یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے
یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے
کہ تیری آنکھیں جاگتی ہیں کس کے خواب کے لیے
کتاب دل پہ لکھنے کی اجازت اس نے دی نہ تھی
ہے سادہ آج بھی ورق یہ انتساب کے لیے
مری نظر میں آ گیا ہے جب سے اک صحیفہ رخ
کشش رہی نہ دل میں اب کسی کتاب کے لیے
ہماری محضر عمل ہے زیر فیصلہ ابھی
کھڑے ہیں سر جھکائے کب سے احتساب کے لیے
پرانے پڑ چکے کبھی کے سب طریقۂ ستم
خرابی اور چاہئے دل خراب کے لیے
سمجھ رہے ہیں سب یہاں ہے زندگی عذاب جاں
مگر یہ بھاگ دوڑ ہے اسی عذاب کے لیے
تمام جسم زخموں سے گلاب زار ہو گیا
تو لڑ رہے ہیں انجمؔ اب یہ کس گلاب کے لیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.