یہ دل جو پیکر صد نور تھا اب تیرگی میں بیش و کم ملتا ہے مجھ کو
یہ دل جو پیکر صد نور تھا اب تیرگی میں بیش و کم ملتا ہے مجھ کو
یہی وہ ڈوبتا بجھتا ستارہ ہے جو اپنا ہم قدم ملتا ہے مجھ کو
کوئی لمحہ نہیں آتا طرب زار تمنا میں لہکتا گنگناتا
جسے آواز دیتا ہوں وہ اوروں کی طرح مائل بہ رم ملتا ہے مجھ کو
یوںہی گھٹ گھٹ کے جینے پر مجھے اکسا رہے ہیں دیکھیے حالات میرے
میں جتنا غم سے بچنا چاہتا تھا دوستو اتنا ہی غم ملتا ہے مجھ کو
مسلسل ایک محرومی کا بادل ہے جو کتنے ہی گھروں پر چھا گیا ہے
اب ان آنکھوں کی قلت ہو گئی ہے جن میں سیرابی کا نم ملتا ہے مجھ کو
ہزاروں پھول سے پیکر معاشی دھوپ میں کمھلا گئے ہیں دیکھ لیجے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہاں ہر شخص آتش در شکم ملتا ہے مجھ کو
کسی کا خوش تمازت لمس شب ڈھلتے ہی لگتا ہے ادھورے خواب جیسا
عجب اک سرد سا موسم ہے جو اپنے لہو میں صبح دم ملتا ہے مجھ کو
یہ لگتا ہے کسی غفلت زدہ لمحے میں مجھ کو مار ڈالیں گے حوادث
میں جن رستوں میں ہوں یاورؔ وہاں اکثر ہلاکت خیز خم ملتا ہے مجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.