یار اپنے اپنے ہیں یاروں کے بیچ
میں اکیلا پڑ گیا یاروں کے بیچ
تیری زلفوں سے رہا ہونے کے بعد
ہم بہت بھٹکے ہیں رخساروں کے بیچ
موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
میں ہی بس اچھا ہوں بیماروں کے بیچ
اے خدا تو ہی بتا آخر میں کیوں
گھومتا جاتا ہوں سیاروں کے بیچ
گھر سے خوش قامت وہ نکلا ہی نہیں
اور قیامت سی ہے بازاروں کے بیچ
پار کر لی یہ سڑک لوگوں نے اور
میں کھڑا ہی رہ گیا کاروں کے بیچ
گھر بنانے میں کٹی ہے زندگی
لگ چکے ہیں ہم بھی دیواروں کے بیچ
ہر طرف اللہ اکبر کا ہے شور
گھر گئی ہے خامشی نعروں کے بیچ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.