Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں

غضنفر

دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں

غضنفر

MORE BYغضنفر

    کچھ نام ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسرے ناموں میں بھی جذب ہوجاتے ہیں اور اس طرح جذب ہوتے ہیں کہ دوسرے نام جب بھی لیے جاتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ خود بخود سامنے آجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام جذبی کا ہے جو فیضؔ، جوشؔ، اور مجازؔ کے ناموں کے ہمراہ اپنے آپ ابھر آتا ہے مگر جوش، فیض اور مجاز کے ساتھ جذبی کا نام یوں ہی نہیں ابھرتا بلکہ اس لیے اپنی صدا بلند کرتا ہے کہ میدانِ شعروسخن میں جذبی نے بھی وہی جذب و مستی دکھائی ہے اور اسی جوش و خروش کا مظاہر ہ کیا ہے جس کا نظارہ جوش، فیض او ر مجاز کے شعری کارناموں میں نظر آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جذبی ان سے مختلف ہیں کہ جوش، فیض اور مجاز کی شہرت کے اسباب کچھ دوسرے بھی ہیں جبکہ جذبی صرف اور صرف اپنی شعری کا وشوں کے بل بوتے پر مشہور ہوئے۔ جذبی نے جوش کی طرح سر پر یادوں کا سہرا باندھ کر اپنی کوئی بارات نہیں نکالی۔ نہ ہی وہ فیض کی صورت دیگر سرگرمیوں میں سرگرم ہوئے اور زنجیر گھسیٹتے ہوئے پا بہ جولاں کوئے یا ر سے سوئے دارگئے۔ مجاز کی مانند مجنوں بن کر انھوں نے کسی لالہ رخ کے کاشانے کے چکّر بھی نہیں لگائے اور نہ ہی اپنی رودادِ سخنِ مختصر میں بلانوشی کے قصّے جو ڑے۔ وہ تو بس مثلِ ملنگ ایک گوشے میں پڑے رہے اوروہیں بیٹھے بیٹھے گدازِشب میں اپنی شاعری کی شمع فروزاں کرتے رہے۔ خلوت میں پڑے پڑے شعری کشف کے ذریعے حیات وکائنات سے پردے اٹھاتے رہے اور یہ انکشافات کرتے رہے،

    دل کو ہونا تھا جستجو میں خراب

    پاس تھی ورنہ منزلِ مقصود

    تجھے آسماں ناز ہے ایک شفق پر

    زمیں پر تو ہیں کتنے خونیں نظارے

    یہ سوچتا ہوں کہ بدلا بھی ہے نظامِ الم

    یہ دیکھتا ہوں کہ موجِ نشاط بھی ہے کہیں

    اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے

    کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

    اپنے ان محسوسات و انکشافات کی شمعِ فروزاں سے صدر جمہوریہ ٔ ہند اندر کمار گجرال اور امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ تک کے ذہن و دل کو روشن کرنے والے جذبی کی اپنی زیست کا چراغ بچپن سے لے کرپیری تک ہمیشہ آندھیوں کی زد پہ رہا۔ کبھی باپ کی بے رخی اور بے توجہی کے جھونکے اٹھے، کبھی بے مہری حالات کے جھکّڑ چلے، کبھی ناقدریوں اور بے اعتنائیوں کے گرد باد گردش میں آئے۔ کبھی نا انصافیوں اور زیاد تیوں کے بگولے کھڑے ہوئے ان سب کے زور اور شور سے چراغِ حیاتِ جذبی ٹمٹما یا تو بہت مگر جذبی نے اپنے وجود کی لوکومدھم نہیں ہونے دیا۔ ایسا بھی نہیں کہ ان حملوں کو وہ چپ چاپ سہہ گئے۔ کسی قسم کا کوئی انتقام نہیں لیا۔ انھوں نے ایک ایک سے انتقام لیا البتہ ان کے انتقام کا طریقہ الگ تھا۔ بدلہ لینے کا انھوں نے نرالا انداز نکالا۔

    باپ کی بے رخی کا بدلہ لینے کے لیے انھوں نے اپنے بیٹے پر توجہ مرکوز کردی اور ایسی توجہ مرکوز کی کہ بیٹے نے تعلیم سے لے کر ملازمت تک کے سارے مراحل ایک مرکز پر رہ کر طے کرلیے۔ ملازمت کے وہ تمام مدراج بھی جو تدریسی شعبوں میں حاصل کیے جاتے ہیں۔ جذبی نے اپنی طرح اپنے بیٹے کو یہاں وہاں اور ادھر اُدھر بھٹکنے نہیں دیا۔ گویا اپنی توجہ سے سہیل کو یمن کے بجائے علی گڑھ کے افق سے طلو ع کردیا۔

    اپنی ناقدریوں کا انتقام یوں لیا کہ صبرو تحمل کو ہتھیار بنالیا اور اسے ایسا صیقل کیا کہ غالب ایوارڈ، اقبال سمّان، کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ وغیرہ جیسے انعامات خود بخودان کی جھولی میں آگرے۔ اپنے اسی صبرو تحمل سے انصاف پسندوں کو اپنے ساتھ کیا اور ان کے ذریعے اپنے دشمنوں کو بنا کچھ بولے اور کچھ کیے ذلیل و خوار بھی کردیااور ان کے اسی تحمل کی بدولت ان کی تخلیقات مجموعوں سے نکل کر پرائمری سطح سے لے کر ایم۔ اے تک کے نصابات میں داخل ہوگئیں اور ان کے بعض اشعار ایک ایک صاحبِ ذوق کی روح کا حصہ بن گئے۔

    مجھے افسوس ہے کہ میں بہت قریب رہ کر بھی اس صوفی منش شاعرِ ملنگ اور مردِ آہن سے تقریباً دو ڈھائی سال کی مدّت میں ایک بار بھی نہ مل سکا۔ اور ملا بھی تو علی گڑھ سے باہر سیوان کے ایک مشاعرے میں۔

    جذبی سے نہ ملنے کے دواسباب تھے۔ ایک تو ان کے ادبی قدکارعب جو عموماً قدشناس طالب علموں کے دل و دماغ پر طاری رہتا ہے اور دوسرے ان کی گوشہ نشینی اور اس گوشہ نشینی کے باعث یونی ورسٹی کیمپس کی فضائوں میں پھیلی ہوئی ان کی بدد ما غی کی افواہ۔ میں جذبی سے اس لیے بھی ملنا چاہتاتھا کہ انھیں کے ہم عصر شاعر فراقؔ گورکھپوری کا یہ شعر میری خواہش بن کر میرے ذہن میں گونجا کرتا تھا کہ،

    آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو

    جب یہ کہوگے ان سے تم کہ ہم نے فراق کو دیکھا تھا

    مگر میں جب بھی ان کے گھر جانے کا ارادہ کرتاتو کبھی ان کے ادبی قدکا جن آگے بڑھ کر میراراستہ روک دیتا تھا تو کبھی ان کی بد دماغی کی افواہ کا دیو میری راہ میں آکھڑا ہوتا حالاں کہ جب میں ان سے ملاتو ان کے ارد گرد نہ کوئی جن تھا اور نہ کوئی دیو۔ وہاں تو ایک ایسا مخلص، ملنسار اور باغ و بہار انسان تھا جو طالب علموں کے ساتھ بھی برابر ی کا سلوک اور دوستانہ برتائو کررہا تھا اور خردو ں کی صحبت میں بھی پوری طرح کھل کر ہنسی مذاق کے گل کھلارہا تھا اور لطف و انبساط کے گوہر لٹا رہا تھا۔

    احمد جمال پاشا نے جب میرا تعارف کرایا تو جذبی صاحب اس درجہ خوش ہوئے جیسا کہ کوئی مشفق استاد یا شفیق باپ ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کے خوش ہونے کی میرے خیال میں تین وجہیں رہی ہوں گی پہلی وجہ یہ کہ میں اس شعبے کا طالب علم تھا جسے جذبی نے اپنا گھر سمجھا۔ دوسری یہ کہ میں اس زبان میں ریسرچ کررہا تھا جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز تھی اور تیسری شاید یہ کہ میرے اندر بھی وہ صلاحیت موجود تھی جس کی بدولت کوئی تخلیقی فن کا رکسی کو اپنے قبیلے کا فردسمجھنے لگتا ہے۔ ان میں قوی ترسبب یہ تھا کہ میں ان کے شعبے کا طالب علم تھا جو اس حقیقت کا غماز بھی تھا کہ اُن کو اپنے شعبے سے کس درجہ لگائو تھا مگر افسوس کہ اس شعبے نے ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور اس حدتک گزند پہنچائی کہ انھوں نے برسوں اس کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہ شعبے کی کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ روایت پہلے سے چلی آرہی تھی اور بعد تک باقی رہی۔ اس روایت کی آگ میں رشید احمد صدیقی بھی جلے، آلِ احمد سرور بھی جھلسے اور کئی دوسرے بھی اس کی لپٹوں میں لپیٹ لیے گئے۔ اس شعبے کی ایک مثبت اور مضبوط روایت بھی رہی۔ وہ یہ کہ بہت دنوں تک اس میں تخلیقیت کا بول بالا رہا۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، خورشید الاسلام، خلیل الرحمان اعظمی، راہی معصوم رضا، شہریا ر، قاضی عبدالستار ایک سے ایک مشہور ِ زمانہ تخلیق کار اس سے وابستہ رہے اور اپنے فن پاروں سے اس کے نام میں چار چاند لگاتے رہے مگر دل کو گداز کرنے، ذہن کو بالیدہ بنانے اور روح کو گرمانے والی اس روایت کو کسی کی نظر لگ گئی، غیر تخلیقیت کے سحرنے اس کے ارد گرد ایسا حصار کھڑا کیا کہ تخلیقیت کا داخلہ بند ہوگیا۔ تخلیقیت کے اکّے دکّے نمائندے کسی طرح داخل ہونے میں کامیاب ہوئے بھی تو وہ ہمیشہ غیر تخلیقی بلائوں کی زد پہ رہے۔

    سیوان کی اس ملاقات میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور مسلسل چپّی سادھ لینے والے جذبی نے ایسی جلوت پسندی اور محفل بازی کا ثبوت دیا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ دورانِ دور میکشی انھوں نے ایسے ایسے قصّے سنائے اور نشے کی ترنگوں کے ساتھ لطائف کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑے کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ عالمِ سرور میں ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں جذبی نے ترنم سے غزلیں بھی سنائیں۔ ترنم سے غزلیں سنتے وقت بار بار مجھے ایک واقعہ یاد آتارہا: کسی محفل میں یونی ورسٹی کے ایک استاد نے جذبی سے ترنم کی فرمائش کردی۔ جسے سن کر جذبی چراغ پا ہوگئے اور غصّے میں ایسا دیپک راگ الاپنا شروع کیا کہ لیکچرر صاحب کو اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا۔ وہ تو بھلا ہو اس محفل میں موجود کچھ نبض شناس سینئر استادوں کا کہ جنھوں نے انگلیوں میں دبے سگار کو ماچس کی تیلی دکھادکھاکر جذبی کی حالت جذب کو ٹھنڈا کیا ورنہ تو اس جو نئیر استاد کا اس دن خداہی حافظ تھا۔

    اس واقعہ کے ساتھ ساتھ میں جذبی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتارہا کہ ایک طرف تو جذبی کسی استاد کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی فرمائش کے طلبہ کو ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ جذبی کی شخصیت کا یہ تضاد پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آیا ‘ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ جذبی طریقتِ شعر و سخن کے مجذوب تھے۔ مجذوب جو صرف من کی سنتا ہے۔ من کہتا ہے تو اللہ ہو کا نعرۂ مستانہ بھی لگاتا ہے اور من نہیں کہتا ہے تو بس ہو‘ کا عالم لیتا ہے۔

    اس ملا قات کے دوران جذبی کے جذب و مستی کے کئی اور رنگ بھی دیکھنے کو ملے، غزل سنانے کے بعد شراب کا ایک لمبا گھونٹ بھرکر بولے غضنفر! کباب کے بغیر شراب پینا کیا ایسا نہیں لگتا جیسے غریب مزدور روکھی روٹی کھارہے ہوں مگر ہم لوگ تو غریب ہیں نہیں، تو پھر یہ روکھی روٹی کیوں؟ جائو گھروالوں کو بولو کہ کباب دے جائیں۔

    میں محفل سے اٹھ کر جمال پاشا کے قلعہ نما محل کے دروازے کے پاس پہنچا اور آہستہ آہستہ دستک دینا شروع کیا۔ پانچ سات منٹ تک مسلسل دستک دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو جذبی صاحب اٹھ کر خود بھی دروزاے کے پاس آگئے اور بولے

    ’’اس طرح نوک کرنے سے بڑے دروازے نہیں کھلتے، انھیں پیٹنا پڑتا ہے۔ یوں‘‘

    اور وہ دھڑادھڑ دروازے پر مُکّے مارنے لگے۔

    دھڑدھڑ کی آواز پر واقعی دروازہ کھل گیا۔ ایک گھبرایا اور ہڑبڑایا ہوا خادم قسم کا آدمی باہر نکلا اور ہکلاتا ہوا بولا،

    ’’جی، فرمائیے۔‘‘

    ’’کباب لائو! کباب۔‘‘ میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی جذبی صاحب بول پڑے‘‘

    کباب!وہ اس طرح چونکا جیسے کسی پکّے مسلمان سے شراب پلانے کی فرمائش کردی گئی ہو۔‘‘

    ’’ہاں بھئی کباب؛ کہو تو ہجّے کر کے بتائوں ’’جذبی صاحب کا لہجہ سخت ہوگیا۔‘‘

    مگر کباب تو نہیں ہیں۔‘‘ قدرے سنبھلتے ہوئے اس خاد م نما آدمی نے جواب دیا

    ’’کیا کہا؟کباب نہیں ہیں؟اتنی بڑی حویلی، وہ بھی ایک مسلمان رئیس کی اور کباب نہیں؟ نہیں نہیں، کباب ضرورہوگا جاکر کچن میں دیکھو!‘‘ جذبی صاحب کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ اس شاندار حویلی میں کباب نہیں ہوں گے۔

    وہ آدمی چپ رہا۔

    ’’کیا اس حویلی میں کچن نہیں ہے؟‘‘

    کچن کیوں نہیں ہوگا صاحب!‘‘

    تو پھر جاتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’بات یہ ہے صاحب۔۔۔‘‘

    ’’ہم کچھ سننے والے نہیں، تم جائو اور فوراً کباب لائو۔ ہمارے منہ کا مزا بگڑاجارہاہے جائو! منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘جذبی صاحب نے اسے بولنے نہیں دیا۔ اس خادم یا خادم نما آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے عزّت دار مالک کے اس معزز مہمان سے کس طرح نمٹے کہ قدرت کواس کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے اس کی مدد کے لیے خود مالک کو بھیج دیا۔ عین اسی وقت احمد جمال پاشا اپنی موٹر سے آدھمکے۔ شاید ہمیں وہ لینے آئے تھے۔ موٹر سے اترکر سیدھے دروازے کے پاس آگئے۔ غالباً انھوں نے ہمیں دورہی سے دیکھ لیا تھاپاس آکر گھبراہٹ کے لہجے میں بولے

    ’’سر! آپ یہاں؟‘‘

    ’’ارے بھائی! تمھارے اس خادم سے کب سے کباب لانے کو کہہ رہے ہیں مگر یہ ہے کہ۔۔۔

    ’’سر! آج کھانے کا انتظام کالج میں کیا گیا ہے نا، اس لیے یہاں کے تمام باورچی ادھر لگے ہوئے ہیں۔‘‘ جمال پاشا نے صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

    ’’باورچی ہی تو گئے ہیں کچن اٹھ کر تو نہیں چلاگیا!‘‘ جذبی صاحب نے صورتِ حال کو پھرسے بے قابو کردیا۔

    ’’دراصل کئی دنوں سے کالج فنکشن میں مصروف ہونے۔۔۔

    ’’رہنے دو، رہنے دو، میں سب سمجھ گیا۔ پاشا تم کیسے مسلمان ہو کہ گھر میں کباب تک نہیں رکھتے۔ لگتا ہے یہاں آکر تم بھی بہاری ہوگئے ہو۔‘‘

    ’’بہاری ہی نہیں سر!میں تو شدھ شاکا ہاری بھی ہوگیا ہوں، مانساہاری۔۔۔ بیماریوں نے جسم وجان کو دبوچ جو رکھا ہے۔ جلد تشریف لے چلیے، شامی، سیخ اور بہاری تینوں وہاں آپ کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘

    ’’پاشا! میں مان گیا کہ تم واقعی مزاح نگار ہو۔ اپنے گھر کی عریا نیت پر تم نے کتنا خوبصورت اور دبیز پر دہ ڈال دیا، چلو میں نے تمھیں معاف کیا۔‘‘

    ہم لوگ جمال پاشا کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے جہاں ہمارے طعام وغیرہ کا انتظام و اہتمام تھا۔ وہاں پہنچتے ہی جمال پاشا نے پکارا

    ’’نشاط! دیکھو تو جذبی صاحب آئے ہیں۔‘‘جمال پاشا نے اپنے کالج کی صدر شعبۂ اردو کو مخاطب کیا۔

    ’’کون جذبی؟‘‘ ایک نسوانی آواز گونج پڑی۔ تھی تو وہ صنفِ نازک کے لب لعلیں سے نکلی ہوئی آواز مگر کام اس نے پتھر کا کیا۔ ایسی ضرب لگائی کہ جذبی کا چہرہ تو بگڑا ہی جمال پاشا کے رخِ روشن کا رنگ بھی اڑ گیا مگر یہاں بھی جمال پاشا کی ظرافت ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی۔ لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے وہ بولے۔

    ’’سر!بات دراصل یہ ہے کہ اس شہر کے شاعروں کو بھی آپ کے تخلص کا روگ لگ گیا ہے۔ یہاں بھی اپنے ہلال، خیال، کمال، ملال وغیرہ کو چھوڑکر زیادہ تر شاعر جذبی ہوگئے ہیں۔ اسی لیے نشاط کو یہ سوال کرنا پڑا ورنہ تو یہ ہر ترقی پسند شاعر کو پڑھاتے وقت یہ شعر پڑھنا کبھی نہیں بھولتیں،

    نہ آئے موت خدایا تباہ حالی میں

    یہ نام ہوگا غمِ روز گار سہہ نہ سکا

    اور یہ شعر تو اِن دنوں یہ کچھ زیادہ ہی جوش و خروش کے ساتھ گنگنا نے لگی ہیں،

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنّا کس کو تھی

    اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنّا کون کرے

    پاشا کی ظرافت پاشی نے یکا یک جذبی کے چہرۂ زہراب کو آبِ زلال میں بدل دیا۔ گیا ہوارنگ منٹوں میں واپس آگیا۔ یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ یہ واقعی جمال پاشا کے رنگِ مزاح کا کمال تھا یا جذبی کی اس نفسیات کا جس کی دکھتی رگ پر انگلی رکھتے ہی ساز کار اگ بدل جاتا ہے اور یک لخت سر تال تبدیل ہوجاتے ہیں البتہ اتنا تو طے ہے کہ جذبی زو‘د حس انسان تھے جو کریلا کھاکر فوراً کڑوا اور شکر پھانک کر ترنت میٹھا ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ جذبی صرف ادب تخلیق ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ادب سے محظوظ بھی ہوتے تھے اور اسے appriciateبھی کرتے تھے۔ یہ ان کے اسی جوہر تحسین شناسی(appriciation)کا کمال ہے کہ ان کا جذبۂ غیظ و غضب آن کی آن میں بیٹھ جاتا تھا اور ان کا جلال قالبِ جمال میں ڈھل جاتا تھا۔

    طعامِ پُر اہتمام سے فارغ ہوکر ہم مشاعرہ گاہ میں پہنچے تو جذبی کے احترام میں سارے شاعر اٹھ کھڑے ہوئے اور ناظم مشاعرہ نے وہ قصیدہ پڑھا کہ خود جذبی بھی شرماگئے مگر سامعین سے انھیں ویسی داد نہیں ملی جیسی کہ خمار بارہ بنکوی کے حصّے میں آئی۔

    اختتام پر بزم مشاعرہ سے نکل کہ جب ہم قیام گاہ پر پہنچے تو جذبی صاحب جس بم کو بہت دیر سے اپنے اندر روکے ہوئے تھے وہ یکا یک پھٹ پڑا۔

    ’خمار سے اگر اس کا ترنم چھین لیا جائے تواس کی شاعری کے غبّارے کی ہوا نکل جائے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولے،

    ’’غضنفر!تم نے جوش کی یادوں کی بارات میں ساغر کے متعلق مجاز والی بات تو پڑھی ہوگی؟

    میں کچھ جھینپا تو بولے

    ’’کوئی بات نہیں، اب سن لو، بڑے مزے کی بات ہے۔‘‘

    ایک بار نشے کے عالم میں مجازؔ ساغرؔ سے لپٹتے ہوئے بولے،

    ’’مگر ایک بات ہے مگر ایک بات ہے مگر ایک بات ہے‘‘

    اس پر ساغر نے پوچھا، کیا بات ہے؟‘‘

    مجاز نے ترنگ میں جواب دیا،

    ’’مگر یہ بات ہے پیارے کہ تو شاعر بالکل نہیں ہے۔‘‘

    اس پر ہنستے ہوئے ساغر نے رونا شروع کردیا۔

    مجاز پھر ان کے گلے لگ گئے اور بولے

    ’’پیارے! میں تجھ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں تیراکوئی جواب نہیں ہے۔‘‘

    یہ جواب سن کر ساغر نے رونا بند کردیا۔ تھوڑی دیر بعد مجاز نے پھر کہا۔

    ’’تجھ سے اس قدر محبت کے بعد بھی خدا کی قسم میں تجھ کو شاعر تسلیم کر نہیں سکتا مگر ایک بات ہے، مگر ایک بات ہے۔‘‘

    اور ساغر پھر رونے لگے۔

    میرا جی چاہتا ہے کہ خمار سے لپٹ کر مجاز کا یہ جملہ دہرانے لگوں، مگر ایک بات ہے، مگر ایک بات ہے۔۔۔، مگر

    ہماری ہنسی رکی تو بولے

    ’’یہ خمار گویّا تو ہے ہی، بہت بڑا ڈراما باز بھی ہے، رہتا ہے بارہ بنکی میں اور پتا دیتا ہے بمبئی کا۔۔۔

    میرا ترنم اس سے کیا کم ہے؟ مگر میں ترنم کی بیساکھی لگاکر پائوں والی اپنی شاعری کو لنگڑی بنانا نہیں چاہتا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وفورِسرور میں کبھی میں اپنی شاعری کو گنگنا نے لگ جائوں۔

    ’’میں غلط نہیں کہہ رہاہوں آپ لوگ کبھی خمار کی شاعری پڑھیے یا ترنم کو مائنس کرکے سنیے میرے مشاہدے پر آپ کو بھی ایمان لانا پڑے گا۔ میں یہ بات خمار کے منہ پر بھی کہہ سکتا ہوں اور شاید اس سے بھی زیادہ سخت اور تلخ لہجے میں کہہ سکتا ہوں۔ میں اس معاملے میں نہایت بے باک بلکہ سفاک قسم کا آدمی ہوں، غضنفر!تم کبھی اپنے استاد وں سے معلوم کرنا وہ سنائیں گے تمھیں میری بے باکی کے قصّے۔ البتہ ایک قصہ جو وہ تمھیں شاید نہیں سناسکیں، سناتاہوں، ویسے تو یہ قصّہ ذرا اٹ پٹا اور شاید۔۔۔ گر آپ لوگ چوں کہ بالغ ہوچکے ہیں اور شعرو شاعری میں پیش ہونے والے ہر طرح کے عشق و عاشقی کے اسرار ورموز اور معاملات دل کے نشیب و فرازاور ہر نوعیت کی ہوس پرستی سے واقف ہوچکے ہیں، لہٰذا اب آپ کے سامنے سنانے میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے سنا تا ہوں کہ ایک بار ایک محفل یا راں میں جوش صاحب بڑے ہی جوش میں، اُس کی اِس کی، فلاں کی چلاں کی مار ا ماری کی چٹخارے لے لے کر بات کر رہے تھے اور ان کی اِ س یا وہ گوئی پر فلک شگاف، ٹھہا کے لگ رہے تھے۔ شراب کا نشہ انھیں اور بھی بے لگام بناتا جارہا تھا۔ اپنا یا را کھوتے ہوئے انھوں نے اپنی اس مارا ماری میں جب مجھے بھی گھسیٹ لیا تو مجھ سے چپ رہانہیں گیا اور میں بھی ترکی بہ ترکی بول پڑا.... ’’اس کام کے لیے تو آپ بھی برے نہیں ہیں‘‘ میرے اس جملے پر اتنے اور ایسے قہقہے لگے کہ دیر تک کمرہ گونجتا رہا مگر جوش صاحب ایسے ٹھنڈے پڑے جیسے ان پر یکا یک فالج گر پڑا ہو۔ کچھ دیر تک تو وہ بے حس و حر کت پڑے رہے پھر اچانک ہسٹریا کے مریض بن بیٹھے۔ میرے جملے کی تپش سے جو ش صاحب اتنا کھولے اتنا کھولے کہ ان کے ہوش و حواس کا ڈھکن الٹ گیا۔۔۔ تو میاں غضنفر!مجھ سے کسی کی نازیبا اور خلاف مزاج بات برداشت نہیں ہوتی خواہ وہ اپنے دور کارستم ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے موقع پر میں اپنا آپا بھی کھودیتا ہوں۔ یوں سمجھیے کہ میں معین احسن جذبی نہ رہ کر کوئی مجذوب ہوجاتا ہوں۔

    تھوڑی دیر بعد احمد جمال پاشا جذبی صاحب کو لے کر اسٹیشن چلے گئے کہ ان کے ٹرین کا وقت ہوچلا تھا اور میں اپنے دوست احمد تنویر کے ہمراہ اس کے گھر چلاگیا جو کالج کے پاس ہی واقع تھا۔

    دوسرے دن جب میں احمد جمال پاشا سے رخصت کی اجازت لینے گیا تو انھوں نے بتایا کہ جذبی صاحب میرے اخلاق اور فرماں برداری کی بڑی تعریف کررہے تھے اور میرے ایک شعر کی بھی۔ جمال پاشا نے یہ بھی بتایا کہ جذبی صاحب Talentکی بڑی قدر کرتے ہیں اور اپنے لائق شاگرد وں سے محبت بھی بہت فرماتے ہیں اور ان کی یہ محبت ہی ہے کہ گوشہ نشینی اختیار کرلینے کے باوجود میری دعوت پر یہاں تشریف لائے اور یہاں تک آنے میں خاصی زحمت بھی اٹھائی۔

    ’’پاشا صاحب! آپ تو انھیں بہت قریب سے جانتے ہیں اور یہاں کی اس مختصر ملاقات میں مجھے بھی محسوس ہوا کہ وہ مجلسی آدمی ہیں اور کافی زندہ دل بھی۔

    ’’پھر ان کی اس گوشہ نشینی کا کیا راز ہے؟وہ گھرسے کیوں نہیں نکلتے؟ شعبے میں کیوں نہیں آتے؟ یونیورسٹی کی محفلوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ دنیا سے بے زار کیوں ہوگئے ہیں؟

    میری بات پر جمال پاشا خاصے اداس ہوگئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے نہایت سنجیدہ لہجے میں بولے :

    ’’غضنفر! تم جذبی صاحب کے کچھ شعر سن لو، شاید تمھارے سوالوں کا جواب مل جائے۔‘‘

    اس حرص و ہوا کی دنیا میں ہم کیا چاہیں، ہم کیا مانگیں

    جو چاہا ہم کو مل نہ سکا، جو مانگا وہ بھی پانہ سکے

    مہکا نہ کوئی پھول نہ چٹکی کوئی کلی

    دل خون ہوکے صرفِ گلستاں ہوا تو کیا

    زندگی اک شورشِ آلام ہے میرے لیے

    جو نفس ہے گردشِ آیام ہے میرے لیے

    اور آخر میں یہ شعر بھی،

    دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی، ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو

    دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں، اب دنیا دنیا کون کرے

    واقعی ان شعروں سے میرے سوالوں کے جواب مل گئے اور غورکرنے پر یہ راز بھی کھل گیا کہ گوشہ نشینی اختیار کرنے کے باوجود علی گڑھ سے میلوں دور احمد جمال پاشا کی محفل میں جذبی کیوں گئے؟اور اپنے قریب کی محفلوں میں کیوں نہیں آتے؟

    جذبی کی رودادِ سفر اور اندازِ حیات پر غور کرتے وقت یہ بھی محسوس ہو اکہ جذبی سادہ اور سیدھے ضرور تھے مگر ان میں ٹیڑھ پن بھی بہت تھا۔ ان کی شخصیت کے اسی ٹیڑھپن نے انھیں زمانہ تو زمانہ اپنے باپ کے آگے بھی جھکنے نہیں دیا۔ اسی نے انھیں بھیڑ سے نکال کر الگ کیا، منفرد بنایا، مضبوط کیا، مسرور کیا۔ لگتا ہے جذبی کے رفیقِ کار مشہور شاعر خلیل الرحمن اعظمی نے اپنا یہ شعر شاید جذبی کے لیے بھی کہاتھا،

    لوگ ہم جیسے تھے اور ہم سے خدا بن کے ملے

    ہم وہ کافر ہیں کہ جن سے کوئی سجدہ نہ ہوا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے