یاس کا بوجھ اٹھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یاس کا بوجھ اٹھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
لوگ امیدیں سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں
خواہشیں زیست سے لپٹی ہیں پشاچوں کی طرح
ہم جنہیں خون پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
دھیان میں جس کے سوا کچھ بھی نہیں رہتا تھا
اب اسے دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
تو جو اٹھلا کے رقیبوں سے گلے ملتا ہے
ہم تری بزم میں آتے ہوئے مر جاتے ہیں
وہ بھی کر دیتے ہیں اک روز تعلق کو شہید
جن کو ہم لوگ بچاتے ہوئے مر جاتے ہیں
رت جگے آنکھ کی دہلیز سے ہٹتے ہی نہیں
خواب نیندوں کو بلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کیوں مریں اشک بہاتے ہوئے ہم صحرا میں
آئیے پیڑ لگاتے ہوئے مر جاتے ہیں
لوگ فرمائشیں کرتے ہیں انہیں کی فیصلؔ
ہم جو اشعار سناتے ہوئے مر جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.