Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرے ہم راز جنوں، شام الم کے دم ساز: بھیّا صاحب پروفیسر حسین الحق

عین تابش

میرے ہم راز جنوں، شام الم کے دم ساز: بھیّا صاحب پروفیسر حسین الحق

عین تابش

MORE BYعین تابش

    بھیا صاحب کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر گیا۔عرصۂ حیات و موت کے درمیان کی کہانی طویل ہو یا مختصر مرگ اور مابعد کا افسانہ اپنی مشمولات اور کیفیات میں ایسا اننت ہے کہ سلسلہ ہائے روز و شب دوڑتے ہی چلے جاتے ہیں اپنے اختتام تک نہیں پہنچ پاتے۔گویا بقا دراصل فنا کوہے اور اس طرح گتھی یوں سلجھتی ہے کہ درمیان زیست و مرگ جو عرصہ تھا وہ جہد للبقا کا تھا۔

    ہم نہ ہوں گے تو بہت یاد کرے گی دنیا

    جہد للبقا کا یہ افسانہ ہی کائنات کی فعالیت کا حسین ترین عنوان ہے۔ اس میں بقا بعد فنا کی اپنی ہی تخصیص ہے۔

    میں نے جہد للبقا کو یہاں اصطلاحی طور پر استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اس کی وسیع معنویت کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔۔۔اسی طرح بقا بعد فنا کو بھی صوفیانہ اور عارفانہ مفہوم سے مختص نہیں کیا ہے بلکہ فنکار اور دانشور کی ان خدمات اور باقیات کے ساتھ مخصوص کیا ہے جو موجود دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کی دائمی زندگی کی گواہ بنتی ہیں۔

    بھیا صاحب پروفیسر حسین الحق کی زندگی کے کم و بیش ساٹھ سال ایک بے مثال علمی ادبی اور فکری فعالیت سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔۔وہ ایک ذی علم و فضل صوفی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور یہ خاندانی پس منظر یقینی طور پر ان کے لیے ایک حامل اقدار و افکار سرچشمہ تھا اور والد گرامی قدر مولانا انوار الحق نازش سہسرامی جو خود ایک مقتدر عالم و صوفی اور معروف و معتبر شاعر نثر نگار اور مفکر تھے براہ راست ذریعۂ تعلیم وتربیت اور علمی و ادبی فیضان کا وسیلہ تھے۔

    ابا حضور کے علمی فکری ادبی اور صوفیانہ فیضان کا اثر یہ رہاکہ ہم نے دنیا ’ادب‘ مذہب اور دیگر معاملات و مسائل کو کھلی آنکھوں سے روشن خیالی اور اعتدال کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کا راستہ پالیا‘ نظریاتی تعصبات و توہمات اور انتہاپسندی سے الگ ہو کر چیزوں کو سمجھنا اور نتائج اخذ کرنا ادبی سفر کی خوش خرامی اور کامرانی کا بنیادی وظیفہ ہے۔

    بھیا صاحب کا ادبی سفر اوائل عمر میں ہی شروع ہو گیا تھا۔والد گرامی کی رہنمائی میں انھوں نے افسانہ نگاری اور شاعری ایک ساتھ شروع کی لیکن افسانہ ان کی بنیادی اور دائمی دلچسپی ثابت ہوا۔اس زمانے کا سہسرام ایک طرح سے دبستان شعر و ادب تھا۔شاعری کی بہ نسبت افسانے کی دھوم کم تھی، لیکن حسین الحق اور شفق کے جنون افسانہ نے بالآخر ان دونوں کو اس راہ میں اپنی شناخت کے ساتھ کامرانی عطا کردی۔اس زمانے میں ایک مخصوص طرز کے رومانی افسانہ نگار ظفر اقبال سہسرامی بھی بے حد مشہور ہورہے تھے۔ گویا اس مرکز شعر و سخن میں افسانے کی دستک بھی سنائی دینے لگی اور آہستہ آہستہ وہ دستک اردو فکشن میں ایک نہ بھلائی جانے والی گونج بن گئی۔وطنِ عزیز سہسرام کے مدرسہ خانقاہ کبیریہ سے تکمیل اور ایس پی جین کالج سے گریجویشن کے بعد بھیا صاحب حسین الحق پوسٹ گریجویشن کے لیے پٹنہ یونیورسٹی آگئے۔ شہرپٹنہ اور دبستانِ عظیم آباد سے اس وابستگی کو ان کی علمی اور ادبی زندگی کا بے حد اہم موڑ بلکہ ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے۔

    اس زمانے کی پٹنہ یونیورسٹی کے تہذیبی ماحول اور خصوصی طور پر شعبہء اردو کی دانشورانہ اور ادب نواز فضا نے حسین الحق کے علمی وادبی سفر کے روشن امکانات کی سمتیں متعین کرنی شروع کردیں۔یہ انیس سو ستر کے آس پاس کا زمانہ تھا۔جدیدیت کا رجحان واضح تر ہونے لگا تھا اور شب خون ’کتاب‘ ’سوغات‘ ’تحریک‘ شعر وحکمت‘ ’اقدار‘ آہنگ اور پیکر جیسے عہد ساز رسالوں میں نئے ادبی رجحان کی نمائندگی خوب ہورہی تھی۔پٹنہ یعنی عظیم آباد ماضی کی روایات کی توسیع کرتے ہوئے ایک بڑے ادبی مرکز کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ پروفیسر اختر اورینوی’ علامہ جمیل مظہری‘ ’سہیل عظیم آبادی‘ ’پروفیسر کلیم الدین احمد‘ ’قاضی عبد الودود‘ ’سید حسن عسکری‘ (مؤرخ) سید محمد محسن جیسی جید شخصیتوں کی موجودگی بعد والوں کے لیے باعثِ تحریک و تحرک تھی اور بعد والوں کے لیے اس علمی و ادبی و فکری منظر نامے سے نئے نقوش متعین کرنا ایک جدید تہذیبی تسلسل کے خوابوں کا سفر تھا۔

    حسین الحق کے حوالے سے آگے بڑھنے والی اس گفتگو کو بجا طور پر جدید افسانہ بلکہ جدید فکشن کی گفتگو سے مختص کیا جانا چاہئے۔ اگرچہ وہ بہ حیثیت ناقد اور ادبی و تہذیبی مفکر بھی یاد کیے جائیں گے، لیکن ان کا اختصاص در اصل افسانہ و ناول ہی ہے۔۔ میں نے پٹنہ کے حوالے سے ان کے ادبی سفر کے ٹرننگ پوائنٹ کا ذکر اس لیے کیا کہ سہسرام کے بعد پٹنہ ہی ان کی ادبی فعالیت کا دوسرا موڑ تھا۔۔لیکن جس نئے ادبی اور فکری منظر نامے کا ذکر مقصود ہے اور جس میں مرکزیت یقیناً عظیم آباد کو حاصل تھی اس کا دائرۂ عمل پورا بہار یعنی غیر منقسم بہار تھا جس نے ترقی پسندی سے جدیدیت کے عروج تک اور اس کے بعد بھی شاعری افسانہ اور کلیم الدین احمد کے بعد تک تنقید اور قاضی عبد الودود کے بعد تک تحقیق میں بھی اپنی نما ئندگی درج کرائی۔

    حسین الحق اور ان کے ہم عصر فکشن نگاروں کو سب سے پہلے ترقی پسندی کی بھی ایک روایت پس منظر میں ملی، جس کے سرنامے پر سہیل عظیم آبادی کا نام روشن ہے اور ان کے بعد ایسے فکشن نگار سینئرز کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں غیاث احمد گدی، انور عظیم، کلام حیدری، احمد یوسف، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، جوگیندر پال، نیر مسعود اور کچھ بعد یعنی حسین الحق، زاہدہ حنا، شفق، شوکت حیات اور عبد الصمد سے کچھ ہی پہلے شفیع جاوید، اختر یوسف، الیاس احمد گدی اور منظر کاظمی کا ذکر ہوگا۔

    جدید افسانہ یا نیا افسانہ جدید کہانی یا نئی کہانی۔سہولت کے مطابق جو بھی کہا جائے ایک مخصوص صورت حال سے منسوب اور مربوط ہے۔اب واضح طور پر کوئی ایسی تاریخ ایسا مہینہ یا سال اس کے لیے طے کرنا شاید مشکل ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ترقی پسندی کبھی ختم ہوئی یا جدیدیت کبھی ختم ہوگی۔سارا معاملہ رجحان اور ایپروچ کا ہے جو فنکار کے اندر موجود رہتا اور مخصوص عہد کی پہچان بن جاتا ہے۔زندگی اور اس کے احوال کسی مخصوص زمانے میں کسی مخصوص صورت حال کے زیر اثر چلتے رہتے ہیں۔شناخت اور تخصیص جو ہوتی ہے وہ صرف اسلوب یا طرز اظہار کے حوالے سے ہوتی ہے۔جو درد غلام عباس کے افسانے، آنندی، کو مہمیز کرنے والا تھا وہ اس سے پہلے کے افسانوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن جو انفرادیت تھی اس کے اظہار اور برتاؤ کی، وہی ایک نئے اسلوب کا تعین قدر کہا جاسکتا ہے۔ حسین الحق، قمر احسن، شوکت حیات، علی امام، سلام بن رزاق، نشاط قیصر، شفق، عبد الصمد، منشا یاد، سید محمد اشرف، انور قمر، طارق چھتاری اور دوسرے کئی افسانہ نگاروں نے انیس سو ستر کے آس پاس ایک تازہ کار علامتی، استعاراتی یا تمثیلی اسلوب کو جدیدیت اور وجودیت کے قریب ہوکر یا کہا جائے کہ متاثر ہو کر اپنایا یا اختیار کیا۔

    میں نے اس زمانے میں جب حسین الحق کے افسانوں کی پہلی کتاب ’پس پردۂ شب‘ اور قمر احسن کی پہلی کتاب ’آگ الاؤ صحر ا‘ منظر عام پر آئی تو دونوں کے حوالے سے ایک مشترکہ مضمون لکھا جو آہنگ میں شائع ہوا تھا۔اس مخصوص اور مشترک مطالعے کا سبب اسلوب کا وہی تعارف تھا جس نے مجھے انگیز کیا۔

    بھیا صاحب پروفیسر حسین الحق کی پہلی کتاب پس پردہ ٔ شب‘ (افسانوں کا مجموعہ)سے آخری کتاب ’اماوس میں خواب‘ (ناول) تک اسلوب کی انفرادیت ان کی خصوصی شناخت رہی۔ خواہ دور اول کے افسانے صحرا کا سورج امرلتا، بارش میں گھرا مکان، بند مٹھی کا نوحہ، ربا ربا، صورت حال، اندھی دشاؤں کے سائے، قصہ دھند میں کھوئی رہگزر کا، منادی، سولی اوپر سیج پیا کی، عکس عکس، یا دور اوسط کے افسانے، سبرامنیم کیوں مرا، صبح کب ہوگی ربا، کوس کوس پر پہرہ بیٹھا، منظر کچھ یوں ہے، سوئی کی نوک پر رکا لمحہ، خارپشت، آتم کتھا، ندی کنارے دھواں، وقنا عذاب النار، چپ رہنے والا کون، کربلا، گھنے جنگلوں میں، یا پھر دور آخر کے افسانے، انحد، ناگہانی، سبحان اللہ، نیو کی اینٹ، مور پاؤں، کب ٹھہرے گا درد دل، زخمی زخمہ، اور دیگر بہت سارے افسانے اور ان کے تینوں ناول بولو مت چپ رہو، فرات، اور اماوس میں خواب۔ان کے منفرد اسلوب کے نشانات ہر جگہ موجود ہیں، بلکہ اسلوب کی انفرادیت ہی ان کا نقطۂ شناخت ہے۔

    اسلوب کی انفرادیت پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی ہوگی اور انھوں نے علامت، استعارہ، تمثیل اور تلمیح کو کس فنکارانہ مہارت اور کمال کے ساتھ اپنے فکشن میں تخلیقی بدل کے طورپر یا وسیلۂ اظہار بنا کر استعمال کیا، ان حوالوں سے باتیں چلتی رہیں گی اور چراغ سے چراغ جلتے رہیں گے۔فی الحال اس گفتگو کو سمیٹنے کے مرحلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنی تخلیقیت اور قصہ گوئی یا قصہ نویسی کے ہر مرحلے میں حسین الحق کا بیانیہ ایک طرح کی مخصوص دلکشی اور تازگی بلکہ تازہ کاری سے متصف رہا۔ان کی علامتیں اور استعارے تاریخ و تہذیب کا سفر طے کرتے ہوئے عصر موجود کے احساس تک پہنچنے کی سبیل نکالتے ہیں اور قدیم استعارات و تلمیحات بھی آج اور ابھی کی صورت حال پر گرفت قائم کرتے ہیں۔

    حسین الحق ایک ایسے فنکار تھے جن کے فنکارانہ علاقے بیک وقت گزرے ہوئے زمانوں کی تاریخ ساز بستیوں اور زمانۂ موجود کے دل شکن در و دیوار تک پہنچنے کا ہنر جانتے ہیں۔کچھ اور آگے بڑھ کر تو یہ طلسم کشائی بھی ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی شخصیت کو اپنے احساس و افکار کا اور احساس و افکار کو اپنی شخصیت کا ہم راز و ہم سخن بنا رکھا تھا۔

    ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے