یوں تو ہوس بخشش و انعام بہت ہے
یوں تو ہوس بخشش و انعام بہت ہے
مل جائے جو ساقی سے وہی جام بہت ہے
کیا صاف نظر آئیں بدلتے ہوئے چہرے
دھندھلا ابھی آئینۂ ایام بہت ہے
نظروں کو تو کچھ آپ کی کہتا نہیں کوئی
کیوں دل پہ مرے یورش الزام بہت ہے
ہے مصلحت وقت کا شاید یہ اشارہ
مجھ پر جو ابھی بارش اکرام بہت ہے
دیکھا ہی نہیں ظرف کو اپنے کبھی تم نے
اور دل میں ہوس بادۂ گلفام بہت ہے
آئے گی شب وصل بھی اے ظلمت ہجراں
مانا کہ تری زلف سیہ فام بہت ہے
تاراجیٔ گلشن کی خبر مل گئی شاید
مصروف فغاں صید تہہ دام بہت ہے
ممکن ہے بدل جائیں کبھی وقت کے تیور
مانا کہ ابھی تلخیٔ ایام بہت ہے
رہنے نہیں دیتا ہے کہیں چین سے مجھ کو
آزردہ جو مجھ سے دل ناکام بہت ہے
شامل ہیں تری بزم میں رندان بلا نوش
میرے لئے بس درد تہ جام بہت ہے
پہچان گئے ہم جو زمانے کی نگاہیں
تیرا یہ کرم گردش ایام بہت ہے
کیوں چھیڑئیے آغاز محبت کا فسانہ
دل میں خلش نشتر انجام بہت ہے
ہم کو بھی بھروسہ ہے بہت اپنی خودی پر
ہونٹوں سے اگر فاصلۂ جام بہت ہے
زندہ رہے بہزادؔ تو پوچھا نہ کسی نے
سنتے ہیں کہ مر جانے پہ کہرام بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.