وہ تجارت میں کہاں کوئی زیاں چھوڑتا ہے
وہ تجارت میں کہاں کوئی زیاں چھوڑتا ہے
روح لے لیتا ہے اعصاب یہاں چھوڑتا ہے
ہے یہ پتھر مرا شیشے سے ترے بالاتر
کم سے کم ظلم کے ماتھے پہ نشاں چھوڑتا ہے
بزم انجم میں اٹھا لائے ہو یہ کس کا دیا
نور تو کچھ نہیں دیتا ہے دھواں چھوڑتا ہے
ہم سے خود سر سوئے میدان وغا جاتے ہوئے
یہ نہیں سوچتے ہیں کون کہاں چھوڑتا ہے
عشق وہ معجزۂ کن ہے نشاں جو اپنے
جہاں ہوتی نہیں امید وہاں چھوڑتا ہے
قصر فرعون ادھر اور ادھر وادیٔ مصر
دیکھنا یہ ہے کدھر آب رواں چھوڑتا ہے
اے خرد باختہ شداد ارم پر تری تف
اتنے سستے میں کوئی باغ جناں چھوڑتا ہے
وحشتیں کھینچ لیے جاتی ہیں صحرا میں سفرؔ
اپنی مرضی سے بھلا کون مکاں چھوڑتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.