وہ یوں شکل طرز بیاں کھینچتے ہیں
وہ یوں شکل طرز بیاں کھینچتے ہیں
کہ قائل کی گویا زباں کھینچتے ہیں
یہ تشہیر دیکھو سگ کوئے دلبر
ابھی تک مری ہڈیاں کھینچتے ہیں
کرے گر کوئی ذکر جا کر ہمارا
وہ تالو سے اس کی زباں کھینچتے ہیں
نہ صدمہ سے کیوں خشک ہو خون بلبل
گلوں کا عرق باغباں کھینچتے ہیں
بڑھی ہے سفر میں وطن کی محبت
مکینوں کو کیا کیا مکاں کھینچتے ہیں
کرے کون سودائے زلف مسلسل
ہمیں ہیں جو یہ بیڑیاں کھینچتے ہیں
پس مرگ معراج عاشق کی دیکھو
لحد کی زمیں آسماں کھینچتے ہیں
نشانہ بنائیں گے تیر نظر کا
محبت کے دل پر نشاں کھینچتے ہیں
ذرا دم تو لینے دے اے موت مجھ کو
ٹھہر کر نفس ناتواں کھینچتے ہیں
ضعیفی میں بھی دل میں ہے یاد ابرو
کبادہ ہیں خود اور کماں کھینچتے ہیں
مجھے دیکھ کر جب وہ منہ موڑتے ہیں
تو دل میں چھپا کر سناں کھینچتے ہیں
غضب ہے حسینوں کا طور تکلم
دلوں کو یہ جادو بیاں کھینچتے ہیں
بڑھا فکر میں رنگ زردی رخ سے
یہ عطر گل زعفراں کھینچتے ہیں
حبیبؔ اب زمیں آسماں سر پہ لیں گے
کہ نالے مرے بجلیاں کھینچتے ہیں
مأخذ:
Deewan-e-habeeb (Pg. ebook-193 page-174)
- مصنف: حبیب موسوی
-
- ناشر: افق مطبع شمشی, حیدرآباد
- سن اشاعت: 1900
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.