زمانے کو زیر و زبر کر دیا
زمانے کو زیر و زبر کر دیا
یہ کیا تو نے اے چشم تر کر دیا
لگا رکھنا قاتل کے شایاں نہیں
ادھر کر دیا یا ادھر کر دیا
کیا اور بھی میرے قاصد نے شوخ
جو اس کو مرا نامہ بر کر دیا
صبا نے لگائی کہاں کی کہاں
ادھر آہ کی واں خبر کر دیا
خلش نوک مژگاں کی کچھ کم نہ تھی
بڑھا کر اسے نیشتر کر دیا
مری شمع امید گل ہو گئی
ستم تو نے باد سحر کر دیا
تھپک کر سلایا مجھے بار بار
میں تھا باخبر بے خبر کر دیا
وفائیں ہماری اکارت گئیں
رقیبوں کو جام اس نے بھر کر دیا
جو مدت سے تھی جی میں اب ٹھن گئی
دل پر خطر بے خطر کر دیا
جدھر تیرا تیر نظر چل گیا
ادھر میں نے نذر اک جگر کر دیا
نظر مجھ سے قاتل چرا جائے گا
اگر میں نے سینہ سپر کر دیا
تمہاری خموشی نے اس کو فہیمؔ
ستم گار سے فتنہ گر کر دیا
مأخذ:
ولولے (Pg. 12)
- مصنف: فہیم الدین احمد فہیم
-
- ناشر: نامعلوم تنظیم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.