Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کنھیا لال کپور

مرزا ادیب

کنھیا لال کپور

مرزا ادیب

MORE BYمرزا ادیب

    کنہیا لال کپور۔۔۔ بس کنھیا لال کپور تھے۔ ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ایک۔ بڑے سےبڑے مجمع میں بھی الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ لمبی لمبی ٹانگیں، لمبے لمبے بازو مگر چہرہ ان کے مقابلے میں بہت چھوٹا۔ جیسے ایک چھوٹے سے معصوم بچے کا ہو۔اس چہرے پر سدا ایک مسکینی سی چھائی رہتی تھی۔ پتلے دبلے نحیف و نزار۔ کرشن چندر نےایک مرتبہ پوچھا۔ ’’کپور! اتنے دبلے پتلے کیوں ہو؟‘‘ بولے۔ ’’کرشن جی! تمھیں تو تمھاری گوپیاں مکھن کھلایا کرتی ہیں، مجھ غریب کو گوپی نہیں پوچھتی۔‘‘ کرشن خاموش رہنے والے آدمی کہاں۔ فوراً کہنے لگے۔ ’’کنھیا جی۔ بس نام ہی کےکنھیا ہو۔ مکھن یوں نہیں، چراکر کھایا جاتا ہے۔‘‘ کپور نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں، درست کہا۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہم کچھ شریف قسم کے کنھیا ہیں۔ چور کرشن کنھیا نہیں ہیں۔‘‘ اس فقرے کی چوٹ کرشن چندر نےضرور محسوس کی ہوگی۔

    کپور واقعی بہت دبلے پتلے تھے۔ اوپندر ناتھ اشک کہتے تھے ’’اگر کبھی آندھی زور سے چلی تو کپور اڑ کر نہ جانے کہاں پہنچ جائے گا۔‘‘ یہ بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کپور، اشک، کرشن، راجہ مہدی علی خاں، گوپال متّل ادب لطیف کے دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ باہر تیز ہوا نےآندھی کی شکل اختیار کرلی تھی۔ یکایک کپور نے چائے کے دو تین گھونٹ بھر کر پیالی میز پر رکھ دی اور اپنی کرسی سے اٹھ بیٹھے۔ اشک نے پوچھا۔ ’’کیوں کپور جی؟‘‘ جواباً بولے۔ ’’یار ایک بہت ضروری کام یاد آگیا ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر دروازے کی طرف جانے لگے۔ ادھر راجہ مہدی علی خاں بھی اپنی پیالی خالی کرکے اٹھ بیٹھے اور کپور سے کہنے لگے ’’چلیے کپور صاحب!‘‘ کپور نے پوچھا۔ ’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘ راجہ نے کہا۔ ’’جہاں آپ کو جانا ہے!‘‘ کپور کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ راجہ نے مسکراکر کہا۔ ’’کپور آپ حیران کیوں ہوتے ہیں۔ میرا تن و توش دیکھ رہے ہیں نا۔ خدا کی قسم اس سے بھی زیادہ تیز آندھی چلے تو آپ کو اڑنے نہیں دوںگا۔‘‘

    کپور خاموش ہوجاتے یہ تو ممکن ہی نہ تھا۔ کہنے لگے۔ ’’راجہ جی! میری فکر نہ کیجیے بلندی سے گروں گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ زمین پر گرپڑے تو پاش پاش ہوجائیں گے۔‘‘ مجھے یاد نہیں کہ کپور نے کبھی کسی کی تعریف کی ہو۔ میں پوچھتا! ’’کپور جی، کرشن کا تازہ افسانہ کیسا ہے۔‘‘ جواب دیتے۔ ’’بس ویسا ہی جیسا ہونا چاہیے۔ جیسا کرشن چندر کو لکھنا چاہیے۔ کرشن میں یہ بڑی خوبی ہے کہ جذباتی آدمیوں کو رُلادیتا ہے۔‘‘ کپور مسکراکر جواب دیتے۔

    کرشن کے بڑے معرکے کےافسانے ’’ادب لطیف‘‘ میں چھپے مگر میں اور کرشن خود اس بات کو ترستے ہی رہے کہ کبھی کپور کسی افسانے کی تعریف کردیں۔ ایک دن اپندر ناتھ اشک نےیاروں کی محفل میں اپنا نیا افسانہ سنایا۔ ہم سب نے پسند کیا۔ کپور خاموش رہے۔ میں نے پوچھا۔ ’’کپور جی، کچھ آپ بھی کہیے؟‘‘ کپور بولے ’بہت اچھے، بہت اعلیٰ ادب کی ایک لازوال تحریک۔‘‘ ہم سب حیران ہوکر ان کا منہ دیکھنے لگے۔ کپور نے تو آج تک کسی کی تعریف ہی نہیں کی۔ اشک کےافسانے کی اس قدر تعریف کیوں کرنے لگے۔ ابھی انھیں تعریف کئے ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ بڑی سنجیدگی سے بولے، ’’یار اشک! ذرا یہ تو بتادو ابھی ابھی تم نے جو کچھ پڑھا ہے، یہ ہے کیا۔ افسانہ، ڈراما، مضمون یا کچھ اور۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے اور اشک کی یہ حالت کہ گویا ابھی اشک بار ہوجائیں گے۔

    اشک سے کپور کی کبھی نہیں بنی۔ اشک فقرہ چست کرنے کی کوشش ضرور کرتےتھے مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ بات بنتی نہیں تھی۔ وہ اپنی طرف سے فقرہ چست کردیتے تھے لیکن اس کا ردِعمل برداشت نہیں کرتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کے اندر وہ ذہنی کشادگی نہیں تھی جو ایک مرنجاں مرنج شخص میں ہونی چاہیے۔ اشک کا ایک افسانہ ’ادب لطیف‘ میں چھپا تو میں نے اداریے میں اپنی طرف سےخاصی تعریف کی مگر اشک کو یہ تعریفی سطور پسند نہ آئیں۔ دفتر میں پہنچ کر شکایت کرنے لگے۔

    ’’لوگوں کے معمولی مضمون چھپتے ہیں تو آپ تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔ اور میرے ایسے شاہکار افسانے کی یہ قدر۔‘‘ صاف ظاہر ہے چوٹ کپور پر تھی۔ وہی طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھا کرتے تھے۔ اس وقت کپور بھی گوپال کے ساتھ دفتر ہی میں موجود تھے۔ ان کے چہرے سے ایسا ہلکا سا بھی تاثر ظاہر نہ ہوا جو ان کی کبیدگیٔ خاطر پر دلالت کرتا۔ حسب معمول مسکراتے رہے۔ جب اشک کا دل کچھ ہلکا ہوا تو کہنے لگے۔ ’’اشک جی! یہ مرزا بڑا ہی بدذوق آدمی ہے۔ آپ اسے اپناافسانہ دیتے ہی کیوں ہیں۔ آپ کےافسانے کو تو سونےکے حرفوں میں چھپنا چاہئے تھا۔ اس طرح آپ کی عزت افزائی بھی ہوتی اورآپ سونےکے حروف سےفائدہ بھی اٹھاسکتے۔‘‘ کپور نے بڑی گہری چوٹ کی تھی۔۔۔ اشک پورے بنیا آدمی تھے۔ روپے پیسے کا بہت خیال کرتے تھے۔ کپور کی بات سمجھ گئے۔ ان سے تو کچھ نہ کہہ سکے، مجھ سے کئی روز تک روٹھے رہے۔

    کپور ’بی جمالو‘ کا پارٹ ادا کرکے بہت خوش ہوتے تھے۔ جب بھی انھوں نے ایسا کیا بڑی خوش اسلوبی سےکیا۔ ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ کرشن چندر اور اشک دونوں کے افسانے پرچے میں چھپے۔ کرشن تو بڑی تیزی سے شہرت کی بلندیوں کی طرف جارہا تھا۔ اس کے ہر افسانے کی اشاعت پر کئی خطوط دفتر میں آجاتے تھے۔ ایک آدھ خط میں اشک کے افسانے کی بھی تعریف نکل آتی تھی۔ ہاں تو دونوں کے افسانے چھپے۔ اب کپور کی سرگرمی ملاحظہ فرمائیے۔ کپور، کرشن چندر سےملے اور اسے اطلاع دی۔ ’’کرشن! یار حیرت ہے تمھارا اتنا خوب صورت افسانہ چھپا ہے اور پڑھنے والوں نےاسے بالکل پسند نہیں کیا۔ اشک کے افسانے کو بےپناہ داد دی ہے۔‘‘

    کرشن کے لیے یہ بات بالکل خلاف توقع تھی مگر دل بڑا وسیع تھا۔ خاموش رہا۔ ظاہر ہے کرشن کو وہی کچھ کرنا چاہیے تھا جس کی کپور کو امید تھی اورجس کے لیے انھوں نےیہ چکر چلایا تھا۔ کرشن نےاشک کو بہت بہت مبارک باد دی۔ اشک دل میں بہت خوش ہوا۔ اوپر سےصرف یہ کہتا رہا۔ ’’میں نہیں مانتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ کپور کو اپنی کارروائی کے نتیجے کا علم ہوگیا۔ شام کو کرشن اور اشک دفتر میں آئے تو کپور بھی پہنچ گئے اور آتے ہی بولے، ’’مرزا یار! کرشن اور اشک کےافسانوں کے بارے میں جو خطوط آئے ہیں وہ ذرادیجیے۔‘‘ مجھے کیا معلوم تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ میں نے سارے خطوط اشک کے سامنے پھیلا دیے۔ اب اشک جوخط بھی اٹھاتا ہے اس میں کرشن کے افسانے کی بے پناہ تعریف اور اس کاکوئی ذکر نہیں۔ کپور ان کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں اور مسکراتے جارہے ہیں ۔ دوسری طرف کرشن بھی ایک ایک خط کا مطالعہ کر رہا ہے لیکن چہرے سے بے نیازی نمایاں ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ معاملے نے اس وقت دگر گوں صورت اختیار کرنی شروع کردی جب اشک نے کپور کی طرف قہرآلود نظروں سے دیکھا۔’’وہ خط کہاں ہیں جو میرے افسانے کی تعریف میں آئے ہیں؟‘‘ اس نے کپور سے پوچھا۔

    کپور نے بڑے اطمینان سے فرمایا۔ ’’اشک! میں نے تو ان سارے خطوط میں تمھاری تعریف ہی پڑھی تھی۔ نہ جانے اب کیا ہوگیا ہے۔ مرزا کے پاس ضرور کوئی ’جھرلو‘ ہے ۔ ’’بکواس۔‘‘ اور اشک اٹھ بیٹھا۔ بڑی مشکل سے اسے منایا گیا۔

    کپور کو کوئی اجنبی شخص دیکھتا تھا تو انھیں ایک معمولی آدمی ہی سمجھتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی مسکراہٹ بڑی معنی خیز ہوتی تھی مگر یہ مسکراہٹ غور سے دیکھنے پر ہی معنی خیز اور طنزیہ محسوس ہوتی تھی۔ ویسے وہ بڑے مسکین اور یتیم سے آدمی نظر آتے تھے۔ ایک بار دفتر میں آئے تو باہر کے کچھ اہل قلم میرا انتظار کر رہے تھے۔ ایک کرسی بھی خالی نہ تھی۔ کپور دیوار کے قریب کھڑے ہوگئے۔ مہمانوں نےانھیں دیکھا اور غالباً انھیں دفتر کا کوئی کارکن گردانا۔ ممکن ہے چپراسی ہی سمجھ لیا۔ میں آیا تو بہت شرمندہ ہوا۔ جب مہمانوں کو ان کی شخصیت کاعلم ہوا تو وہ بھی اظہار ندامت کرنے لگے۔ کپور بولے۔ ’’آپ خواہ مخواہ اپنے الفاظ ضائع کر رہے ہیں۔ ندامت اور معذرت کے الفاظ سنبھال کر رکھیے آئندہ کسی وقت ضرور کام آجائیں گے۔‘‘

    کپور نے کبھی کسی کی تعریف نہیں کی تھی اور میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ خود اپنی بھی تعریف سن کر خوش نہیں ہوتے تھے۔ کم از کم مجھے انھوں نے کبھی ایسا تاثر نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوگئے ہیں۔ قارئین انھیں تعریفی خطوط لکھتے تھے تو وہ کرشن چندر کے برعکس ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    سالنامہ چھپنے والا تھا۔ میں نے ان سے اصرار کرکے ان کا مضمون حاصل کیا۔ دوسرے روز آئے تو میں نے بڑی تعریف کی۔ مسکراتے رہے، آخر میں بولے۔ ’’آپ نے مضمون سمجھ لیا ہے!‘‘ سخت غصّہ آیا۔ کہا۔ ’’کپور، اگر مضمون سمجھا نہ ہوتا تو اس کی تعریف کیوں کرتا۔‘‘ ایک دو لمحے مسکراتے رہے پھر بولے۔ ’’اچھا یہ معاملہ ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں جس چیز کی زیادہ تعریف کی جاتی ہے۔ اسے انسان سمجھا نہیں ہوتا۔‘‘

    ایک واقعہ مجھے ڈاکٹر وحید قریشی نے بتایا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کپور ’موگا‘ چلے گئے تھے۔ وہاں کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ میری لائبریری کے مالک چودھری بشیر احمد نے کپور کے مضامین کا انتخاب چھاپنا چاہا تو مظفر علی سید نے کہا کہ وہ مضامین کا انتخاب کریں اور ساتھ دیباچہ بھی لکھ دیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے کپور سے اجازت لینا ضروری تھا۔ مظفر علی سید نے کپور کو اس سلسلے میں خط لکھا اور اجازت کی درخواست کی۔ کپور نے جو جواب لکھا اس میں کہا۔

    ’’اس سے زیادہ میری خوش قسمتی کیا ہوگی کہ ایک سیّد کے ہاتھوں مارا جاؤں۔ ضرور انتخاب چھاپئے ۔‘‘

    میں کنھیا لال کپور کی طنزیہ تحریروں کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا۔ اس وقت یہ میرا منصب ہے بھی نہیں۔ میں تو ان لمحوں میں اس کنھیا لال کپور کو یاد کر رہا ہوں جس سے آخری ملاقات کو چونتیس پینتیس برس کی مدت گزر گئی ہے مگر میری تنہائیوں میں ہمیشہ قریب رہا ہے۔

    میں اس کنھیا لال کو یاد کر رہا ہوں جسے بارہا دیکھنے کے بعد بھی ایک بار دیکھنے کی ہوس رہتی تھی۔ میں اس کنھیا لال کپور کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا، لہراتا ہوا، بل کھاتا ہوا جب دفتر ادب لطیف میں آتا تھا تو اس کی مسکراہٹیں سارے ماحول میں پھیل جاتی تھیں۔ یہ کنھیا لال کپور تھا۔ جو قہقہہ نہیں لگاتا تھا۔ بس مسکراتا رہتا تھا اور مسکراتا بھی پوری طرح نہیں، کھل کر نہیں، مگر اسی مسکراہٹ نے اس کی مکمل شخصیت کو گویا اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔

    سانولے رنگ کا دھان پان کنھیا لال کپور۔ ایک بہت ہی پیارا انسان تھا۔ اتنا پیارا، اتنا منفرد انسان کہ میں اس کے متعلق صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ کنھیا لال کپور۔۔۔ بس کنھیا لال کپور تھا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے