وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی
صبح کاذب اور کیا کرتی چمک کر رہ گئی
دل شب غم کاٹ لایا دم ہوا لیکن ہوا
اک کلی تھی جو سحر ہوتے مہک کر رہ گئی
نا شناس روئے خوش حالی ہے طبع غم نصیب
جب مسرت سامنے آئی جھجک کر رہ گئی
مجھ کو جلنے دے ابھی اے موت کیوں دنیا کہے
آگ کیسی تھی جو سینے میں بھڑک کر رہ گئی
کوئی کیا دیکھے بہار روئے قاتل بعد ذبح
کیوں کھلے وہ آنکھ جو حسرت سے تک کر رہ گئی
میرے دل کے زخم اور ان کی شماتت دیکھیے
ہنس دیئے کشت تمنا جب لہک کر رہ گئی
کیا تمنا تھی یہ بیتابی جسے رکنا پڑا
تنگ تھا صحن قفس بلبل پھڑک کر رہ گئی
لوگ کہتے ہیں کھلا تھا رات بھر باب قبول
کس طرف میری دعا ثاقبؔ بھٹک کر رہ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.