Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زبان بے زبانی

اختر حسین رائے پوری

زبان بے زبانی

اختر حسین رائے پوری

MORE BYاختر حسین رائے پوری

    میں برگد کا ایک عمر رسیدہ درخت ہوں، غیر فانی اور ابدی!

    نہ جانے کتنی مدت سے میں تن تنہا اور خاموش کھڑا ہوں۔ برقرار نہ بیقرار! بےزبان اور نغمہ زن! یاد نہیں کتنی مرتبہ کڑکڑاتی سردیوں میں اپنی بےبرگ شاخوں سے کوہاسہ کی چادر ہٹا کر میں نے فریاد کی ہے، نہ معلوم کتنی مرتبہ آتشیں گرمیوں میں اپنی پیاسی اور حسرت بھری لاتعداد آنکھیں میں نے آسمان کی طرف اٹھائی ہیں۔ نہ معلوم کتنی مرتبہ موسم گل میں عطر بیز نسیم بہار نے میرے بے حس جسم میں سنسنی ڈال دی ہے لیکن کچھ دنوں سے میں لاغر اندام ہو رہا ہوں۔ میرے چہرے پر جھریاں پڑ گئی ہیں۔ جسمانی تاثرات سے میں بےپروا ہو گیا ہوں۔ میری پتیاں گر گئی ہیں سردیاں اور گرمیاں میرے لئے یکساں ہیں۔

    لیکن بہار! اس کے تصور مںک ہی ایک ایسا جادو ہے، اس کے تخیل میں ہی ایک ایسی کشش ہے کہ میری ان بے حرکت رگوں میں نئی زندگی کی بجلی دوڑنے لگتی ہے اور ساتھ ساتھ ایک اندوہگیں پشیمانی خون کی ایک ایک بوند میں گھر کر لیتی ہے۔ بہار! یہ لفظ کتنا سوگوار ہے اور کتنا جان سپار۔ جب حد نظر تک راتوں رات لاتعداد کنول کھل جاتے تھے اور میں اپنے آپ کو پھولوں کے ایک ناپیدا کنار سمندر میں کھڑا پاتا تھا تو یہ محسوس ہونے لگتا کہ جہان رنگ و بو میں سورج نئی شان کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ اس شان کے ساتھ کہ اس میں تپش نہیں، صرف چاند کی حلاوت رہ گئی ہے۔ پیمانۂ دل مسرت اور احسان سے چھلنے لگتا تھا لیکن اس احساس میں اطمینان نہ ہوتا تھا۔ وہ مسرت اس روحانی سوز کو دبا نہ سکتی تھی جو تمناؤں کے ساز پر ہمیشہ درد کے ترانے الاپا کرتا ہے۔ حسن و جمال کی اس جولا نگاہ میں بڑھاپا اپنی دزدیدہ نگاہیں ڈال کر یکایک مسکرا دیتا تھا اور میرے سکون اور اطمینان کو ایک کھٹک اڑا لے جاتی تھی۔

    تخیل تمناؤں کی آغوش میں پروان چڑھتا ہے۔ جب بڑھاپے کا خیال مجھے بے چین کرتا تو میں ایک جہانِ نو کی بنا ڈالتا۔ ایسا جہان جس میں برگدکی شاخوں میں بھی پھول لگتے ہیں، رنگا رنگ کے پھول، جن سے ٹہنیاں دلہن بن جائیں، ایک شاخ میں یاسمین دوسری میں گلاب، تیسری میں نرگس، پستی سے لے کر بلندی تک میں کل بداماں ہوتا! آہ وہ تصورکتنا روح پرور تھا؟ لیکن عہد کہن کی ان داستانوں میں کیا رکھا ہے۔ اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں اور یہ ’’امر بیل‘‘۔ لامحدود اور لازوال۔ مچلتی اور لچکتی یہ امربیل!! اب مجھ پر محیط ہو چکی ہے۔ میں عظیم الشان اور پر وقار ہوں لیکن میری عظمت اور شوکت نے ہی مجھے اس چنچل ’’انیلی بیل‘‘کے آگے بے بس کر دیا ہے۔ ایک دن یہ ننھی اور حقیر بیل میرے قدموں سے لپٹی رہتی تھی لیکن آج اس نے میرے جسم کو زنجیروں سے کس دیا ہے اور میری مغرور گردن کو خم کرنا چاہتی ہے۔

    اس کی گرفت کتنی جانکاہ ہے۔ کتنی روح فرسا اور دردناک! تمنا کی طرح لادو اور فراق کی طرح یاس انگیز، جو میرے ناتواں جسم کو پیس کر اس کی تازگی اور شگفتگی سلب کر لینا چاہتی ہے اور میں۔ حرماں نصیب اور بدبخت ’’میں‘‘ ماضی کی یاد میں اشکبار اور مستقبل سے خوف زدہ میں۔ اس بے حقیقت بیل کی خواہش کے آگے مائل بہ خود سپردگی نظر آتا ہوں۔

    تاہم گاہے گاہے محسوس ہوتا ہے کہ اس بیل کے مس میں کوئی مقناطیسی کشش ہے جس طرح کسی باکمال کے رباب کی جھنکار خفتہ اور مردہ راگوں کو زندہ کر دیتی ہے، جس طرح موت کی ہچکیاں بھرتے ہوئے بھی سرما بہار کی رنگینیوں سے دو چار ہو کر دم بھر کے لئے جوان ہو جاتا ہے۔ ہاں اسی طرح میرے تمام جسم میں، میری ٹہنیوں میں اور میری بتیوں میں، دل کی ایک ایک دھڑکن اور نبض کی ایک ایک چپک میں اس کا مس ایک دل نواز بے دلی اور دھندلی سی تمنا پیدا کر دیتا ہے۔ اس وقت دفعتاً میں سوچنے لگتا ہوں کہ میری ٹہنیوں میں اتنی ہی لچک ہوتی جتنی اس ’’امربیل‘‘ میں ہے۔ تو میں اس کی گرفت کو اور بھی مضبوط کر دیتا اور اس بوسہ کو پوری زندگی کی درازی عطا کرتا۔ لیکن الہٰی! تو نے مجھے ایسا کیوں بنایا کہ میں محبت حاصل کر سکتا ہوں، واپس نہیں کر سکتا۔ پریت کے گیت سمجھ سکتا ہوں، گا نہیں سکتا۔

    جب بادۂ عشق میں سرشار ہو کر جذبات دل کو عالم آشکار کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو یکایک مجھے اپنی بے حسی کا احساس ہونے لگتا ہے اور ارمانوں کے ہجوم پر جیسے اوس پڑ جاتی ہے۔ میری بےتابی کا صرف ایک ثبوت ہے۔ پتوں کی خاموش جنبش! ان کی دھیمی دھیمی سرسراہٹ سوز نہانی کی سرگم ہے۔ اف اتنا تندد توانا ہو کر بھی ایک ننھی سی بیل کے آگے میں کتنا مجبور ہوں۔

    بہار نسیم، گل و بلبل، آہ وزاری۔ رنگین خوابوں کا ایک میلہ!لیکن زندگی کی پت جھڑ میں بہار کی ان محفلوں کو میں کیوں یاد کرتا ہوں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری دنیا ان سے محروم ہو چکی۔ اب میں ایک دوسری دنیا میں رہتا ہوں جہاں غنچے نہیں چٹکتے، جہاں ارمانوں اور حسرتوں کے سوا کچھ نہیں۔ وہ بھی ایسی کہ ان میں کیف و سرور نہیں غم و غصہ کی ایک جھلک رہ گئی ہے۔ اب بھی ارد گرد بہاراں میں زمین گل فروش بن جاتی ہے اور ذرہ ذرہ فرط انبساط میں متوالا ہو جاتا ہے۔ میرا دل بھی بھر آتا ہے لیکن اس میں محبت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ دریائے حسن کے بیچوں بیچ کھڑا ہو کر بھی میں ایک لگاؤ محسوس کرتا ہوں گویا ستاروں سے مصروف گفتگو ہوں جس محفل سے میں اٹھ آیا اس میں شمول کی آرزو نہیں کرتا۔ میری تمام تر توجہات ایک دوسرے ہی جہان کی تعمیر کے لئے وقف ہوتی ہیں جس کا تخیل میرے ناسوروں کو پرچاتا رہتا ہے۔

    یہ بیل فنا پر حاوی اور ابد و بقا کی ندیم ہے۔ جب میں زمین کے دامن میں لیٹ جاؤں گا تو شاید وہ جسم سے لیٹی رہےگی اور اس کی باقی ماندہ طاقت کو چوستی رہےگی۔ ایک وہ دن تھا جب اس کا بیج ابھرا تھا اور میں جوان تھا۔ میرے سڈول جسم میں مسرت کی امنگیں موجزن تھیں اور روح کا ایک ایک تار فطرت کے رباب کے ساتھ غزل خواں تھا۔ میری وسیع جڑوں کے وسط میں اس کے ننھے سے بیج نے سر نکالا۔ اس کی زرد کونپلوں نے سہارے کی التجا کی اور مایوس و ناکام مرجھانے لگیں ہاں، اس وقت اسے گلے لگا کر مجھے کتنی خوشی ہوتی تھی۔ ایسی جیسے بچے کو گود میں لے کر باپ کو ہوتی ہے۔ ایک عرصہ تک اس کی بانہیں دل میں یہی جذبہ پیدا کرتی رہیں۔ لیکن چشم بد دور رفتہ رفتہ وہ ایک نئے سانچے میں ڈھلنے لگی اور اب اسے چھونے کے بعد وہ معصومیت اور شفقت محسوس نہ ہوتی تھی۔ اس میں ایک ایسا عجیب بانکپن پیدا ہو گیا جو میری آزادی پر پھندے ڈالنے لگا میں جب کبھی کچھ سوچنا چاہتا تو اسی کی یاد آتی۔ گوکہ اس یاد میں حیا بھی تھی اور تمنا بھی۔ فرض کے ساتھ اس پر مر مٹنے کی آرزو بھی، پیاس کے ساتھ سکون تھا اور لاگ کے ساتھ ایک لگاؤ، آج جس جذبہ کی گہرائیوں تک میں پہنچ چکا ہوں۔ ان دنوں اس کی سطح کو بھی نہ دیکھ سکا تھا۔ اس انقلاب پر میں ہمیشہ تصویر حیرت بنا رہتا اور یہ حیرت بھی مسرت، نفرت، تمنا و اطمینان سے لبریز تھی۔

    میرے قدموں پر ایک چھوٹا سا پتھر پڑا ہوا تھا جس پر گاؤں کی عورتیں اکثر سیندور اور چندن ملا کرتیں، کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ ان کی نازک انگلیاں مجھ پر سیندور کی ایک گہری لکیر کھینچ دیتیں۔ یہ بھی دیکھا کہ کوئی دوشیزہ بڑی سادگی سے میرے سنگین جسم کو اپنے سیمیں بازؤں میں لپیٹ لیتی، نرم ہونٹوں سے میرے آہنی تنے کو بوسہ دیتی اور اس سنگ جبیں کو آنسوؤں سے نہلاکر چلی جاتی تھی۔ شاید اس سے اس کے قلب حزیں کو کچھ قرار ہو جاتا تھا لیکن مجھ پر ان کے نازو نیاز کا مطلق اثر نہ ہوتا تھا، ہاں جب کوئی بدبخت میرے دامن کو تھام کر آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہتی، ’’دیوتا میری مراد کب بر آئےگی۔‘‘ تو میں بھی پسیج جاتا اور اپنےپتوں کو ہلا کر کچھ کہنا چاہتا لیکن خبر نہیں کہ میرے اشاروں کو وہ سمجھتی تھی یا نہیں۔ میں سوچتا رہ جاتا کہ کاش بےگل و ثمر برگد نہ ہو کر میں پھولوں کا ایک پودا ہوتا۔ کم از کم اپنی ہمدردی کا اظہار تو کر سکتا۔ جب حسن کی وہ مورت مجھے چھوتی تو مرجھائے ہوئے پھول پھر کھل جاتے اور اس کے قدموں پر اشک آسا برس کر گویا میرا پیغام پہونچا دیتے، لیکن دل ہی دل میں یہ منصوبہ باندھتا رہ جاتا اور وہ چلی جاتی۔

    تاہم ان کی قربت میرے جسم میں تھر تھری پیدا نہ کر سکتی تھی۔ میں ازسر تاپا کانپنے لگتا تھا لیکن کبھی جب کوئی دوشیزہ میری نازک اندام بے زبان بیل کی کونپلوں کو توڑ کر مجھ پر بکھیر دیتی تو میرے دل پر چوٹ لگتی تھی لیکن جتنا غم وغصہ ہوتا اسے ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ جمال باری سے دل ہی دل میں میں فریاد کرتا اس امید پر کہ وہ روح کی آواز کو پہچانتا ہے۔ ’’یارب اس عورت کو بھی اتنا ہی کرب و الم نصیب ہو۔‘‘ وہ بےچاری مجھے دیوتا مان کرپھولوں کی نذر چڑھاتی اور اسے میں بد دعا دیتا۔ محبت کے نشے میں میں مدہوش تھا حتی کہ عقل و خرد سے بھی واسطہ نہ رہا تھا۔ کتنی عجیب و غریب تھی وہ محبت؟ کاش کہ میں جانتا ہوتا! کاش کہ میں جانتا ہوتا!

    لیکن کیا سب کچھ سمجھنے کے باوجود میں اس دام میں گرفتار ہوتا؟ گو کہ یہ بیل آج میرے جسم کے ایک ایک بند پر حاوی ہو چکی ہے تاہم اس کا مس مرے لئے کتنا ولولہ انگیز ہے۔ محبت آئینہ کی طرح شفاف ہوتی ہے۔ ہر آدمی اس میں اپنا عکس رخ دیکھتا ہے ایک بار چور چور ہو جانے کے بعد اس کے ٹکڑوں میں یکجائی ہو جائے تو ہو جائے لیکن وہ صفائی کہاں سے آئےگی؟ آئینہ میں ہمیشہ کے لئے بال پڑ جاتا ہے۔ عشق وار پر وار سہتا ہے پیہم ناکامیوں کے بعد بھی اف نہیں کرتا لیکن وہ کمال درجہ خوددار اور غیور ہوتا ہے۔ صرف ایک جھڑکی اس کی شمع زندگی کو گل کرنے کے لئے کافی ہے۔ آج یہ بیل میری زندگی میں اتنا دخل حاصل کر چکی ہے لیکن اس کشش میں عشق کا جزو بھی نہیں، یہ بے کلی عشق کا پر تو نہیں بلکہ اس کی یادگار ہے اور بس۔

    داستان محبت کی جب ورق گردانی کرتا ہوں تو دل میں ٹیس سی اٹھتی ہے۔ محبت سے جو امید یں وابستہ تھیں وہ سب تشنۂ تکمیل رہیں اور اس کا سزاوار میں ہرگز نہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے مجھ سے اس امربیل سے اور مجھے دیوتا سمجھنے والی ان الہڑنادانوں سے انصاف نہیں کیا۔ بےگناہ ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے کسی حق سے، ایسا حق جو ناقابل بیان ہے۔ محروم کر دیئے گئے۔ جب یہ خود فریبی چٹکیاں لینے لگتی ہے تو آرزو ہوتی ہے کہ کاش میں درخت نہ ہوتا انسان ہوتا۔ ایک دائرہ میں زندگی بھی رواں دواں اور جوان ہوتی تاکہ محبت کا اظہار کر سکتا اور اس طرح بے زبان دبے قرار نہ ہوتا!

    لیکن کیا قلب انسانی میرے جذبات کا احساس نہیں کر سکتا؟ کیا انسان کی محبت اتنی مختلف ہے؟ کیا اس کی فریاد کی کوئی لے ہے؟ کیا اس کی تانوں میں کوئی لے ہے؟ کیا میرے جذبات کی ترجمانی کے لئے وہ گہری سانس کافی نہیں جو طوفان کی آمد کا پتہ دیتی ہے؟ کیا انسانوں کی دنیا میں بھی محبت کا پھول اندھیرے میں کھلتا اور مرجھاتا نہیں ہے؟ کیا ان میں بھی محبت کی انتہا یہ نہیں ہے کہ گفتگو کے لئے الفاظ ناکافی ہو ں اور صرف سانسوں کا اتار چڑھاؤ جہان معنی میں ارتعاش پیدا کرسکے؟ کیا ان میں بھی تمناکے بعد پشیمانی اور فریاد کے بعد شرمساری پیدا نہیں ہوتی؟ ندی کی طرح انسان ہمیشہ گردش میں ہے اور ہم پہاڑ کی طرح اچل ہیں لیکن ہم اس سےکہیں زیادہ عمر دراز رکھتے ہیں اور مستقل ہیں۔ انسان کی محبت ایک شمع ہے جو بجھنے کے لئے روشن ہوتی ہے۔ ہماری محبت کی مثال جگنو سے دی جا سکتی ہے جو تاعمر جلتا ہے اور بعد از مرگ بھی روشن رہتا ہے۔

    ایک زمانہ گزرا۔ ان دنوں مجھے اس ’’امربیل‘‘ کی نازبرداری سے فرصت نہ تھی۔ اول اول اس کے بوسوں میں مجھے ایک لذت محسوس ہونے لگی تھی اور اس نئے جذبہ کے اسباب و اثرات معلوم کرنے میں میں اتنا محو تھا کہ گردو پیش سے قطعا بے نیاز ہو گیا تھا۔ بھولے بھٹکے اپنے ماحول پر ایک آدھ نگاہ غلط انداز ڈال دیا کرتا تھا۔ جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں وہ آرزو پیش آتا تھا اور اس سے باخبر ہوتے ہوئے بھی میں بےخبر تھا۔ تاہم نادانستہ طور پر یہ حادثہ مجھ پر ایسا گہرا نقش چھوڑ گیا کہ اسے میں آج تک نہ بھول سکا۔

    جو بت میری قدم بوسی کر رہا تھا، اس کی پوجا کے لئے صدہا عورتیں آتی تھیں۔ روز کوئی پرانی پجارن غائب ہو جاتی اور اس کی جگہ لینے کے لئے کوئی نئی حسن کی دیوی آ جاتی تھی۔ یہ نئی نویلی شرم کے بار سے دبی جاتی تھی۔ نرگسی آنکھیں زمین میں گڑی جاتی تھیں اور رخ پرنورتار نقاب کے اندر بھی عرق عرق ہو جاتا تھا۔ مجھے بے جان سمجھ کر وہ کبھی میرے جسم کا سہارا لیتی اور کبھی اپنے ناخون سے میرے تنے کو کریدا کرتی۔ میرا دل تیزی سے دھڑکتا اور میں گہری سانس کھینچ کر خاموش ہو جاتا۔ مبادا وہ سہم نہ جائے ایک لمحہ کے بعد نقاب اس کے رخ روشن کا پردہ دار بن جاتا۔ پھولوں کے ہار اس کے بیدار جذبات کو تھپکیاں دیتے اور چھاگل کے گھونگرو ان پیروں کو چوم کر رقص کرنے لگتے تھے۔

    ان مہوشوں میں سے ایک کا وتیرہ سب سے جدا تھا۔ نگاہیں سمیٹے سب سے چھپ کر وہ میرے پاس آتی اور سر جھکا کر فوراً چلی جاتی تھی۔ اس خوف سے کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔ زیبائش سے وہ اتنی ہی دور تھی جتنا کہ چاند۔ نہ اس کی جبیں پر کم کم ہوتا نہ پیروں میں چھاگل۔ اس کی سادگی سفید ساری سے یوں چھن چھن کر نکلتی تھی، جیسے دوشیزۂ صبح سفید بادلوں میں تیر رہی ہو۔ اس کی آمد کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ کبھی وہ صبح میں آتی۔ کبھی دوپہر میں اور کبھی دونوں وقت ملتے۔ جب وہ شام کو آتی تو اسی ’’امربیل‘‘ کو تھام کر میری گھنی چھاؤں میں بیٹھ جاتی، جب تک سورج شب کے محل میں آرام کرنے نہ چلا جاتا وہ اپنی پرحسرت نگاہوں سے اس منزل ناتمام کو تاکا کرتی۔

    ماضی ناکامیوں کی آماج گاہ اور مستقبل امیدوں کا آئینہ ہے۔ ماضی افسردگی کے قلم سے اس کے چہرے پر ناکام آرزؤں کے افسانے لکھا کرتا۔ جب اس کے سینے سے گہری سانسیں نکلتیں تو میرا پتہ بھی ضبط نہ کر سکتا اور پیہم چیخ اٹھتا تھا کبھی اس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلتا اور نہ وہ کوئی دعا مانگتی۔ ہاں گاہے گاہے وہیں بیٹھ کر وہ کچھ گنگناتی ضرور تھی لیکن ان نغموں کو میں نہ سمجھ سکتا تھا۔

    پہلے تو میری توجہ اس کی طرف منعطف ہی نہیں ہوئی لیکن شام کے سناٹے میں جب وہ عموماً ادھر سے گزرنے لگی تو میری دلچسپی بھی رفتہ رفتہ بڑھتی گئی۔ سورج ڈھلتے ہی میں بےتابی سے اس کا انتظار کرنے لگتا اور اس کے آنے میں جتنی تاخیر ہوتی ہول دل اتنا ہی بڑھ جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ خلاف معمول ایک روز وہ نہ آئی تو میں دیر تک اس کا اتنظار کرتا رہا۔ دامن مغرب میں سورج نے منہ چھپا لیا۔ لیلائے شب نے نقاب سے سرنکالا، ستاروں کی انجمن منعقد ہوئی چاند کی کرنوں نے اپنا ساز چھیڑا، کہکشاں نے آسمان پر بجلیاں بکھیر دیں۔ پھر بھی وہ نہ آئی!

    دو دن تین دن، سینکڑوں ہزاروں دن آئے اور چلے گئے لیکن وہ نہ آئی یہاں تک کہ میں نے اس کے انتظار سے منہ موڑا اور اپنے منتشر جذبات کا مرکز اسی با وفا امربیل کو بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ میں اسے بھول چکا تھا کہ ایک روز وہ آ گئی۔ ایک ہیبت ناک خواب کی طرح وہ دن مجھے یاد رہےگا۔ گھنگھوربادل چھائے ہوئے تھے۔ غضب کی سردی تھی۔ باد تند کے جھکولے کھا کھا کر امربیل تھر تھرا رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے اپنے کس پہلو میں جگہ دوں۔ یکایک دیکھا کہ اسی خاک آلود راستے پر وہ تیزی سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن وہ بدل چکی تھی۔ وہ جمال جہاں آرا بوئے گل کی طرح غائب ہو چکا تھا۔ چہرے پر اتنی جھریاں تھیں گویا عمر رفتہ نے اپنی آستینوں کو چنا ہو، آنکھوں میں حلقے پڑ گئے تھے۔ ہونٹ سوکھ کر لٹک گئے تھے۔ جب میں نے دونوں تصویروں کا مقابلہ کیا تو وحشت سی ہونے لگی۔ قریب آ کر نہ اس نے ہاتھ باندھے نہ سر جھکایا اور نہ اس بیل کا سہارا لیا۔ ایک مرتبہ چاروں طرف دیکھ کر وہ مجھ سے لپٹ پڑی اور زار زار رونے لگی۔ آہ! میں اس کے گیت سننے کا آرزومند تھا۔ آنسوؤں کی زبان کو میں کیا سمجھ سکتا۔

    میں نے دیکھا کہ وہ صرف ساری باندھے ہوئے ہے جو جگہ جگہ سے شکستہ ہو چکی تھی۔ بال بکھرے ہوئے، پیر خون میں رنگے ہوئے جسم نازنیں خاک آلودہ، روتے روتے وہ کہنے لگی، ’’دیوتا؟ سب نے مجھے ٹھکرا دیا۔ انسانوں کے رحم وکرم سے میں محروم ہو چکی۔ میں نے بےوفائی کی، احسان فراموشی کی۔ کس امید پر؟ محبت نے میری آنکھوں پرپٹی باندھ دی تھی محبت؟ فریب،مکر، دھوکا؟ اس ظالم نے مجھے دین ودنیا، کہیں کا نہ رکھا۔ مہذب دنیا اب مجھے عصمت فروش ہرجائی کے نام سے پکارتی ہے۔ دیوتا! کیا تم مجھے اپنے دامن عاطفت میں جگہ دوگے۔ جانتے ہو، اپنے کاندھوں پر کیسے گناہ عظیم کا بار لئے آئی ہوں؟ میں ایک ایسے بچے کی ماں ہوں جس کا باپ بننے کے لئے کوئی مرد تیار نہیں۔ دیوتا! کیا تم میرے گناہوں سے درگزر کروگے۔‘‘

    اس کی فریاد میرے لئے ناقابل برداشت تھی۔ میں سوچنے لگا کہ اپنی ہمدردی کا اظہار کس طرح کروں۔ کاش کہ شبنم کے کچھ قطرے ہی ٹپک پڑتے جن پر اسے میرے آنسوؤں کا گمان ہو جاتا۔

    نقاہت کی وجہ سے اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی اور وہ بےہوش ہوکر گر پڑی۔ کئی گھنٹے گزر گئے اور وہ اسی حال میں پڑی رہی، بعد ازاں اس کا جسم یکبارگی لرزا اور پھر ایننے یا لگا۔ وہ خواب میں بڑبڑانے لگی، ’’کیا عورتوں کو دراصل خدا نے ہی پیدا کیا تھا؟ اور اس بچےکو۔ اس بچے کی پیدائش کا ذمہ دار کون ہے؟ خیر میں ہی سہی لیکن میرے گناہوں کا خمیازہ وہ کیوں اٹھائے؟ خدا رحیم و کریم ہے۔ شاید مردوں کے لئے لیکن عورتوں کا خدا کہاں ہے؟ خدا، جنت، روح، دنیا، عاقبت، سب مردوں کے لئے۔ آہ میرا بچہ! میرابچہ!‘‘

    آسمان پر ستاروں کو نیند آنے لگی۔ مشرق میں صرف ایک ستارہ جگمگاتا رہ گیا۔ نسیم صبح کی خنکی تیز تر ہو گئی۔ شب کی سیاہی اور بھی گہری ہو گئی۔ اسی عالم سکون میں یکایک ایک روح فرسا چیخ اس کے سینے سے نکلی اور وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے اپنی پھٹی ہوئی ساری کو تار تار کر ڈالا اور پھر گر پڑی۔ ایک ہچکی اور ایک چیخ۔ کتاب زندگی کی یہ تفسیر تھی وہ مر چکی تھی۔

    جب سورج کی روشنی پھیلی تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے سامنے برہنہ پڑی ہے۔ اس کا جسم زرد ہو گیا تھا۔ ناخن نیلے پڑ گئے تھے، بازو میں پھٹی ہوئی ساری پڑی تھی۔ جس پر ایک بچے کی خون آلود لاش رکھی ہوئی تھی۔ برسات کے پانی میں یہ خون دور تک بہہ نکلا تھا اور آس پاس کی مٹی پر ایک سرخ تہہ چڑھ گئی تھی۔

    جذبۂ محبت کی یہ مثال تھی جس کی حقانیت اورعظمت کے متعلق انسان عجیب وغریب باتیں کہا کرتا ہے۔ ممکن ہے میرا قیاس غلط ہو، ممکن ہے کہ محبت کے غلط مشاہدات نے میرے تخیل کو بھی ناقص بنا دیا ہو۔ کیا یہ دوپایہ جو اپنے آپ کو انسان کہتا ہے۔ اتنا شقی القلب اور سیاہ باطن ہو سکتا ہے؟ اس خیال سے میں اپنے آپ کو باز رکھنا چاہتا ہوں لیکن جب یاد کرتا ہوں کہ میری جڑیں ان دو بےگناہوں کے خون سے سینچی گئی ہیں جنہیں انسانیت نے محبت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا تھا تو میں حیوانیت کو اس پر فوقیت دیتا ہوں اور اپنی قسمت کو سراہتا ہوں کہ انسان نہ ہوا۔ وہ دونوں بےگناہ محبت پر قربان ہوئے یا سوسائٹی کے رواج پر یا مرد کی خواہشات نفسانی پر؟ وہ عورت بے گناہ تھی۔ وہ محبت کرنا چاہتی تھی لیکن اسے دھوکا ہوا وہ مرد کی ناپاک ہوس رانی کا شکار ہوئی لیکن جب اس کی محبت بے ریا تھی تو اسے مجرم کیوں قرار دیا گیا؟ وہ خود نفس پرست نہ تھی۔ اس ظالم سوسائٹی کو اس معصوم بچے نے کیا نقصان پہنچایا تھا؟

    انسان دراصل کس سے محبت کرتا ہے۔ اپنی خودی سے یا محبوب سے؟ اپنے پسندیدہ جذبات اور توہمات مجسمہ صورت سے تو سہمی ہوئی نظروں سے دائیں بائیں دیکھ کر مجھ سے بچتے ہوئے تیزی سے نکل جاتا۔ دن میں کچھ گستاخ لڑکے دور کھڑے ہو کر میری طرف پتھر پھینکتے اور بھوت بھوت کا شور مچایا کرتے ان کا مطلب میں صاف صاف تو نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن ان کے اطوار میں حقارت اور نفرت کے آثار دیکھ کر مجھے دلی صدمہ ہوتا تھا۔ کیا انسان کی عبادت بھی اتنی ہی پادر ہوا ہے جتنی اس کی محبت؟ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب میں ایک زمانہ کا مسجود بنا ہوا تھا۔ میرا سنگِ آستاں اس گاؤں کا سنگ جبیں بنا ہوا تھا۔ حسینان عالم بصد شوق میرے آگے سر جھکا کر اپنے دکھ درد کا مداوا مانگتے تھے گویا میں ان سب لوگوں کا تنہا مشکل کشا تھا۔ حالانکہ میں ان کے آلام کا سد باب نہ کر سکتا تھا۔ تاہم اپنی خاموش زبان سے میں ان کی غمگساری تو کرتا تھا۔ میں بے حس اور بےزبان تھا۔ لیکن اس سے میری توقیر پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا۔ مقام حیرت ہے کہ جیسے ہی اس دکھیاری نے میرے پاس آ کر اپنی مصیبتوں کا خاتمہ کر لیا تو گویا میری ساری وقعت بھی اس خون میں دھل گئی۔ کیا ان تمناؤں اور دعاؤں میں صداقت کی ذرا بھی بو نہ تھی؟ اس روز پتہ چلا کہ انسانیت کو در اصل کون سا مرض لاحق ہو گیا ہے جب میں درد کے احساس سے نابلد تھا تو کتنے مریض آتے تھے، اب جو میں اس عالمگیر مرض کاعلاج معلوم کر چکا ہوں تو کوئی میرے قریب بھی نہیں آتا اور اس طرح یہ احساس میرے لئے جان لیوا ہو گیا ہے! عبادت اور محبت میں کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ محبت۔۔۔ روشنی ہے، عبادت تاریکی میں روشنی کی جستجو ہے۔ محبت امید ہے، عبادت ناامیدی میں امید کی تلاش ہے۔ محبت دریا کی پرسکون روانی ہے، عبادت تلاطم خیز سمندر میں ساحل کی تلاش ہے۔ میں محبت کو سمجھ سکتا ہوں کہ وہ زندگی ہے۔ میں عبادت کو نہیں سمجھنا چاہتا کہ وہ موت کا گیت ہے۔

    رفتہ رفتہ جنون و وحشت کا یہ دور گزر گیا اور میں از سرنو جوان ہونے لگا۔ میری کونپلیں ہری ہونے لگیں اور شاخوں میں شباب کی کج ادائی آنے لگی۔ میرے برگشتہ جذبات میں امید نے نئی تازگی پیدا کر دی۔ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کا ہر برگ و شجر امید کے ترانے الاپ رہا ہے اور زمین سے آسمان تک ہر شے موسیقیت کے نشہ میں متوالی ہو گئی ہے۔

    شہرت کی زندگی طویل نہیں، وہ نیک نامی پر محمول ہو یا بدنامی پراس روز میں نے اپنی توقیر کو خاک میں ملتے دیکھا تھا آج یہ کلنک کا ٹیکہ بھی مٹ گیا۔ عزت کا ستون ایک لمحہ میں مسمار ہو گیا تھا، دوبارہ اس کی تعمیر میں کئی سال لگ گئے، بارے آج وہ پھر کھڑا ہو گیا۔ اب راہ گیروں اور سیلانیوں کے غول بےخوف و خطر میرے قریب آنے لگے۔ گو کہ وہ میری پوجا نہ کرتے تھے، ایک نگاہ غلط انداز ڈال کر لاپرواہی سے میرے سائے تلے بیٹھ جاتے تھے۔ گاؤں کی عورتیں بھی میرے پاس بیٹھنے لگیں گو کہ وہ میری طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتی تھیں۔ یا تو یہ تغافل تھا یا غرور حسن۔ بہر کیف میں خوش ہوتا تھا کہ پسماندگی میں اپنے سائے کی ٹھنڈک سے انہیں کچھ دیر سکون تو پہونچا سکا اور تو اور ننھی لڑکیاں بھی میرے ارد گرد ناچنے لگیں، ان کے دل میں نہ عزت تھی نہ حقارت۔ ان کے لئے زندگی ایک رقص شرر تھی اور بس! آہ میرے ٹوٹے ہوئے مندر کی تعمیر از سر نو ہوئی تھی لیکن یہ وہ مندر تھا جس سے مورت غائب ہو گئی ہو اور لوگ اس سے سرائے کا کام لینے لگے ہوں۔

    قسمت نے پھر پلٹا کھایا۔ جب مشرق کی وادیوں سے دوشیزہ صبح آنکھیں ملتے نکلتی تو میری بلندیاں کوئل اور پپیہوں کے ساتھ غزل خواں ہو جاتیں۔ نسیم صبح کی جمال آرائیوں کو دیکھ کر میرے پتے فرط انبساط میں لرزنے لگتے۔ کنول کے پھولوں کی خوشبو ہواؤں کو مستانہ بنا دیتی۔ جب ساری دنیا بہ یک وقت تمام تر رنگینیوں کی جلوہ گاہ بن جاتی تو ’’وہ‘‘ آتی اور ان کھیتوں میں دیر تک چہل قدمی کرتی جن میں نیند کی ماتی کلیاں جاگنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ جب آفتاب کی گستاخ کرنوں کے بوسے اس کے رخساروں کو لالہ زار بنا دیتے اور اس کے لب پر پسینہ کی بوندیں شبنم کے قطروں سے چشمک زنی کرنےلگتیں تو وہ مسکراتی ہوئی میرے سامنے آ کھڑی ہوتی۔ اس کی سج دھج بھی نرالی تھی۔ اب تک میں نے کسی حسین میں یہ انداز نہ دیکھے تھے۔ یا تو اس کا لباس آسمانی ہوتا یا نرگسی اور ناگن لٹیں ہمیشہ لہراتی رہتیں اور اللہ رے دیدہ دلیری! اس کی نگاہیں کبھی نگوں نہ ہوتیں، ہمیشہ سامنے کی طرف تاکتیں۔ ان میں جھجک کا نام نہ تھا۔ ان میں ایک برق تجلی پنہاں تھی جو دیدار عام کی دعوت دے رہی تھی۔ شوخی اور جادو کی لاانتہا بجلیاں جو کیف آور پلکوں کے نیچے چھپی ہوئی تھیں گویا وہ عشق کی دنیا سے پوچھ رہی تھیں کہ اگر تیری پابندیوں کو توڑ دوں تو کیا ہو۔

    جب وہ میرے پاس بیٹھ جاتی تو اس کے چہرے کی جولانی اور تابانی کو دیکھ کر معلوم ہوتا کہ اس کا دل خوشی سے لبریز ہے۔ میں سوچنے لگتا کہ ایسی کونسی بات ہو سکتی ہے جس کا تصور اتنا خوش کن اور جاں نواز ہے، اکثر وہ ادھر آتی اور گھنٹوں عالم تخیل میں مسرت کے طلسم گڑھا کرتی اور مجھے کبھی اس خوشی کا راز نہ معلوم ہوتا۔

    لیکن یہ عقدہ کب تک حل نہ ہوتا۔ حیف جس جھوٹے دیوتا کی عبادت میں میں نے عمر گزار دی تھی یہ فریب خوردہ بھی اس کی ہی پجارن تھی۔ دریائے محبت میں اس نے بھی زندگی کی ناؤ ڈال دی تھی۔ کیا در حقیقت اسے ساحل کا پتہ مل گیا تھا۔ کیا وہ تمناؤں اور حسرتوں کے بھنور سے نکل چکی تھی، اب میں ان ہی گورکھ دھندوں کو سلجھانے کی کوشش کرنے لگا۔

    ایک روز اسی راستہ سے میں نے ایک نوجوان کو آتے دیکھا، اب تک یاد ہے ہاں خوب یاد ہے۔ ا س نے پجارن کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے تھے اور وہ مسکرا رہی تھی۔ آہ وہ مسکراہٹ!

    ان دونوں کی ملاقات سے مجھے ایک دلچسپ تجربہ ہوا جسے یاد کر کے اس بڑھاپے میں بھی میں ہنسا کرتا ہوں۔ انسان بلائے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد اپنا انداز تکلم بھی بھول جاتا ہے۔ وہ شاعری اور موسیقی کی دنیا میں بھٹکا کرتا ہے، پہلے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں ہوتی ہیں۔ جنہیں ہم بےجان نہیں سمجھ سکتے۔ آنکھیں اٹھتی ہیں جھپکتی ہیں اور جھک جاتی ہیں، کاش کہ میں جانتا ہوتا۔

    ایک عرصہ تک حجاب اور نظارہ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ کبھی نوجوان پہلے آتا اور زیر لب کچھ گنگنایا کرتا۔ گو میں اس کی آواز نہ سن سکتا تھا لیکن اس کی خود فراموشی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ جب وہ پہلے آتی تو کھیتوں میں ٹہلنے لگتی اور کبھی کبھی اوس سے بھیگا ہوا ایک آدھ تنکا اٹھا کر اپنے دانتوں کو کریدنے لگتی۔

    اب تک مجھے وہ دن یاد ہے۔ وہ نور کے تڑکے آئی اور دوپہر تک بیٹھی رہی۔ جب میں اس کے اضطراب کا تصور کرتا ہوں۔ اس خلش اور تپش کو یاد کرتا ہوں تو دل میں ایک کھٹک سی ہوتی ہے۔ عشق اپنا خراج مانگتا تھا۔ آنسوؤں کی صورت میں اور غرور و تمکنت کی ضد تھی کہ ان کی بات رہے۔ آنکھوں میں بار بار آنسو ڈبڈبا آتے تھے لیکن سوکھ کر وہیں رہ جاتے تھے۔ تھک کر میرے گھنے سایہ میں اس ’’امربیل‘‘ کو لپٹ کر وہ بیٹھ گئی۔ دوپہر تک وہ بیٹھی رہی۔ لیکن وہ نہ آیا۔

    آہستہ آہستہ اس کی پریشانی دور ہو گئی۔ اب انتظار تھا، اضطراب کا نام نہ تھا۔ انجام کار وہ اٹھی اور چلی گئی۔ جاتے جاتے وہ کہنے لگی۔ مجھ سے یا اس امر بیل سے اپنے آپ سے یا کسی نامعلوم آدمی سے، کہہ نہیں سکتا۔

    وہ کہنے لگی ٹھیک ہوا۔ اس محبت کا انجام بھی یہی ہوتا تھا اگر فرض منصبی کو بھول کر راحت کی جستجو ہی محبت کا ماحصل ہوتا تو کیا ہوتا؟ میں اپنے جذبات اور احساسات کو ظاہر نہ کر سکی لیکن اس سے کیا؟ میرے دل میں جو کچھ تھا اور ہے۔ اس سے میری زندگی روشن ہو گئی، محبت مجموعہ ہے رنج و راحت کا، ہجر و وصال کا، اضطراب و مسرت کا، محبت ضد کی گود میں پھولتی پھلتی ہے۔ ورنہ محبت کتنی بےمعنی اور بےلطف وہ جاتی۔‘‘ وہ اٹھی اور چلی گئی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری زندگی کےدائرے سے اوجھل ہو گئی لیکن اس کی خود فراموشی کو میں عمر بھر نہ بھولوں گا۔

    اس داستان غم کے ساتھ میری رام کہانی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ محبت انسانی کے میرے مشاہدات بھی ختم ہو گئے۔ سالہا سال سے جس سراب سحرا کی جستجو میں میں سرگرداں تھا۔ اس کا جواب مجھے ایک سوال کی صورت میں ملا ’’ورنہ ہماری محبت کتنی بے معنی اور بے کیف ہوتی۔‘‘ جس حقیقت کو میں ہنوز نہ سمجھ سکا تھا۔ ایک عورت نے ایک لمحہ میں اس کا پتہ دے دیا۔ اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ محبت کا پودا تنہائی اور تاریکی میں نشو ونما پاتا ہے، روشنی میں آتے ہی وہ مرجھا جاتا ہے۔ عشق کو ظاہر کیوں کیا جائے رسوائی کی آگ میں اسے کیوں جلایا جائے۔ میں اپنی محبت کا اظہار نہ کر سکا۔ جس سے زندگی تشنۂ تکمیل رہ گئی۔ لیکن اس سے کیا؟ اس خود فراموشی کا ایک لمحہ بھی تمام زندگی کے بار غم کا کفارہ ادا کر دے گا۔

    میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں دو عظیم الشان طاقتوں میں تنازعہ ہو رہا ہے۔ یہ طاقتیں باہم متضاد نہیں، ارتقا کے دو مختلف راستے ہیں۔ ان میں ایک طاقت ترکیبی ہے۔ گل و بلبل، چاند اور چاندنی، شب اور تاریکی، شفق اور روشنی کی ہم آہنگی میں یہ طاقت نمایاں ہوتی ہے۔ دوسری طاقت تخریبی ہے۔ طوفان میں توڑکر، برق بلا سے خرمن کو جلا کر، آگ اور خون میں بربادی کے نشان چھوڑکر وہ اپنی موجودگی کا ثبوت دیتی ہے۔ گاہے گاہے یہ دونوں طاقتیں کسی واقعہ میں اتنے عجیب طریقے سے آپس میں گھل مل جاتی ہیں کہ ہمارے تعجب کی انتہا نہیں رہتی۔ ہماری محدود عقل حیران رہ جاتی ہے۔ شاید محبت بھی ایسا ہی واقعہ ہے۔

    یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ اتنے وسیع تجربات اور عمیق علم کے باوجود میں دنیا میں اکیلا ہوں۔ نہ میں کسی کا ہوں اور نہ کوئی میرا۔ میں دوستوں کی تمنا کرتا ہوں لیکن ایک بے حس اور بےجان درخت کے لئے دوست کہاں ہیں، غمگسار اور ہمدم کہاں ہیں۔ ممکن ہے کہ پہاڑ کو کبھی کسی سہارے کی ضرورت نہ ہو لیکن چارہ سازی اور آشنائی کی تمنا دل کی گہرائی سے نکال پھینکنے کی جرأت میں اپنے آپ میں نہیں پاتا۔ تو بھی میری وسعت اور عظمت سے لوگ بے حد مرعوب ہو جاتے ہیں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی ہمدرد کا انتظار میرے لئے کتنا صبر آزما ہے۔ میرے چاروں طرف قدرت ارتقا کی بلندیوں پر ہمدردی اور محبت کی سیڑھیوں سے چڑھتی جاتی ہے اور میں تن تنہا بے چارگی کی حالت میں کھڑا یہ تماشا دیکھا کرتا ہوں۔

    لیکن اس وقت یہ خیال آتا ہے کہ مجھے اس فریاد کا کوئی حق نہیں۔ یہ سچ ہے کہ میری ہر خواہش پوری نہیں ہوئی میں کئی نعمتوں سے محروم رہ گیا۔ لیکن جو کچھ حاصل کیا وہ اس زندگی کے لئے کافی ہے۔ صدہا بار دنیا کو بہار کی رنگینیوں میں شرابور دیکھا ہے۔ ہزاروں آدمیوں نے میری قدم بوسی کی ہے اور بےشمار نازنینوں نے مجھے اپنا راز داں بنایا ہے۔ نہ معلوم کتنی مرتبہ اس ’’امربیل‘‘ کے بوسے میں مجھے بہار کی مدہوشی، برسات کی سحر پروری، خزاں کی گرمی اور سرما کی تندی کا لطف بہ یک وقت نصیب ہوا ہے۔ اس کی جان کاہ گرفت میں تڑپ تڑپ کر میں نے آزادی کی مسرت حاصل کی ہے۔ صرف ایک کھٹک دل میں باقی رہ جاتی ہے جو ہمیشہ روح کو ٹہو کے دیا کرتی ہے۔ وہ یہ کہ۔۔۔ میں بےزبان رہ گیا! میری تمنا ایک معنی بےلفظ ہو کر رہ گئی۔ لیکن غور کرنے کےبعد یہ خیال مجھے دلاسا دیتا ہے کہ میں ہی نہیں ساری دنیا بے زبان ہے۔

    جب اپنی بےچارگی کا احساس ہوتا ہے تو میں انسان کی بےچارگی پر نظر ڈالتا ہوں۔ جب سوچتا ہوں کہ قدرت نے محروم نطق رکھ کر مجھ پر ظلم کیا تو یاد آتا ہے کہ میں خود بھی تو اس دنیا کی ’’زبانِ بے زبانی‘‘ کا ایک خاموش تماشائی ہوں۔

    مأخذ:

    محبت اور نفرت (Pg. 10)

    • مصنف: اختر حسین رائے پوری
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے