میر بھی شام اپنی سحر کر گیا: بیاد شمس الرحمان فاروقی
اللہ اللہ! تاریخ کا شکم بھی کیسی کیسی عبرتوں سے پُر ہے۔ معروف ہے: جب یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار میں فروخت کرنے کے واسطے بولی لگائی جا رہی تھی تو جہاں امرا و عمائد نے دیدہ و دِل پیش کیا، وہیں ایک عجوزہء کامگار کہ اپنی آنکھوں کو زمانے کے آثار سے پرانا کر چکی تھی، اِس مخملِ عرش کے عوض سوت کی اَنٹی لے آئی، جانتی تھی کہ یہ مقام سود و زیاں کا نہیں، خواہانِ گوہر کی زنجیرکے حلقہ بننے کاہے،
ہم وَے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل
مت کر خراب ہم کوتو اوروں میں سان کر
میرے قلمِ خام کی شوخی دیکھیے کہ ہوائے معدن سے مَس ہوئے بغیر کیسی اُجلی چاندی اُگلنے کا آرزو مند ہے، کہاں شمس الرحمن فاروقی، کہاں میں، مگر مجھ سے کھوٹے سکے کی کم سوادی کو ہمیشہ سابقین کی ناموس نے بچایا، آج بھی وہی ہاتھ تھامیں گے،
جمال ہم نشین صحبت اثر کرد
وگرنہ من ہمان خاکم کہ ہستم
فاروقی صاحب کے چاہنے والے حد سے سِوا تھے اور ہیں، لکھنے والوں نے ان پر خوب جم کر لکھا، میں اس میں کیا ہی اضافہ کر سکتا ہوں۔ میں تو ان کے خوشہ چینوں کی قطار میں ہوں۔ ان کی تحریروں نے مجھے کہاں کہاں رسوا ہونے سے بچایا، یہ تو میرے دانا احباب جانتے ہیں، لیکن اُن کے نام سے میں نے کیا کیا رفعتیں پائیں، یہ شاید لوگ نہ جانتے ہوں، میں بہت کھلے دل اور کشادہ سینے کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں: جو کچھ کہ میں ہوں اور جو لفظ و بیان، میری دسترس میں ہیں، اس میں سے یک فیصدی بھی میرا کمال نہیں، یا اگلوں کی دھوپ سے سینہ تاپنے کے طفیل ہے یا شمس الرحمن فاروقی کے حرف و معنی کا مستعیر۔
فاروقی صاحب سے میری شناسائی چکوال کی مردم زا سر زمین میں ہوئی۔ یہ بات غالباً 200ء کے اوائل کی رہی ہو گی، سِن کے اعتبار سے میں تیرہ چودہ برس کاتھا مگر والد ہ صاحب کی ابتدائی روک ٹوک اور استادِ صد رشک، جنا ب اشرف آصف کی بیٹھکوں نے کتاب خوانی کی زَڑ لگا دی تھی، صبحوں اور شاموں پر بھاری کتابوں کے ہلکے ہلکے سائے پڑتے تھے۔ چکوال شہرمیں کشمیر بُک ڈِپو نے ہمارے خون سوا سیر کر رکھے تھے، یہ مکتبہ، سچ پوچھیے تو باغِ کتاب ہے اور پھلوں سے لدا۔، فرش تا سقف، جہاں دیکھو، کتابوں کی نہ ختم ہونے والی رَوشیں، تس پر لطف یہ کہ ہر کتاب نصف قیمت پر مہیا۔ مکتبوں کاعلم تو خیر ہمیں بہت بعد میں ہوا، لیکن اس سے بڑھ کر اس دکان کی کتاب نوازی کیا ہو گی کہ سنگِ میل ایسے جیب گراں مطبع کی کتابیں بھی پچاس فیصد رعایت پر دستیاب تھیں (اور یہ سہولت تاحال ہے۔) عصر کی نماز مسجد میں مولوی صاحب کی پیش امامت میں ادا کرنے کے بعد میں روز ایک نئی کتاب تھامتا اور خوشی خوشی اشرف آصف صاحب کی موٹر پر سوار، دورقرمزی پہاڑوں کے بسیط دامن میں ان ڈھابوں کی راہ لیتا، جن کے خستہ مٹی والے پیالوں نے چائے کی راہ بہت کچھ وہ وہ گھول کر پلایا کہ آج بھی اس کا کھاتے ہیں۔
ہمارا جیب، اس روز افزوں شوق کی کفایت کہاں تک کرتا، بالآخر، ہم نے شہرکے واحد سرکاری کتب خانے کی ممبر شِپ لے لی (اصل میں ہم نے استادیم اشرف آصف کا لائبریری کارڈ داب لیاتھا۔) بس کیا تھا: اب ہم تھے اور سر خوشی ء شہر ِآرزو! روز جھولی بھربھر کر کتابیں گھر لاتے، اور باراِن پستکوں کا اعصاب پر ذری نہ پاتے، کمرے کو کمرا کاہے رہنے دیا تھا، مامون الرشید کا بیت الحکمہ بنا رکھا تھا۔ کتب خانے سے ان دنوں احتشام حسین کی کتابیں ہاتھ آنے کے سوا، جو نادیدہ گوہر ہاتھ لگا، وہ فاروقی صاحب کی ’شعر، غیر شعر اور نثر‘ تھا۔ یہ باریک تقطیع کا پرانا نسخہ تھا، شاید چَھپائی الہ آباد ہی کی تھی۔ لطف کی بات یہ تھی کہ کتاب کھولتے ہی جو صفحہ سامنے آیا، اس پر لکھا تھا، ”سید احتشام حسین مرحوم کے نام“، نیچے ہاتھ سے لکھے کچھ انگریزی مصرعوں کی نقل تھی۔ یہیں سے ہمیں احتشام صاحب کے باقی نہ رہنے کی صدمہ اندوز خبر بھی ہوئی۔ میرامعمول ہے نئی کتاب پڑھنے سے پہلے اسے آغازو انجام اور درمیان سے کئی جگہیں سے کھول دیکھتا ہوں، اس وقت بھی ایسا کیا۔ جس مضمون پر نظر جم گئی، اب بھی کچھ کچھ یاد ہے۔
آغاز کچھ یوں تھا: آپ کو مشکل سے یقین آئے گا لیکن سچ یہی ہے کہ میں نے بچپن میں نہ کبڈی کھیلی نہ گلی ڈنڈا، نہ گولیاں پھینکیں نہ پتنگ اُڑایا، نہ درختوں پر چڑھے نہ کوند پھاند کی۔۔۔
بس مطالعے کی اُڑتی بہتی بہلی یہاں سے بے قابو ہوئی اور اس جگہ جا کر دم لیاجہاں یہ چودہ پندرہ صفحے کا مضمون ختم ہوا، اس روزکے بعد فاروقی صاحب کی تحریر سے عشق ہوگیا۔
مجھے یہ کہنے میں فخر ہے، فاروقی صاحب ادب میں میرے پہلے اور مستقل محبوب ٹھہرے، باقی جن جن نگینوں کومیں نے حرزِ جاں بنایا، ان میں سے اکثر انھی کے تراشیدہ و چنیدہ تھے۔ اگلے پانچ سات برسوں میں ان کے قلم سے تراوش سبھی کِھلتی بڑھتی پھلواریوں کی سیر کی، ایک سے بڑھ کر ایک گلِ تر، پہلے سے سوا دوسری شاخ نہال۔ اس زمانے میں فاروقی صاحب کی ساری کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں تھی، لہذا جمع آوری کے لیے بڑے کِسالے کھینچنے پڑے۔
صرف دو کتابوں کے خریدنے کی داستان نقل کرتا ہوں۔ قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا!
شعر و شور انگیز میں نے بی اے میں پڑھی تھی۔ اوریئنٹل کالج کے کتاب خانے کا نسخہ تو مانو ہضم ہوگیا تھا۔ کتاب خانے میں ایک ہی سیٹ تھا، روز جی میں آتی کہ چرا لوں اور ایسا کر بھی لیتا مگر دیانت داری کی بجائے ازلی کم ہمتی نے راہ کھوٹا کیا۔ قصہ کوتاہ، اب دن رات یہی ٹوہ رہتی کہ کسی طرح یہ چہارکتبِ راشدین مل جائیں تو دل کو ہدایت ہو۔ اُن دنوں کو آپرا آرٹ گیلری جانے کا اتفاق ہوا، کیا دیکھتا ہوا کہ چوبی الماری میں یہ چاروں اپنی چھَب دکھا رہی ہیں۔ فوراً کاؤنٹر کو بھاگا، لیکن قیمت جو پتا کی، توسالم اٹھارہ سو اور میرے پاس تو یہ آدھے بھی نہ تھے۔ میرا بھولپن دیکھیے کہ جو صاحب کاؤنٹر پر تھے، ان کے سر ہو گیا کہ آج ہی چاہییں لیکن پیسے چار دن بعد مہیا کروں گا، وہ میری سرگشتگی دیکھتے رہے، دامن نہ دارم جامہ از کجا آرم، میں نے جھٹ سے اپنا بستہ ان کو دیا، بستے میں پانچ کتابیں تھیں، چار کے بدلے پانچ، گویا ایک درجہ اوپر کی ضمانت تھی۔ باور کرایا چار دن بعد رقم آ کر دے جاؤں گا اور بستہ لے جاؤں گا۔ ان کے دل میں رحم کا چھینٹاپڑ گیا، کہالے جاؤاور پیسے لے آنا، یقین مانیے آنکھ کے کنار ے پھوٹ بہے، یوں لگ رہا تھا کہ کل اثاثہ یہی ہے، چوتھے کی بجائے تیسرے روز ان کو پیسے جا تھمائے، وہ دن اور آج کا دن، ان سے صاحب سلامت چلی آ رہی ہے۔
دوسری کتاب، جس کی یافت کو خاصے پاپڑ بیلنے پڑے ”ساحری، شاہی اور صاحب قرانی (داستانِ امیر حمزہ کا مطالعہ)“ تھی، اس کتاب کی اس وقت چار جلدیں تھیں (ہندوستانی ایڈیشن میں اب غالباً ایک جلد کا اضافہ ہو چکا ہے۔) میں اس وقت بھی اور اب بھی اس کتاب کو فاروقی صاحب کی دوسری اہم ترین تنقیدی کتاب جانتا ہوں (پہلی بلا شبہ شعرِ شور انگیز ہے۔) میں اس کتاب کو نہ صرف پڑھ چکا تھا، بل کہ کالج میں جماعتی پیش کش کے نام پر ایک گھنٹہ دیگر طلبا پر رعب بھی جھاڑ چکا تھا۔ یہ کتاب صفدر رشید صاحب کے پاس تھی، اس زمانے میں میری ان سے شناسائی نہ تھی، کتاب خریدنے کے معاملے میں فیس بُک پر ان سے رابطہ ہوا تھا۔ بعد میں علم ہوا وہ راولپنڈی میں پورب اکادمی نامی مکتبہ چلاتے ہیں، ان دنوں شمس الرحمن فاروقی پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ چکے تھے اور اس کا کتابی صورت میں مجلس ترقی ادب سے چھپنا متوقع تھا (اب چھپ چکا ہے۔) خیر ملاقات کا دن طے پایا، کتاب کی خریداری الگ، میں اس واسطے بھی پر جوش تھا کہ یا خدا کیسا آ دمی ہو گا جو فاروقی کے علم کو اپنے دام میں لاتا ہے، وہی،
یزدان بکمند آور اے ہمت فرزانہ
ملاقات علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے چائے خانے میں ہوئی، تا دیر فاروقی صاحب پر گفت گو ہوئی، میری زبان، حسبِ معمول مقراض بنی رہی، مخاطب اشتیاق کے اظہار کے طور پر سر کو برابر ہلائے جاتے تھے، مجھ پر چھایا رعب دونا ہو گیا، گفتگو کَم کَم کُنی کہ پِیر ای! حیرت اس وقت ہوئی جب انھوں نے اپنی دستکی جزدان سے نکالی اور میری باتیں لکھنے کو پَر تولنے لگے، پوچھنے پر بتایا: اگرچہ میری کتاب چھپنے کو چلی گئی ہے لیکن آپ کے نکتوں کا دیباچے میں اندراج بہت اہم ہو گا۔ ادھر میری حالت یہ کہ کاٹو تو لہو نہیں، بو علی اندر غبارِ ناقہ غم، یا الہی، جن صفات کو میں فاروقی