یاد ماضی کہ مری لغزش پا ہو جیسے
یاد ماضی کہ مری لغزش پا ہو جیسے
اور یہ کرب کا احساس سزا ہو جیسے
تجھ سے دوری کسی مجذوب کی منفی باتیں
تیرا ملنا کسی سالک کی دعا ہو جیسے
مدتوں سے ہے وہی شب کی مسافت جاری
کارواں سمت سفر بھول گیا ہو جیسے
اب تو چہروں سے وہ آثار رفاقت بھی گئے
ہر کوئی پیکر احساس انا ہو جیسے
تہمتیں ایسی کہ یہ سوچ رہا ہوں خود بھی
عمر کے ساتھ مرا قد بھی گھٹا ہو جیسے
مضمحل سا نظر آتا ہے مرا ذوق جمال
وہ بھی اس دھوپ میں تا دیر رہا ہو جیسے
کب تک آخر میں چلوں سمت مخالف کی طرف
آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہو جیسے
میری آنکھوں کی نمی کہنے لگی ہے کوئی بات
آئنہ مجھ سے نظر پھیر رہا ہو جیسے
زندگی اب ترا موضوع سخن میرے یہاں
ایک ٹوٹا ہوا پیمان وفا ہو جیسے
کب پتا دیتے ہیں پھولوں کو کھلانے والے
ہم سمجھتے ہیں کہ فیضان صبا ہو جیسے
مأخذ:
ابر سفید (Pg. 42)
- مصنف: رباب رشیدی
-
- ناشر: رباب رشیدی
- سن اشاعت: 1985
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.