واسطہ کوئی نہ رکھ کر بھی ستم ڈھاتے ہو تم
دل تڑپ اٹھتا ہے اب کاہے کو یاد آتے ہو تم
میری سب آزادیاں بندہ نوازی پر نثار
اے خوشا قید وفا زنجیر پہناتے ہو تم
لاتے ہو کیف طرب دیتے ہو پیغام حیات
کیا بتاؤں ساتھ کیا لے کر چلے جاتے ہو تم
اس طرح چھپتے ہو جلووں کی فراوانی کے ساتھ
میں سمجھتا ہوں کہ جیسے سامنے آتے ہو تم
سن کے میرا حال ہیں آنکھیں نہ ملنے کے وجوہ
یہ بھی ہو سکتا ہے شاید اشک بھر لاتے ہو تم
بھیج کر خوش بو ہواؤں میں بانداز پیام
کیا یہ سچ ہے آج یوں میری طرف آتے ہو تم
دل گزاری بھی لیے ہے امتیاز حسن و عشق
خون رو دیتا ہوں میں اور اشک پی جاتے ہو تم
چاند میں رنگت تمہاری پھول بھی تم سے بسے
کھینچتی ہیں دل فضائیں یاد آ جاتے ہو تم
تم سے ہے آراستہ جذبات کا تازہ چمن
جیسی رت ہوتی ہے ویسا پھول بن جاتے ہو تم
ذکر اس کا ہے رضاؔ نے کیں وفائیں یا نہیں
تم نے آخر کیا کیا کاہے کو شرماتے ہو تم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.