یوں تو یہ انفس و آفاق ہیں مظہر میرے
یوں تو یہ انفس و آفاق ہیں مظہر میرے
ایک دنیا ابھی آباد ہے اندر میرے
دائرہ وار نہیں ایک ہی مرکز کو محیط
میں وہ پرکار بدلتے رہے محور میرے
کتنے دکھ ہیں جو رہے تشنۂ اظہار اب تک
کوزۂ حرف سے سمٹے نہ سمندر میرے
اپنے قامت کا بھی اندازہ ہو کچھ تو مجھ کو
لیکن آتا ہی نہیں کوئی برابر میرے
جن محاذوں پہ قوی پایا نہ دشمن اپنا
ان محاذوں سے پلٹ آئے ہیں لشکر میرے
ہر قدم پر مری پہچان بدل جاتی ہے
جتنے رشتے ہیں مرے اتنے ہی پیکر میرے
آسماں گیر ہے اس حبس میں میری پرواز
ان فضاؤں میں توانا تو ہیں شہپر میرے
مشترک جذبۂ اظہار ہو پھر کیوں نہ کہوں
سب سخن میرے ہیں اور سارے سخنور میرے
میرے انکار کی توہین نہ کیجے تابشؔ
آپ آنکیں نہ خذف ریزوں سے گوہر میرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.