وہ خود تو مر ہی گیا تھا مجھے بھی مار گیا
وہ خود تو مر ہی گیا تھا مجھے بھی مار گیا
وہ اپنے روگ مری روح میں اتار گیا
سمندروں کی یہ شورش اسی کا ماتم ہے
جو خود تو ڈوب گیا موج کو ابھار گیا
ہوا کے زخم کھلے تھے اداس چہرے پر
خزاں کے شہر سے کوٹی تو پر بہار گیا
اندھیری رات کی پرچھائیوں میں ڈوب گیا
سحر کی کھوج میں جو بھی افق کے پار گیا
وہ روشنی کا مسافر میں تیرگی کا دھواں
تو پھر بھلا وہ مجھے کس لیے پکار گیا
میں اپنے سوچ کے ہم زاد کا پجاری تھا
ترا جلال مری عاقبت سنوار گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.