیال و رنگ و نقوش و حروف و لوح و قلم
بچھے ہیں دام جمال گریز پا کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.