وہ جستجو کا جدا ہی ہنر نکالتے ہیں
وہ جستجو کا جدا ہی ہنر نکالتے ہیں
تھکان سے نیا ذوق سفر نکالتے ہیں
ہم اپنی چھاؤں بدن میں ہی دفن رکھتے نہیں
کہ شاملات زمیں سے شجر نکالتے ہیں
کہیں یہ نسل زمیں بوس ہی نہ ہو جائے
نمو کے خواب کو بار دگر نکالتے ہیں
کہاں تلک کوئی خود میں سمٹ کے بیٹھا رہے
گلی میں آتے ہیں خوف نظر نکالتے ہیں
نہ کھولنی پڑیں دانتوں سے رشتوں کی گرہیں
چلو کہ اپنے لہو سے بھنور نکالتے ہیں
محبتیں کہاں پنپیں گی سنگ و آہن میں
کسی گلاب کی ٹہنی پہ گھر نکالتے ہیں
رتوں کے جبر نے جھلسا کے رکھ دیا تھا جہاں
شگوفے پھر اسی ٹہنی سے سر نکالتے ہیں
بھرے بھرے نہ بھرے ساعتوں کے دامن کو
نہال عمر سے سارا ثمر نکالتے ہیں
عجیب زہر سا گھل جاتا ہے فضاؤں میں
ہمارے خواب جہاں بال و پر نکالتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.