Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موگرے کی بالیوں والی

جاوید صدیقی

موگرے کی بالیوں والی

جاوید صدیقی

MORE BYجاوید صدیقی

    بکھری ہوئی مٹی کو اکٹھا کر کے قبر کی شکل دے دی گئی تھی، سوکھی مٹی پر پانی ڈال کر گیلا کر دیا گیا تھا اور دھوپ سے کمھلائے ہوے اداس پھولوں کی ایک چادر قبر کے اوپر ڈال دی گئی تھی، جس میں لال پیلی اور ہری پنّی کے رِبن ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے تھے اور ایک عجیب بے معنی اور بیہودہ سی آواز پیدا کر رہے تھے۔

    وہ چند لوگ جو جنازے کے ساتھ آئے تھے، جا چکے تھے اور سورج پیلا ہو کر گل مہر کے پیڑ کے پیچھے چلا گیا تھا۔ وہاں میرے علاوہ قبر کھودنے والا ایک مزدور تھا، جو بکھری ہوئی مٹی کو ٹوٹی ہوئی قبروں میں ڈال کر صفائی کر رہا تھا۔ میں بہت دیر تک کمھلائے سفید پھولوں کے نیچے گیلی کالی مٹی کو دیکھتا رہا، پھر میں نے کہا، ’’اچھا آپا، تو خدا حافظ۔۔۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے شاید میری آواز بہت اونچی ہوگئی تھی، اس لیے کہ مٹی صاف کرنے والے مزدور نے اپنا پھائوڑا روکا اور سر ٹیڑھا کر کے مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی جذبہ نہیں تھا، نہ حیرت کا، نہ ہمدردی کا، نہ دکھ کا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔

    ایسے ہنگامے تویاں روز ہوا کرتے ہیں

    میں نے آخری دفعہ قبر کو دیکھا، ہاتھ ہلایا اور باہر جانے والی پتلی پگڈنڈی پہ چل پڑا۔ پتا نہیں کیسے، وہ آنسو جو بہت دیر سے رکے ہوئے تھے، اچانک بہنے لگے۔ ہر چیز ایک دم سے دھندلی ہوگئی اور اس دھند میں ظفر گورکھپوری کی آواز سنائی دی، ’’آپا بڑی اچھی انسان تھیں۔۔۔‘‘ میں نے سر ہلایا اور آنسو پونچھ ڈالے۔

    ظفر نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا، ’’تمہاری رشتے دار تھیں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘ میں نے کہا۔

    ’’کب سے جانتے تھے؟‘‘

    اب میں انہیں کیا بتاتا کہ کب سے جانتا تھا! مجھے تو ہمیشہ ایسا ہی لگا کہ میں انہیں ہمیشہ سے جانتا تھا، اور مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ ہمیشہ کتنا لمبا ہے۔

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں انقلاب میں کام کیا کرتا تھا۔ خالد انصاری امریکہ سے جرنلزم کی ایک بڑی سی ڈگری لے کر آئے تھے اور اردو صحافت میں انقلاب لانے کے لیے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا چکے تھے۔ انہوں نے چن چن کر ان تمام نوجوان صحافیوں کو انقلاب میں جمع کر لیا تھا جو ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ میں بھی انہیں میں سے ایک تھا۔ شام ہوتے ہوتے دفتر کی ساری میزیں دونوں طرف سے بھر جاتیں۔ چونکہ میزیں کم تھیں، یا یوں کہنا چاہیے کہ جگہ تھوڑی تھی، اس لیے دو دو آدمی آمنے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ صرف ایک میز ایسی تھی جس پر خلش جعفری کا قبضہ بلا شرکت غیرے رہا کرتا تھا، کیونکہ وہ ایڈیٹر تھے۔ کام وام تو خیر ہوتا ہی تھا لیکن باتیں کرنے اور سننے میں بھی بہت مزہ آتا تھا۔ اس چھوٹے سے دفتر میں عزیز قیسی بھی تھے، ہاشم طرزی بھی، شاہد رزاق، شمیم زبیری، محمودراہی، سردار عرفان، شمس الحق شمس پھلواروی اور میں۔ دھاردار جملے، خاردار تبصرے اور قہقہے ایک ایسا ماحول بناتے تھے جو میں نے انقلاب کے بعد کسی دفتر میں نہیں دیکھا۔ سونے پہ سہاگہ کا لم نگار عبداللہ ناصر، سلامت خیر آبادی، مولانا اطہر مبارکپوری، شعر پہ شوشہ والے کارٹونسٹ وہاب حیدر اور بسم اللہ ہوٹل کی چائے۔ بارہ بجتے بجتے آخری کاپی پریس چلی جاتی اور ہم میں سے کئی نوجوان، جن کے گھر بار نہیں تھے، کھانا ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتے۔

    مجھے اور سردار عرفان کو وہ تمام خفیہ جگہیں معلوم تھیں جہاں سستا اور عمدہ کھانا ملا کرتا تھا۔ فارس روڈ پہ بچو کی باڑی کے باہر نان چاپ اور بھنا گوشت بہت اچھا ملتا ہے۔ کھاتے کھاتے کچھ ٹھمکے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہیں پاس میں مبارک سیخ والا بھی اپنا ٹھیلا لگاتا ہے۔ مستان طالب کے کونے پہ نہاری اور سری پائے والا کبھی کبھی مل جاتا ہے کیونکہ اس کا مال ذرا جلدی بک جاتا ہے۔ بھنڈی بازار کے چوراہے پر پاٹکامنزل کے نیچے فٹ پاتھ پر دور تک چٹائیاں بچھی ہوتی ہیں اور نہایت مزے دار کھچڑا، جس پر تلی ہوئی پیاز اور ہری مرچوں کی ڈریسنگ ہوتی ہے، بہت سستا ملتا ہے۔ آپ چاہیں تو وہیں دکان کے تختے پر بیٹھ کر سر کی مالش بھی کراسکتے ہیں، کیونکہ دو تین مالش والے کھچڑے والے کے ساتھ ہی فٹ پاتھ پہ ڈیرہ جما دیا کرتے ہیں۔ اگر گوشت خوری کا موڈ نہ ہو تو ذرا سا آگے بڑھ جائیے، پائیدھونی اور بھلیشور کے بیچ میں چار پانچ ٹھیلے والے بہت اچھی اور سستی آلو کی ترکاری اور پوریاں بیچتے ہیں۔ اور منھ میٹھا کرنے کے لیے جے جے اسپتال پر ربڑی اور کالی جلیبی۔۔۔ اے سبحان اللہ، ایسا ڈنر کسے نصیب ہوگا۔ مگر کھانا کھانے کے بعد کافی پینے کا مزہ ناگپاڑہ جنکشن پر ہی آتا ہے۔ رولیکس ہوٹل کے پاس روزنامہ ہندوستان کے دفتر کے نیچے فٹ پاتھ پر ایک بھیّا دو سماوار لیے ہوے بیٹھا ہوتا ہے۔ سماوار کے نیچے دہکتی ہوئی آگ اور سماوار کے اندر ابلتی ہوئی کافی اورچائے۔ چائے سات پیسے کی، کافی دس پیسے کی۔ پیچھے پان اور سگریٹ کی دکان بھی ہے۔ مشتاق پان والا مینا کماری پہ بہت سنجیدگی سے عاشق ہے۔ اس کی دکان میں جو آئینہ لگا ہے، اس پر مینا کماری کی درجن بھر سے زیادہ تصویریں چپکی ہوئی ہیں۔ آپ دیکھنا بھی چاہیں تو اپنی صورت نہیں دیکھ سکتے، اس لیے مینا کماری کی آنکھوں میں جھانک کر ہی دل کو تسلی دینی پڑتی ہے۔

    پان کی دکان پر اور رولیکس ہوٹل کی پتھر کی سیڑھیوں پر شب زندہ داروں کی ایک محفل جمی ہوتی تھی۔ ان محفلوں میں کوئی بزرگ تو کبھی کبھار ہی آیا کرتے تھے، ہاں لونڈے لپاڑے بہت سے ہوتے تھے۔ کچھ لوگ ادب اور صحافت کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں پریشان ہوتے، کچھ لڑکے کرکٹ اور کوپر یج پر ہونے والے فٹ بال کے میچ کے ہارنے اور جیتنے پر جھگڑتے ہوتے اور کبھی کبھار کوئی سیاسی گھمسان بھی چھڑجاتا، کیونکہ سو قدم آگے کمیونسٹ پاٹی کا آفس تھا اور لال بائوٹے والے جب بھی آتے محفل کو گرما کر رکھ دیتے۔ میں نے بہت سی راتیں رولیکس ہوٹل کے ٹھنڈے پتھر پر بیٹھے بیٹھے گزاری ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں نے جو کمرہ کرائے پہ لے رکھا تھا وہ باندرہ ایسٹ کی ایم آئی جی کالونی میں تھا، اور وہاں جانے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ دو بجے تک بسیں اور لوکل ٹرینیں بند ہو جاتی تھیں۔ اس لیے کبھی کاتبوں کے بیٹھنے کی گدّیاں ملا کے انقلاب کے دفتر میں سو جاتا اور کبھی کامریڈ عبدالجبار کی طرف سے لال بائوٹا آفس کی بنچ پر کمر سیدھی کرنے کی اجازت مل جاتی اور کچھ نہ ہو تو رولیکس کی سیڑھیاں تو مہمان نوازی کے لیے موجود ہی تھیں۔ مقصد تو رات کو صبح کرنا ہوتا تھا، اور رات کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ کسی طرح بھی کٹے مگر کٹ ضروری جاتی ہے، اور صبح خم ٹھونکتی ہوئی سامنے آکھڑی ہوتی ہے :

    کون ہوتا ہے حریف مئے مردافگن عشق

    ایسی ہی ایک میلی کچیلی صبح تھی۔ میں رولیکس ہوٹل میں بیٹھا ہوا اپنی پہلی چائے ختم کر رہا تھا۔ پہلی اس لیے کہ جب گیارہ بجے سوکر اٹھو تو نیند کا نشہ ایک پیالی سے نہیں ٹوٹتا۔ اچانک سامنے کے فٹ پاتھ پہ کچھ ہلچل سی دکھائی دی۔ کچھ لڑکے جن کے ہاتھوں میں لال پرچم تھے، لپکتے ہوئے گزر رہے تھے۔ ان کے پیچھے دس پندرہ آدمیوں کی ایک چھوٹی سی ٹولی اور بھی تھی جن کے بیچ میں سلطانہ آپا سڑک پار کر رہی تھیں۔

    لال بارڈر والی سفید ساڑی جس کا پلّو تیز دھوپ سے بچنے کے لیے سر پہ لے لیا گیا تھا۔ گرمی کی شدت سے گورا رنگ سرخی مائل ہو گیا تھا۔ بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں چمک تھی اور پتلے پتلے گہرے گلابی ہونٹوں پر ایک ایسی مسکراہٹ جو ان کے ہونٹوں سے نہیں چہرے سے پھوٹتی ہوئی لگتی تھی۔ سلطانہ آپا کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پہ ناگپاڑے سے اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی تھیں اور اسی سلسلے میں علاقے کے گلی محلوں میں گھوم رہی تھیں۔ میرے ذہن کے البم میں سلطانہ آپا کی یہ پہلی تصویر ہے۔

    انقلاب میں میری تنخواہ تھی ایک سو بیس روپے۔ دوسرے اخباروں کے مقابلے میں یہ خاصی بڑی رقم تھی، کیونکہ دوسرے اخباروں کے مالک تو پچاس ساٹھ روپے سے زیادہ کا نام سنتے ہی نوکری مانگنے والوں کو بھگا دیا کرتے تھے۔ مگر ایک سو بیس روپے میں بھی کیا ہوتا تھا۔ پچاس ساٹھ روپے ماہوار تو ملباری کے ہوٹل میں دینا پڑتا تھا جو مہینے بھر تک دوپہر کا کھانا ادھار کھلایا کرتا تھا اور کھانے کی رقم اپنی کاپی میں لکھتے وقت ہمیشہ بتا دیا کرتا تھا کہ ٹوٹل کتنا ہوا، تاکہ کھانے والا چادر سے باہر پائوں نہ پھیلائے۔ کچھ پیسے اماں کو بھی بھیجنے پڑتے تھے۔ کمرے کا کرایہ بھی دینا پڑتا تھا جو زیادہ تر وعدوں کی صورت میں ادا ہوتا رہتا تھا۔ باقی اوپر کا خرچہ جس میں ایک نئی علت شمس صاحب نے شامل کردی تھی۔

    شمس صاحب میرے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ بہت دبلے پتلے تھے۔ کمزور تو میں بھی تھا مگر وہ اس قدر منحنی تھے کہ اگر جسم پہ کھال نہ ہوتی تو میڈیکل کالج والے ڈھانچہ سمجھ کے لے جاتے۔ کوٹ پہننے اور ٹائی لگانے کے بڑے شوقین تھے۔ کوٹ تو خیر ٹھیک تھا، ان کی کمزوری کو کسی حد تک چھپا لیتا تھا، مگر وہ نامراد ٹائی ان کی پتلی سی گردن کو اور زیادہ نمایاں کر دیتی تھی۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے تصویر کے نیچے سرخی لگی ہو۔ وہ چین سمو کر تھے۔ ایک سگریٹ ختم نہیں ہونے پاتی تھی کہ ہاتھ کوٹ کی جیب میں جاتا، قینچی چھاپ سگریٹ کی ڈبیا باہر آتی، شمس صاحب ڈبیا کو دیکھے بغیر ٹٹول کے ایک سگریٹ نکالتے اور ڈبیا میری طرف بڑھاتے ہوے کہتے، ’’لیجیے لیجیے، سگریٹ لیجیے، پیجیے۔‘‘ اور میں بہت ادب سے عرض کرتا، ’’شکریہ، میں نہیں پیتا۔۔۔۔‘‘ شمس صاحب کا سگریٹ پیش کرنے کا عمل شام سے رات تک اتنی بار ہوتا کہ غصہ آنے لگتا تھا، مگر میں جانتا تھا کہ وہ جان بوجھ کر مجھے تنگ نہیں کر رہے ہیں بلکہ مہمان نوازی اور مدارات ان کے کردار کا ایک حصہ ہے، کیونکہ آخر تھے تو لکھنو ہی کے۔

    سگریٹ پیش کرنے اور انکار کرنے کا یہ سلسلہ مہینوں جاری رہا۔ مگر دل کے اندر پتھر تو ہوتا نہیں ہے، میری برف بھی پگھلنے لگی اور ایک دن میں نے شمس صاحب کا سگریٹ اس لیے قبول کر لیا کہ اتنے اچھے ساتھی کا دل آخر کتنی بار توڑا جا سکتا ہے۔

    شروع میں تو میں یہ کرتا تھا کہ دھواں منھ میں بھرتا تھا اور نکال دیتا تھا۔ مگر سگریٹ پینے والے جانتے ہیں کہ یہ دھواں منھ کے اندر نہیں رکتا، یہ گلے سے اتر کے وہاں تک پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچ کر زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے، اور پھر ایک دن زندگی کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔ شروع شروع میں تو کھانا کھانے کے بعد ایک سگریٹ بہت مزہ دیتی تھی، پھر اس کی ضرورت بڑھنے لگی۔ اور پھر کوئی بھی شریف آدمی مانگے کے سگریٹ پر کب تک گزارہ کر سکتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنے پیکٹ منگانا اور شمس صاحب کے احسانوں کا بدلہ اتارنا شروع کر دیا۔ اس زمانے میں گولڈفلیک کی ڈبیا ایک روپے کی آتی تھی، اور مل بانٹ کر پی جائے تو ڈیڑھ دو پیکٹ روزانہ کا خرچہ تھا۔ بالفاظ دیگر یہ کہ تقریباً چالیس پچاس روپے ماہوار کا خرچہ بڑھ چکا تھا۔ بہت حساب لگایا، بہت کوشش بھی کی مگر ایک سوبیس روپے میں کھانا، چائے اور دیگر اخراجات کے ساتھ سگریٹ کسی صورت سے نہیں سمایا۔ مہینے کے آخر میں تو ٹرام اور بس کے پیسے بھی نہیں بچتے تھے، اور کچھ کھانے پینے سے پہلے جیب میں ہاتھ ڈال کر انگلیوں سے پیسے گن لیا کرتا تھا کہ کہیں بل دیتے وقت بے عزتی نہ ہو جائے۔ ایسا ہی کوئی دن تھا جب کامریڈ عبدالجبار نے پوچھا، ’’کیابات ہے کامریڈ، بڑے اجڑے اجڑے لگ رہے ہو؟‘‘

    میں نے جیب و دل کا سارا احوال سنا دیا۔

    جبار بھائی اک دم سے چپ ہو گئے اور سڑک پہ گزرنے والوں کو دیکھنے لگے۔

    جبار بھائی میری زندگی میں کب اور کیسے گھس آئے تھے، مجھے یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے، مجھ جیسے بہت سے نوجوانوں کے لیے، اور کچھ بزرگوں کے لیے بھی، ہر مرض کی دوا تھے۔ وہ جر نلسٹوں کی کوئی پرابلم ہو، ہاتھ کر گھا والوں کے مسائل ہوں، بیکریوں میں بریڈ اور بسکٹ بنانے والوں کی پریشانی ہو، میونسپلٹی کا مسئلہ ہو یا حکومت کا، جبار بھائی ہر مورچے پر ڈٹ جایا کرتے تھے۔

    وہ بہت دیر تک بسم اللہ ہوٹل کے باہر سڑک کی چہل پہل دیکھتے رہے۔ پھر اچانک میری طرف مڑے، مسکرائے اور بولے، ’’اماں ہٹائو، یہ کوئی اتنا بڑا پرابلم نہیں ہے۔ کوئی رستہ نکال لیں گے۔ چلو چائے منگوائو۔‘‘

    انہوں نے رستہ یوں نکالا کہ ایک دن صبح مجھے لے کر نیپین سی روڈ پہنچے جہاں سوویت انفارمیشن کا دفتر تھا۔ ایک بڑے سے ہال میں بہت سے لوگ لکھنے پڑھنے میں مصروف تھے۔ جبار بھائی وہاں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو جانتے تھے اور سب لوگ انہیں جانتے تھے۔ ان میں مشہور جرنلسٹ اور کالم نگار لاجپت رائے تھے، گجراتی کے ادیب بٹک دیسائی تھے اور دینا پاٹھک بھی تھیں جو بہت مشہور اسٹیج اور فلم ایکٹریس تھیں۔ کچھ دیر تک خیر خیریت پوچھنے کا سلسلہ جاری رہا اور پھر ہم ایک کمرے میں داخل ہوے جہاں چاروں طرف کاغذوں، کتابوں اور اخباروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، اور اس ڈھیر کے پیچھے ایک کرسی پہ سلطانہ آپا بیٹھی تھیں۔ وہ سینئر ایڈیٹر تھیں اور اردو انگلش کے ڈپارٹمنٹ ان کے پاس تھے۔ آنکھوں میں وہی چمک، ہونٹوں پہ وہی مسکراہٹ تھی جو پورے چہرے سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ جبار بھائی نے تعارف کرایا۔ آپا نے مجھے بڑی ہمدردی اور پیار سے دیکھا اور پوچھا، ’’چائے پیوگے؟‘‘ میرے ہاں کہنے پر انہوں نے میز کے نیچے سے ایک تھرماس نکالا اور تھرماس کے اوپر لگے ہوئے پلاسٹک کے کپ میں چائے ڈال کر میری طرف بڑھا دیا، اور خود جبار بھائی سے باتیں کرنے لگیں۔ نہ انھوں نے مجھ سے کچھ پوچھا نہ میں نے بتایا۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم لوگ جانے لگے تو آپا نے APNکے چار پانچ آرٹیکل میری طرف بڑھا دیے، ’’انہیں ترجمہ کرکے لے آنا، مگر زبان ذرا آسان لکھنا۔‘‘ آپا کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔

    روسی مضامین ملک کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیے جاتے اور اخباروں کو بھیج دیے جاتے۔ چونکہ اتنے سارے مترجم ملازم نہیں رکھے جاسکتے اس لیے ترجمے کا کام جاب ورک کے طور پر ہوتا تھااور ہم جیسے بہت سے لوگ یہ ترجمے کرتے تھے اور ہمیں اس کا معاوضہ دیا جاتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، انگلش کے ایک صفحے کا ترجمہ کرنے پر سات روپے ملتے تھے۔ دس پانچ منٹ کی محنت کا یہ معاوضہ برا نہیں تھا مگر مشکل یہ تھی کہ سلطانہ آپا کسی ایک کو زیادہ کام دے کرجانب داری کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتی تھیں۔ مہینے میں دو چار دفعہ چلا جاتا، جو ہاتھ آتا وہ اٹھا لاتا اور جو پیسے مل جاتے انہیں لے کر لینن کا شکرادا کرتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بقول بمبئی والوں کے، کھانے پینے کے واندے ہو جاتے۔ ایسے موقوں پر دو ہی سہارے تھے : آل انڈیا ریڈیو یا پھر سلطانہ آپا۔ اور وہ بھی بلا کی چہرہ شناس تھیں، منھ دیکھ کر جیب کا حال جان لیا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی ڈانٹ بھی دیا کرتیں، ’’بھئی تم تو مجھے نوکری سے نکلوائو گے۔ ابھی آٹھ دن پہلے ہی تو۔۔۔‘‘

    ’’آپا، زمانہ بہت خراب ہے اور میرے حالات زمانے سے زیادہ خراب ہیں۔۔‘‘ میں ڈھٹائی سے جواب دیتا۔ وہ مسکرادیتیں۔ مسکراہٹ پورے چہرے پہ پھیل جاتی۔ پھر وہ کوئی آرٹیکل پکڑاتے ہوئے کہتیں، ’’چلو، اس کونے میں بیٹھ جائو اور جلدی سے ترجمہ کر ڈالو۔‘‘ اور میں کسی کونے میں بیٹھ کر دو چار کاغذ کالے کرتا اور آپا کے پاس پہنچ جاتا۔ آپا مضمون کو دیکھتیں، ایک کاغذ پر ایک نوٹ بناتیں اور پھر کہتیں، ’’لپکو لپکو، بانوواکے پاس چلے جائو ورنہ وہ نکل جائے گی۔‘‘

    بانو واسوویت انفارمیشن کی وزیر خزانہ تھیں۔ بہت ننھی منی سی خاتون تھیں۔ خود کو میز کے برابر کرنے کے لیے کرسی پر دو تین کُشن رکھا کرتی تھیں۔ شاید اُزبیک یا تاجک تھیں، لیکن تھیں بڑی محبت والی۔ اردو کے دو چار جملے آتے تھے جنہیں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ملا کے اس طرح بولتی تھیں کہ مزہ آجاتا تھا۔

    بانو وامضمون دیکھتیں، اور یجنل دیکھتیں، پھر ایک وائو چر بناتیں اور رسیدی ٹکٹ لگا کر دستخط لینے کے بعد نوٹوں کو دو تین بار گنتیں اور حوالے کرتے وقت میرا شکریہ سننے سے پہلے خود ہی کہتیں، ’’شکریہ!‘‘

    شروع شروع میں تو آپا سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں، وہ رسمی اور کاروباری تھیں۔ مگر دھیرے دھیرے یہ دوری کم ہوتی گئی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ آپا فرصت سے ہوتیں اور ہم لوگ اپنی باتیں کرتے۔ آپا لکھنو کے رہنے والی تھیں اس لیے بڑی شائستہ زبان بولتی تھیں۔ لہجہ مدھم اور ٹھہرا ہوا اور آواز میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو بہت دیر تک سننے کے بعد بھی کانوں پہ بار نہیں گزرتی تھی۔ ان کی باتوں میں عصمت آپا والی چٹکیاں تو نہیں ہوتی تھیں مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک آدھ جملہ ایسا ضرور سنائی دیتا تھا جو ان کی حاضر جوابی اور حاضر دماغی کا ثبوت ہوتا تھا۔ آپا نے بتایا کہ امیٹھی کے ایک خاندانی رئیس منہاج الدین ان کے والد تھے۔ وہ چھ بہنیں تھیں جن میں سے تین، یعنی سلطانہ، خدیجہ اور آمنہ ایزا بیلا تھوبرن (IT) کالج لکھنؤ میں پڑھا کرتی تھیں اور منہاج سسٹرز کے نام سے مشہور تھیں۔ مگر جیسا کہ یوپی کی عام بول چال میں جوان لڑکی کے نام کے ساتھ بی، لگا دیا جاتا ہے، ان تینوں کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا یعنی سلطانہ بی خدیجہ بی اور آمنہ بی، اور اس رعایت سے کالج کے منچلے ان تینوں کو Three Beesکے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ یہ تینوں بہنیں پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ دوسری سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔

    ہر سال جب دلی میں یوتھ فیسٹول ہوتا تو لکھنؤ کی نمائندگی کرنے والوں میں سلطانہ منہاج کا نام سب سے پہلے لکھا جاتا۔ یہی وہ یوتھ فیسٹول تھے جہاں علی گڑھ کے ایک تیز طرار آتش بیاں مقرر علی سردار جعفری سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلے پر تھے۔ پتانہیں موضوعِ بحث کیا تھا، مگر جو بھی تھا، سردار جعفری نے اس کی دھجیاں اڑا کے رکھ دیں اور سلطانہ کا گروپ ہار گیا۔ مگر سلطانہ نہیں ہاریں۔ انہوں نے رات میں کیمپ فائر کے موقعے پر سردار جعفری کو پکڑ لیا اور اپنے موقف کی حمایت میں ایسی ایسی دلیلیں دیں کہ سردار جعفری کا منھ کھلا رہ گیا۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا، ’’ارے بھئی، آپ نے یہ سارے Argumentsاس وقت اسٹیج پر کیوں نہیں بولے؟‘‘ سلطانہ ایک دم سے چپ ہوگئیں۔ سردار جعفری کے بار بار پوچھنے پر انہوں نے ایک شرمندہ سا جواب دیا، ’’اس وقت میں بھول گئی تھی۔‘‘

    سلطانہ آپا نے جب یہ قصہ مجھے سنایا تو میں نے کہا، ’’آپا، اس قصے میں تو نور جہاں اور جہانگیر والی کہانی کی بڑی شباہت ہے۔ میرا کبوتر کیسے اڑگیا؟ ایسے اڑگیا۔ اس سادگی پر تو کوئی بھی عاشق ہو جائے گا۔‘‘

    آپا کا چہرہ مسکراہٹ سے بھر گیا، آنکھوں میں چمک آگئی مگر غصے میں بولیں، ’’اے ہٹو، فالتو باتیں مت کرو۔ نہ کوئی عاشق ہوا تھا نہ کسی کو عشق ہوا تھا۔ میری شادی طے ہو چکی تھی۔‘‘

    آپا نے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا تھا۔ ان کی شادی ایک فوجی افسر شہاب الدین قریشی کے ساتھ ہوئی تھی جو ان کے چچازاد بھائی بھی تھے۔ اس شادی سے ایک بیٹی دردانہ (Guddo) پیدا ہوئی۔ مگر یہ رشتہ بہت دن تک قائم نہیں رہ سکا۔ دردانہ کا کہنا ہے کہ ان کے باپ اور ماں دونوں بہت اڑیل تھے۔ اگر منہ سے ہاں نکل گئی تو نہ نہیں ہوگی اور نہ کہہ دیا تو ہاں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ شہاب الدین صاحب کے بارے میں تو میں کچھ بھی نہیں جانتا مگر آپا کے ضدی ہونے پر یقین نہیں آتا۔ چالیس اکتالیس سال کے میل ملاقات میں آپا کے بہت سارے روپ میرے سامنے آئے مگر ان کی ضد یا ہٹ دھرمی کا کوئی نمونہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آپا کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو بھی ہوں جو میری نظر سے چوک گئے ہوں، کیونکہ بہر حال ایک بیٹی اپنی ماں کو بہتر جانتی ہے۔

    ہاں تو یہ ہوا کہ گڈو تین چار برس کی تھی جب طلاق ہوگئی۔ آپا نے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری کرلی اور ان کی پوسٹنگ لاہور میں ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب بٹوارے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چکی تھیں اور دن گنے جارہے تھے کہ کب اس خوبصورت ملک کے چہرے پر نفرت کے چاقو سے ایک لکیر ڈالی جائے گی اور ایک ایسا زخم بنے گا جو صدیوں تک خون دیتا رہے گا۔ فسادات شروع ہو چکے تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون کہاں زیادہ محفوظ رہے گا۔ لاہور کا اسٹیشن ڈائرکٹرایک ہندو تھا۔ اس نے آپا کو بلایا اور پوچھا، ’’اگر ملک تقسیم ہوا تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ لاہور پاکستان کا ایک حصہ بنے گا۔ آپ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یہاں رہنا پسند کریں گی یا۔۔۔؟‘‘ آپا نے جواب دیا، ’’میں ہندوستان جائوں گی سر، جو میرا وطن ہے۔‘‘ اور اس طرح 1946میں آپا نے اپنا تبادلہ بمبئی کرالیا۔ بمبئی پہنچ کر انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے کاموں سے زیادہ انجمن ترقی پسند مصنفین میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اس وقت بمبئی ترقی پسند تحریک کا مرکز تھا اور وہ تمام لوگ جو اس تحریک کے روح رواں تھے، بمبئی میں جمع تھے اور ان میں علی سردار جعفری بھی تھے۔

    اس زمانے میں دو باتیں ایک ساتھ ہوئیں۔ سلطانہ آپا کمیونسٹ پارٹی کے قریب آنے لگیں اور سردار جعفری سلطانہ آپا کے اور 1948میں ایک سادہ سی تقریب میں سلطانہ منہاج، عرف سلطانہ قریشی، سلطانہ جعفری بن گئیں۔

    کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ میں مضامین لینے کے لیے سوویت انفار میشن میں جاتا تو فریدہ کو بھی لے جاتا، اور آپا بار بار پوچھتی تھیں، ’’ارے بھائی، تم لوگ شادی کب کر رہے ہو؟‘‘ اور میں ہمیشہ بات کو ٹال جایا کرتا تھا۔ ایک دن آپا کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئیں۔ کہنے لگیں، ’’لڑکی بہت اچھی ہے، جاوید۔ جتنی جلدی ہو سکے شادی کر لو، کیونکہ اچھی لڑکیوں کو رشتوں کی کمی نہیں ہوتی۔ اور مڈل کلاس کے ماں باپ کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ جو ان بیٹی جلدی سے رخصت ہو جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فریدہ کے ماں باپ کسی اور کو ہاں کہہ دیں۔ تم تو خیر پچھتائو گے ہی، اس کی زندگی بھی برباد ہو جائے گی۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپا، اتنی کم تنخواہ ہے، اوپر سے جو انکم ہوتی ہے وہ بھی آپ جانتی ہیں۔ سرکے اوپر اپنی چھت بھی نہیں ہے۔ فریدہ تو اپنے ماں باپ کی مرضی کے بغیر بھی شادی کے لیے تیار ہیں مگر ان کا سوال بھی یہی ہے کہ شادی کے بعد رہیں گے کہاں؟ آفس کی میز پر تو سونے سے رہے۔‘‘

    آپا نے اپنا ہاتھ زور سے ہوا میں گھمایا اور بولیں، ’’سب ہو جاتا ہے، ہمت ہونی چاہیے۔ جب میری شادی ہوئی تھی تو سردار کے پاس کون سے بنگلے تھے؟ اندھیری کمیون میں رہتے تھے ہم لوگ۔ سردار پارٹی کے فل ٹائمر (Full timer) تھے، ان کو سوروپے مہینہ ملتا تھا۔ اور میری تنخواہ 240روپے تھی۔‘‘

    میں کچھ لاجواب سا ہو گیا۔ آپا نے کہا، ’’جلدی کرو جلدی، ورنہ میں کسی دن خلافت ہائوس جائوں گی جہاں فریدہ رہتی ہے، اور اس کے ماں باپ سے کہوں گی کہ یہ لڑکا بالکل نکما اور ناکارہ ہے، آپ اپنی بیٹی کی شادی کسی اچھے گھر میں کر دیجیے۔ سوچ لو، تمہارا کیا انجام ہوگا۔‘‘ وہ میرے زرد ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بہت زور سے ہنسیں اور پھر بڑے راز دارانہ انداز میں دھیرے سے بولیں، ’’کبھی مایوس مت ہونا۔ کبھی نہیں۔ چائے پیوگے؟‘‘

    یہ حقیقت ہے کہ شادی کے بعد آپا اور جعفری صاحب کافی بھٹکتے رہے مگر مایوس نہیں ہوے۔ پہلے اندھیری کمیون میں رہتے تھے۔ لیکن چونکہ سردار جعفری کا حلقۂ کار کردگی لال باغ پریل کی ملوں سے لے کر مدنپورہ ناگپاڑے تک تھا، اس لیے پارٹی نے دادر میں ایک کمرہ دے دیا۔ پھر بعد میں انھیں کھیت واڑی میں ریڈفلیگ ہال میں منتقل کر دیا گیا جہاں اور بھی بہت سے کامریڈ رہتے تھے۔

    آپا جب بھی ریڈفلیگ ہال میں گزرے ہوئے اپنے دنوں کے قصے سناتیں تو بالکل ایسا لگتا جیسے کوئی اپنے بچپن کے ٹوٹے پھوٹے کھلونوں کو صاف کر کے، سہلا کے، پیار کر کے الماری میں سجا رہا ہو۔

    ’’کیفی اور موتی (شوکت کیفی) سامنے والے کمرے میں رہتے تھے۔ موتی بڑی سگھڑ ہے، اس نے اپنی چھوٹی سی بالکنی کو کچن بنا لیا تھا اور جب بھی اس کے کمرے سے کھانے کی خوشبو آتی تھی تو مجھے بہت غصہ آتا تھا۔‘‘

    ’’کھانے پر غصہ کیوں آتا تھا؟‘‘

    ’’بھئی، مجھے آملیٹ کے سوا کچھ بنانا نہیں آتا۔ کبھی کبھی قورمہ اورقیمہ بناتی ہوں یا ماش کی سفید دال۔ یہ کبھی اچھے بن جاتے ہیں تو کھانے والوں کی قسمت۔‘‘

    ’’ارے آپ کیسی لکھنؤ والی ہیں، کھانا بنانا نہیں جانتیں؟‘‘

    ’’بھئی یہ ہماری خاندانی مجبوری ہے۔ ہماری اماں کو بھی کھانا پکانا نہیں آتا تھا اور نہ ہماری بیٹی کو آتا ہے۔ مگر لکھنؤ کا اتنا اثر ضرور ہے کہ اچھے اور برے کھانے کی تمیز رکھتے ہیں، اچھے کھانے کے شوقین ہیں اور اس لالچ میں کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

    یہ ’’شوقین‘‘ والی بات ذرا قابل غور ہے۔ سلطانہ آپا اچھے کھانے کی ہی نہیں، ہر طرح کے کھانے کی شوقین تھیں۔ عصمت آپا انہیں چٹوری کہا کرتی تھیں حالانکہ خود عصمت آپا بھی نہایت چٹوری تھیں۔ اور یہ دونوں چٹوری خواتین کہیں بھی، کچھ بھی کھا سکتی تھیں، بس چٹپٹا ہونا چاہیے۔ اگر یقین نہ ہو تو انڈس کورٹ (جہاں عصمت آپا رہتی تھیں) کے نیچے کھڑے ہونے والے چنا چاٹ، بھیل پوری اور پانی پوری والوں سے پوچھ لیجیے کہ اردو ادب کی خاتون اول اور سلطانہ جعفری نے کھٹائی اور مرچیں کھانے کے کیسے کیسے ریکارڈ بنائے ہیں۔

    آپا نے مجھے ریڈ فلیگ ہال کے زمانے کے بہت سے گفتنی اور نا گفتنی قصے سنائے تھے جن میں سے کچھ اب تک یاد ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی بمبئی آئے ہوے تھے۔ انہوں نے رات کو مشاعرہ پڑھا اور صبح اچانک غائب ہوگئے۔ چاہنے والے تو چاہنے والے، نہ چاہنے والوں میں بھی کھلبلی مچ گئی کہ جگر صاحب کہا ں چلے گئے۔ جہاں جہاں جانے کے امکانات تھے وہاں وہاں فون کیے گئے، جان پہچان والوں سے پوچھ تاچھ کی گئی مگر جگر صاحب کا کوئی پتا نہیں چلا۔ مجروح صاحب خاص طور پریشان تھے، کیونکہ ایک تو یہ کہ وہ جگر کو اپنا استاد سمجھتے تھے، دوسرے یہ کہ شرابی آدمی ہے، خدا نخواستہ کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو۔ شام کو جب ہانپتے کانپتے مجروح سلطانپوری سردار جعفری کو جگر صاحب کی گمشدگی کی منحوس خبر سنانے کے لیے ریڈفلیگ ہال پہنچے تو دیکھا کہ کمرے میں محفل جمی ہوئی ہے۔ جگر صاحب، سلطانہ جعفری، سردار جعفری اور ایک سی آئی ڈی انسپکٹر یوسف خاں صاحب رمی کھیل رہے ہیں۔ پورا کمرہ دھویں سے بھرا ہوا ہے اور چٹائی پر سکّوں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مجروح اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئے اور انھوں نے جگر صاحب سے کہا، ’’قبلہ، آپ کو معلوم ہے کہ سارا شہر آپ کے لیے کس قدر پریشان ہے!‘‘ جگر صاحب نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’’میاں مجروح، آپ ذرا میری پریشانی دیکھیے، ایک پتے کے لیے ہاتھ روکے بیٹھا ہوں۔‘‘

    آپا نے بتایا کہ جگر صاحب کے ریڈ فلیگ ہال میں آنے کی اصلی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ رمی کے بہت شوقین تھے اور جب بھی آتے تو وقت نکال کر آپا سے دو دو ہاتھ ضرور کرتے، بلکہ اصلی وجہ یہ تھی کہ کوئی فلم اسٹار (شاید دلیپ کمار) جگر صاحب کی مالی مدد کرنا چاہتا تھا اور جگر صاحب اسے منع بھی نہیں کر سکتے تھے، اس لیے چپکے سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

    آپا کارمی کا شوق تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ دیوالی سے کئی دن پہلے کیفی صاحب کے گھر پر پتے بازی شروع ہو جاتی ہے۔ (یہ روایت اب بھی قائم ہے۔) سلطانہ آپا جب تک زندہ رہیں، ہمیشہ ان محفلوں میں شریک ہوتی رہیں۔ لیکن ان کی اصلی رمی پارٹنر عصمت آپا تھیں اور جب بھی موقع ملتا تھا، عصمت آپا پتے نکال کر شروع ہو جاتی تھیں، اور جب جیتتی تھیں تو سارے پیسے بچوں میں بانٹ دیا کرتی تھیں۔ دردانہ کا کہنا ہے کہ جب بھی اماں اور عصمت خالہ رمی کھیلنے بیٹھتی تھیں تو بچے کچھ دور بیٹھ کر زور و شور سے دعائیں مانگا کرتے تھے کہ اللہ عصمت خالہ کو جتا دے اور ہمیں کے رستم کی آئس کریم ملے۔

    دو گواہوں، عصمت چغتائی اور لاجپت رائے کا کہنا ہے کہ سلطانہ آپا زندگی میں جتنی ایماندار تھیں، تاش کھیلتے وقت اتنی ہی بے ایمانی کرتی تھیں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ان پر نظر رکھنے کے لیے کسی بچے کو بٹھایا جاتا تھا تاکہ وہ پتوں کی ہیرا پھیری نہ کر سکیں یا پوائنٹس کم کرکے نہ بتائیں۔

    ریڈ فلیگ ہال کے زمانے کی بات ہے کہ ایک دن سردار جعفری کی بہن رباب جعفری نے آپا کے کان میں کہا، ’’آج موتی کے یہاں کھانا نہیں پکا ہے۔ شاید پیسے نہیں ہیں۔‘‘

    کمرے آمنے سامنے تھے، آپا نے جھانک کے دیکھا تو ربو کی بات کی تصدیق ہوگئی۔ اسٹوو خاموش تھا، اس کے اوپر کوئی برتن بھی نہیں تھااور شوکت آپا (موتی) دیوار سے پیٹھ لگائے کچھ سی رہی تھیں۔

    آپا نے جعفری صاحب کو بتایا اور بیس روپے دے کر کہا کہ کسی صورت سے موتی کو دے دیں۔ مگر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

    ’’کیفی اور شوکت کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اور کیفی تو ایسے ہیں کہ برامان گئے تو ہفتوں بات بھی نہیں کریں گے۔۔۔۔‘‘

    ’’اے تو کیا وہ لوگ ایسے ہی بیٹھے رہیں گے؟‘‘ آپا پریشان ہو گئیں۔

    بہت غور کرنے کے بعد ایک ترکیب نکالی گئی۔

    جعفری صاحب خیریت دریافت کرنے کے لیے کیفی صاحب کے کمرے میں گئے، کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور بیس روپے ایک کتاب کے نیچے رکھ کے چلے آئے اور اطمینان کا سانس لیا کہ اتنا بڑا مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہو گیا۔ مگر کوئی دو گھنٹے بعد شوکت کیفی آپا کے روم میں دندناتی ہوئی داخل ہوئیں، بیس روپے ان کی انگلیوں میں لہرا رہے تھے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا، ’’سردار بھائی، یہ پیسے آپ رکھ کے آئے تھے نا؟‘‘

    ’’پیسے، کون سے پیسے؟‘‘ سردار جعفری نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔

    ’’یہ بیس روپے۔‘‘

    ’’نہیں موتی، یہ روپے میرے نہیں ہیں۔‘‘ سردار جعفری نے بے حد ایمانداری کے ساتھ کہا۔

    ’’تو سلطانہ نے رکھے ہوں گے۔‘‘

    ’’میں تو تمہارے روم میں گئی ہی نہیں۔‘‘

    شوکت آپا پریشان ہو گئیں۔ انھوں نے نوٹوں کو دیکھا، سلطانہ اور سردار جعفری کے چہروں کو دیکھا، اور پھر جیسے خود سے پوچھا، ’’آپ لوگوں نے نہیں رکھے تو پھر یہ آئے کہاں سے؟‘‘

    ’’تم یا کیفی رکھ کے بھول گئے ہوگے۔‘‘ سلطانہ آپا نے بڑے پیار سے سمجھایا، ’’فالتو ہوں تو مجھے دے دو۔‘‘

    شوکت آپا بہت دیر تک کچھ سوچتی رہیں، پھر چپ چاپ واپس چلی گئیں۔ اور تھوڑی دیر بعد جب کیفی صاحب کے کمرے سے اسٹوو کی آواز سنائی دی تو سردار جعفری لکھنا چھوڑ کے بہت دیر تک اسے سنتے رہے، پھر بولے، ’’سلطانہ، آج تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔‘‘ مگر سلطانہ آپا خوش نہیں ہوئیں، اور دھیرے سے بولیں، ’’اس بات کا افسوس ہے کہ میرے پاس بیس ہی روپے تھے۔‘‘

    ایک دن میں دھک سے رہ گیا۔

    پتا چلا کہ آپا فریدہ کے گھر پہنچ گئی تھیں اور بہت دیر تک بیٹھی بھی رہی تھیں۔

    حالانکہ تب تک بہت سے انقلاب آچکے تھے۔ میں اپنا شام نامہ اردو رپورٹر نکالنے لگا تھا جو گھٹنوں چلنے کی کوشش کر رہا تھا، سرکار نے دو کمروں کا ایک گھر بھی دے دیا تھا اور فریدہ کے گھر والے بھی تقریباً راضی ہو گئے تھے، سوائے ان کے بھائیوں کے، اور فریدہ کے پارسی رشتے داروں کی طرف سے کوشش اس بات کی ہو رہی تھی کہ سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، یعنی کوئی ہنگامہ بھی نہ ہو اور بیٹی رخصت بھی ہو جائے۔

    بظاہر سب ٹھیک تھا مگر سلطانہ جعفری کا خلافت ہائوس میں (جہاں فریدہ کی فیملی رہتی تھی) ورود اور ان کے اہلِ خاندان سے ملاقات مجھے اس لیے خوفزدہ کر رہے تھے کہ آپا نہایت منہ پھٹ واقع ہوئی تھیں۔ پولٹیکل سائنس میں ڈگری لینے کے باوجود سیاست، ڈپلومیسی اور موقع شناسی کی سخت دشمن تھیں۔ میں ڈر رہا تھا کہ خدا جانے کیا بول بیٹھی ہوں اور میری محبت کی کہانی ایک المیے پر ختم ہو جائے۔

    میں ان کے آفس پہنچا تو وہ کچھ زیادہ ہی خوش دکھائی دیں۔ مسکراہٹ چہرے کی حدوں سے باہر تک پھیلی ہوئی تھی اور آنکھوں میں ایک شریر سی چمک تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولیں، ’’بھئی تمہاری ساس کو تو میں جانتی ہوں۔ میرے ساتھ Adult Educationپروگرام میں کام کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے دھان ساگ بنا کے کھلایا۔ مزہ آگیا۔‘‘

    ’’آپا، وہاں کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں ہوئی؟‘‘

    ’’ایسی ویسی بہت سی باتیں ہوئیں۔۔۔ تمہارے خلافت ہائوس میں چوہے کتنے ہیں، ایک تو میرے پیروں کے اوپر سے گزر گیا۔ یہ تمہارے چچازاہد شوکت علی صاحب چوہے بھی نہیں مار سکتے کیا؟‘‘

    ’’آپ نے یہ تو نہیں بتایا کہ فریدہ میرے ساتھ یہاں آیا کرتی ہیں؟‘‘

    ’’فریدہ گھر میں نہیں تھی۔ اس کی چھوٹی بہن تھی۔ وہ بھی بہت پیاری ہے۔‘‘

    ’’میرے بارے میں کیا بات ہوئی؟‘‘

    ’’مرے کیوں جارہے ہو؟ میں نے تمھارا نام بھی نہیں لیا۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں تم جیسے فالتو آدمی کو جانتی ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر آپ وہاں گئیں کیوں تھیں؟‘‘

    ’’دیکھنے گئی تھی کہ جو لوگ لاٹھیوں سے تمھاری پٹائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں، ان کے پاس لاٹھیاں ہیں بھی یا نہیں؟‘‘

    ’’مذاق مت کیجیے آپا۔۔۔‘‘

    آپا سنجیدہ ہوگئیں، ’’جاوید، اب تم اپنی شادی کا اعلان کردو اور ایک اچھا ساریسپشن دو۔ میں شہاب الدین دسنوی سے کہہ دوں گی، وہ صابو صدیق کا ہال دے دے گا۔ سردار کا دوست ہے، پیسے بھی نہیں لے گا۔‘‘

    ’’مگر اتنی جلدی؟‘‘

    ’’دس فروری بہت اچھی تاریخ ہے، برتولت بریخت کی سالگرہ کا دن ہے۔‘‘

    ’’برتولت بریخت سے میرا کیا تعلق؟‘‘

    ’’بریخت کا تعلق ہر ترقی پسند سے ہے۔ تو میں دسنوی کو فون کروں؟‘‘

    ’’فروری تک کیسے ممکن ہے آپا؟‘‘

    فروری دو مہینے دور ہے، اور اتنے دن میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر اور بھی تو ضرورتیں ہیں۔‘‘

    ’’کیا ضرورتیں۔۔۔؟ تم نے کیا انتظام کیا ہے؟ مجھے بتائو۔‘‘

    ’’تھوڑا بہت کیا ہے، مگر پھر بھی کم ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، تم کل آنا اور بتانا کہ کیا کمی ہے۔ پھر بات کریں گے۔‘‘

    میں رات بھر سو نہیں سکا۔ آپا کی محبت سر آنکھوں پر مگر انہوں نے تو الٹی میٹم دے دیا، اور وہ بھی ایسا کہ نہ ہاں کہہ سکتا ہوں نہ نہ۔

    دوسرے دن پہنچا تو آپا میٹنگ میں تھیں۔ ماسکو سے کچھ روسی آئے ہوئے تھے۔ بند کمرے میں بحث چھڑی ہوئی تھی اور میں باہر ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھا پریشان ہو رہا تھا۔

    چار بجے کے قریب آپا باہر آئیں۔ رات بھر جاگنے اور پانچ گھنٹے انتظار کرنے کی کہانی میرے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

    آپا نے معذرت کی اور وہ فہرست دیکھی جو میں نے بنائی تھی۔ بولیں، ’’سارا بندوبست تو ہے، اور کیا چاہیے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’میری طرف سے دو چار جوڑے اور کچھ زیور بھی تو ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’زیور کس لیے؟ مارکسسٹ بیویاں زیور نہیں پہنتیں۔‘‘

    میں جھنجھلا گیا۔ میں نے آواز ذراسی اونچی کر کے کہا، ’’فریدہ مارکسسٹ نہیں ہیں اور نہ ان کے گھر والے۔۔۔‘‘

    آپا نے ایک کھنکتا ہوا قہقہہ لگایا اور بولیں، ’’پھولوں کے زیور پہنائو، پھولوں کے۔۔۔‘‘

    پھول آپاکی کمزوری تھے، خاص طور سے موگرہ۔ جب بھی موگرے کی لڑیاں مل جاتیں، ان کے کنگن بنا کے پہنتیں، بالوں میں لگاتیں اور بہت سی کلیاں چاندی کی بالیوں میں پروکر کانوں میں لٹکا لیتیں۔ ان کی بالیاں کیا تھیں، چاندی کا پتلا سا تار تھا جسے گول کر کے کان میں ڈال لیا کرتی تھیں، اور جب پھول مل جاتے تو اسی چاندی کے تار کو موگرے سے بھر دیتیں۔

    1995کی بات ہے۔ آپا علی گڑھ میں تھیں۔ میریس روڈ پر موگرا دکھائی دیا تو سائیکل رکشا سے نیچے اتر گئیں۔ پلّو بھر کے کلیاں خریدیں اور رکشا میں بیٹھ کر موگرے کی بالیاں بنانے لگیں۔ جھٹکا لگا تو کچھ پھول رکشا کے پائیدان میں گر پڑے۔ آپا اٹھانے کے لیے جھکیں تو دوسرا جھٹکا لگا اور آپا سڑک پر اس طرح گریں کہ ہاتھ کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ گئی، مگر موگرے کے پھول ہاتھوں سے نہیں چھوٹے۔

    آپا کے چاہنے والے جب بھی ان سے ملنے جاتے، اگر موسم ہوتا تو موگرے کے پھول ضرور لے جاتے۔ اور آپ انھیں اپنی مشہورِ زمانہ چائے پلاتیں۔ دردانہ نے بتایا کہ علی رضا جب بھی جاتے تھے، موگرے کی کم سے کم پانچ وینیاں لے کر جاتے، اور پوچھنے پر بڑے پیار سے کہتے، ’’بھئی، یہ وینی نہیں ہے، یہ تو سلطانہ کی رشوت ہے۔ اب وہ ہمیں لاپ چو (Lopchu) پلائیں گی۔‘‘

    یہ پھولوں والی بات تو یوں ہی بر سبیلِ تذکرہ آگئی، اصل مسئلہ یہ تھا کہ آپا میری شادی کرانے پہ تلی ہوئی تھیں اور میری حالت وہی تھی جو ایک اناڑی ایکٹر کی ہوتی ہے، وہ اسٹیج پہ آتو جاتا ہے مگر ہاتھ پائوں کانپتے ہوتے ہیں، زبان سوکھ جاتی ہے، ڈائیلاگ یاد نہیں رہتے اور اس کی سمجھ میں نہیں آتاکہ وہ اسٹیج پر کھڑا رہے یا بھاگ جائے۔ میں بھی راتوں کو جاگ کر یہی سوچ رہا تھا کہ کس جنجال میں پھنس گیا ہوں۔ لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں تو خوشیاں ہوتی ہیں، ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں یہ عالم ہے کہ آغاز سے پہلے انجام کا ڈر سونے نہیں دیتا۔

    میں کئی دن تک نہیں گیا تو آپا کا فون آیا، ’’کیا ہوا، کیا بیمار ہو؟‘‘

    ’’جی نہیں، ذرا مصروف تھا۔‘‘

    ’’میں نے دسنوی کو فون کر دیا ہے۔ دس فروری کو چھوٹا والا ہال مل جائے گا۔‘‘

    میرے ہاتھ پائوں سچ مچ ٹھنڈے ہوگئے۔ سوچنا چاہتا تھا مگر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا سوچوں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کامریڈ حمید مل گئے۔ بہت دبلے پتلے آدمی تھے۔ پیر خان اسٹریٹ میں ٹیلرنگ کی دکان تھی۔ نہایت متقی مارکسسٹ تھے، یعنی نماز پابندی سے پڑھتے تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے ایک بل کھایا (باتیں کرتے کرتے بل کھانا ان کی عادت تھی) اور مسکرا کے پوچھا، ’’تم شادی کر رہے ہو؟‘‘

    ’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘

    ’’سلطانہ آپا ملی تھیں، وہی بتا رہی تھیں۔‘‘

    میرا دل چاہا کہ میں اپنا سر پیٹ لوں اور کامریڈ حمید کو دھکا دے کے بھاگ جائوں، مگر ان کے اگلے جملے نے روک لیا، ’’کپڑا لا دینا، سوٹ ہم سی دیں گے۔ ہماری طرف سے تحفہ۔‘‘ میں نے ایک پل کو آنکھیں بند کیں اور تصور کیا کہ جب ان پچاس کلوہڈیوں پر ایک سوٹ ہوگا، پتلی سی گردن میں شمس الحق شمس کی طرح ایک ٹائی ہوگی، سر پہ بڑے بڑے بال ہوں گے اور ایک بڑی سی ناک پہ موٹا سا چشمہ ہوگا، تو میں کیسا نظر آئوں گا۔ میرے تصور کی پرواز کو داد دیجیے کہ میں اپنی شادی کے البم میں بالکل ویسا ہی نظر آتا ہوں جیسا سوچا تھا۔ جو بھی ہماری شادی کی تصویریں دیکھتا ہے، بڑی حیرت سے فریدہ کو ضرور دیکھتا ہے۔ کئی ہمدردوں نے تو دبی زبان میں ان سے پوچھ بھی لیا، ’’بی بی، جب تم نے اس شادی کو ہاں کہی تو کیا تم اپنے پورے ہوش و حواس میں تھیں؟‘‘

    بات کا مریڈ حمید پر ختم ہو جاتی تو بھی غنیمت تھا۔ دو تین دن کے اندر اندر یہ خبر اخباری ضمیمے کی طرح پھیل گئی کہ میری شادی ہو رہی ہے، ہال بک ہو چکا ہے، کامریڈ حمید سوٹ سی رہے ہیں، جبار بھائی نے چار گز امپورٹیڈ کپڑا لا کے دیا ہے جو صابو صدیق مسافر خانے کے باہر دکانیں لگانے والے اسمگلروں سے خریدا گیا ہے۔

    ہندوستان کے ایڈیٹر غلام احمد خاں آرزو نے اس وقت پکڑ لیا جب میں ان کے دفتر کے نیچے ایک دکان سے سگریٹ خرید رہا تھا، ’’مبارک ہو، سنا ہے تم شادی کر رہے ہو؟‘‘

    ’’جی!‘‘ میں نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔

    ’’بہت اچھی بات ہے، سب کو شادی کرنی چاہیے۔ مگر کورٹ میرج ہے یا نکاح مسنونہ؟‘‘

    ’’آپ کو معلوم کیسے ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’راہی نے بتایا۔‘‘

    میں فوراً سمجھ گیا کہ محمود راہی کو کس نے بتایا ہوگا۔ راہی ہر ہفتے مضامین کا ترجمہ کرنے کے لیے آپا کے پاس جایا کرتا تھا۔ مطلب یہ کہ محترمہ سلطانہ جعفری، جنہیں سوویت انفارمیشن آفس میں بیٹھ کر روس کی ترقی اور کامیابی کی خبریں پھیلانا چاہیے تھا، ان دنوں جاوید صدیقی کی شادی خانہ آبادی کی خبروں میں زیادہ دلچسپی لے رہی تھیں۔

    میں بڑے خراب موڈ میں آپا کے پاس پہنچا۔ وہ خواجہ احمد عباس سے باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی عباس صاحب سے بولیں، ’’تم انھیں جانتے ہونا عباس؟ یہ اپنے جاوید صدیقی ہیں۔ دس فروری کو ان کی شادی ہے۔‘‘ میں تو پہلے ہی سے جلا بھنا تھا، بھڑک کر بولا، ’’شادی کیسے ہوگی آپا، ابھی تک ایک انگوٹھی تک کا تو بندوبست نہیں ہوا ہے۔‘‘

    ’’ہے ہے، ابھی تک نہیں ہوا؟‘‘

    میں سر جھکا کے بیٹھ گیا۔ آپا کچھ سوچتی رہیں، پھر بولیں، ’’تم ایک کام کرو، نیچے میرا بینک ہے اور یہ میرا اکائونٹ نمبر ہے۔ جاکے معلوم کرو، اکائونٹ میں پیسے کتنے ہیں؟‘‘

    میں خود کو گالیاں دیتا ہوا ملبار ہل سے نیچے اترا۔ آپا کے بینک سے ان کا بیلنس معلوم کیا تو دل بیٹھ گیا۔ ان کے اکائونٹ میں صرف 800روپے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ آپا معافی مانگ لیں گی اور میری حالت اس مچھلی جیسی ہوگی جو کانٹا نگل لیتی ہے اور تڑپنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ میں پسینے اور تھکن سے نڈھال ان کے آفس پہنچا اور تھکے ہوے لہجے میں بولا، ’’آپ کے اکائونٹ میں تو پیسے ہی نہیں ہیں، بس 800روپے پڑے ہوے ہیں۔‘‘ ان کے ماتھے پہ نہ کوئی بل آیا نہ آنکھوں میں شرمندگی کی جھلک دکھائی دی۔

    ’’تو اور کتنا ہوگا، تمہاری قسمت اچھی ہے کہ اتنے بھی بچ گئے۔‘‘ انہوں نے اپنی چیک بک نکالی اور چیک لکھنے لگیں، ’’سات سو تم لے جائو، سوروپے چھوڑنا ضروری ہے ورنہ کھاتہ بند ہو جائے گا۔‘‘

    سستے کا زمانہ تھا۔ ساڑھے چار سو روپے تولہ سونا تھا۔ آپا کے پیسوں کی مدد سے ایک سیٹ خریدا گیا جو فریدہ کے پاس آج تک ہے اور وہ کسی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی ہیں۔ کچھ اس لیے کہ وہ ان کی شادی کا چڑھاوا ہے اور کچھ اس لیے کہ اس کے ساتھ آپا کی یاد جڑی ہوئی ہے۔ نہ سونا بوڑھا ہوا ہے اور نہ سلطانہ آپا کی یاد۔

    ہماری شادی کے ریسپشن میں آپا شریک نہیں ہو سکی تھیں۔ وہ جعفری صاحب کے ساتھ کہیں باہر گئی ہوئی تھیں۔ مگر انہوں نے کسی کے ہاتھ ایک لفافہ بھیجا تھا جس میں 51روپے تھے اور ایک کاغذ پر سردار جعفری کے دو شعر لکھے ہوئے تھے۔ وہ پرچہ تو کہیں کھو گیا، وہ شعر بھی اب یاد نہیں۔ جعفری صاحب کے اشعار ویسے بھی ذرا کم ہی یاد رہتے ہیں۔ اس بات پر سلطانہ آپا سے کئی بار بحث ہوئی کہ سردار جعفری شاعر اچھے ہیں، نقاد اچھے ہیں، ادیب اچھے ہیں، یا لیڈر بہت اچھے ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپا کی رائے کیا رہی ہوگی۔ سردار جعفری کا ہر لفظ، چاہے وہ کاغذ پر ہو یا زبان پر، انہیں تو اوپر سے اترا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے انھیں چھیڑنے کی نیت سے کہا، ’’سردار جعفری کی شاعری بڑی روکھی پھیکی شاعری ہوتی ہے۔ پڑھ کر کچھ مزہ ہی نہیں آتا۔‘‘ اس دن آپا سچ مچ برامان گئیں، ’’تم لوگوں کی سنی سنائی باتیں مت دہرایا کرو۔ جو لوگ سردار کی شاعری کو پھیکا اور بے مزہ کہتے ہیں وہ شاعری نہیں کرتے، برف کے گولے بیچتے ہیں، جو رنگین بھی ہوتے ہیں اور ٹھنڈے میٹھے بھی، مگر کتنی دیر کے لیے؟۔۔۔ میرے خیال میں ’ہاتھوں کا ترانہ‘ اردو کی بے مثال نظموں میں سے ایک ہے۔

    ان ہاتھوں کی تعظیم کرو

    ان ہاتھوں کی تکریم کرو

    دنیا کو چلانے والے ہیں

    ان ہاتھوں کو تسلیم کرو

    کیا تم اس نظم کی اہمیت اور موضوع کی سچائی سے انکار کر سکتے ہو؟‘‘

    میں اگر انکار کرنا بھی چاہتا تو نہیں کرتا، کیونکہ آپا کا دل دکھانے سے بڑا گناہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ شاعری پر بات نکلی ہے تو عرض کروں کہ سردار جعفری نے لکھا ہے، ’ہر عاشق ہے سردار یہاں ہر معشوقہ سلطانہ ہے۔‘مگر آپا کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ سلطانہ معشوقہ نہیں تھیں، وہ عاشق تھیں۔ انھوں نے اپنے سردار کو جس طرح پیار کیا اس کی کوئی مثال مجھے تو نہیں دکھائی دیتی۔ جب سلطانہ آپا اور سردار جعفری کی شادی ہوئی تو ہر اچھے شوہر کی طرح جعفری صاحب کو بھی لگا کہ انہیں کام کرنا چاہیے، اور وہ نوکری حاصل کرنے کے لیے جگہ جگہ درخواستیں بھیجنے لگے۔ آپا کو معلوم ہوا تو انھوں نے وہ ساری درخواستیں پھاڑ کر پھینک دیں اور کہا، ’’تم بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے نوکری نہیں کروگے۔ تمہارا کام ادب کی تخلیق ہے، تم وہی کرو۔ گھر کیسے چلے گا، کہاں سے چلے گا، کون چلائے گا، آج سے یہ ذمے داری میری۔‘‘

    آپا ستر سال کی عمر تک کام کرتی رہیں۔ انہوں نے جو وعدہ کیا تھا، آخر تک نبھایا۔ آمدنی کم تھی، گھر چھوٹا تھا اور رہنے والے زیادہ۔ دو بچے، پپو اور چنم، سردار جعفری کی دو بہنیں، رباب اور ستارہ، خود سردار جعفری اور آپا۔ مہمانوں اور آنے جانے والوں کا سلسلہ بھی لگا ہی رہتا تھا۔ مگر ان کے چہرے کی مسکراہٹ کبھی مدھم نہیں ہوئی۔

    ایسا نہیں ہے کہ سردار جعفری نے واقعی کوئی کام نہ کیا ہو۔ انھوں نے فلم بنائی، سیریل بھی بنائے، رسالے بھی نکالے، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ وہ تین کتابیں ہیں جو ان کی انتھک محنت اور برسوں کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ یہ کتابیں ہیں دیوان میر، دیوان غالب اور کبیر بانی، جو اس طرح شائع کی گئی ہیں کہ اردو کا ہر لفظ سامنے والے صفحے پر ہندی میں بھی موجود ہے۔ جعفری صاحب کا ارادہ تھا کہ اردو کا تمام ادب اور مشہور شاعروں کے دیوان اسی طرح شائع کیے جائیں تاکہ ہندی اور اردو والے دونوں ایک ہی وقت میں مزہ لے سکیں۔ یہ تینوں کتابیں اب تقریباً نایاب ہیں، خاص طور سے دیوان غالب۔ ایک دن میں نے آپا سے کہا، ’’کہیں سے بھی کرکے دیوان غالب کی ایک جلد لا کردیجیے۔‘‘ کہنے لگیں، ’’سردار والادیوان غالب تو میرے پاس بھی نہیں ہے مگر میرا اپنا جو ہے وہ میں تم کو دے دوں گی۔‘‘

    ’’کب دیں گی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ آپا بہت پیار سے مسکرائیں اور بولیں، ’’جب وقت آئے گا۔‘‘

    میں تو یہ بات بھول بھی چکا تھا مگر آپا کو یاد تھی۔ ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے مجھے ایک پیکٹ ملا۔ کھولا تو اس میں آپا کا ذاتی نسخہ رکھا ہوا تھا جس پر لکھا تھا:

    ’’جاوید صدیقی، یہ دیوان غالب ہے۔ نہ صرف تمھارے لیے ہے بلکہ فریدہ کے لیے بھی ہے۔ اور ہاں تمہاری اولاد کے لیے۔ اور تمہاری اولاد کی اولاد کے لیے، تمام پیار اور خلوص کے ساتھ۔۔۔ سلطانہ۔۔۔‘‘

    1-8-2003

    آپا نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔

    آپا بہت بہادر تھیں، وہ نہ زندگی سے ہاریں نہ انسانوں سے۔ بس ایک دفعہ میں نے آپا کی آنکھوں میں نمی دیکھی تھی۔ یہ مارچ 2000کی بات ہے۔ میں ان سے ملنے گیا اور میں نے کہا، ’’میں اپٹا کے لیے ایک ڈاکیومنٹری بنا رہا ہوں جس کے لیے جعفری صاحب کا انٹرویو بہت ضروری ہے۔ کیونکہ وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن(IPTA) کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔‘‘ آپا کہنے لگیں، ’’سردار کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پتا نہیں کیا ہوگیا ہے، بھولنے بہت لگے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بولتے وقت کوئی لفظ بھول جاتے ہیں اور پھر پریشان ہو کر بولنا ہی بند کر دیتے ہیں۔۔۔‘‘ کہتے کہتے انھوں نے اپنا چہرہ گھما لیا، مگر میں ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں پانی کی لکیر دیکھ چکا تھا۔

    جعفری صاحب کی بیماری بڑھتی گئی، یہاں تک کہ وہ کوما میں چلے گئے۔ میں انہیں دیکھنے کے لیے بامبے ہاسپٹل پہنچا۔ وہ شخص جس کی زبان و بیان کی دھاک ساری اردو دنیا پر بیٹھی ہوئی تھی، بے حس و حرکت، خاموش لیٹا ہوا تھا۔ ان کے برابر ایک کرسی پر آپا بیٹھی ہوئی انہیں دیکھے جا رہی تھیں۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی، آپا نے مجھے دیکھا اور دھیرے سے سر ہلا دیا۔

    میں بہت دیر تک کمرے کے سناٹے کو سنتا رہا، پھر اشارے سے سلام کیا اور باہر نکل گیا۔ آپا بھی باہر آگئیں۔

    ’’بس یہی حالت ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کبھی بھی ہوش آسکتا ہے، پتا نہیں۔۔۔‘‘

    میں کیا کہتا، کہنے کو تھا بھی کیا۔ مجھے لفظی ہمدردی ہمیشہ سے بے معنی معلوم ہوتی ہے۔ پھر بھی میں نے پوچھا، ’’آپا، کسی چیز کی ضرورت ہو تو۔۔۔‘‘ آپا بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھیں، شاید کئی دن سے سوئی نہیں تھیں۔ وہ بہت دیر تک کچھ سوچتی رہیں، پھر بولیں، ’’سردار نے دیوان میر کا نیا ایڈیشن چھپوایا ہے۔ پبلشر نے اسے بیچنے کا کوئی انتظام ابھی تک نہیں کیا ہے۔ سیکڑوں جلدیں گھر میں آکے پڑی ہوئی ہیں۔ اگر تم کچھ نکلوا سکو تو۔۔۔‘‘ وہ چپ ہوگئیں۔

    میں سمجھ گیا کہ آپا مالی طور پر بہت پریشان ہیں۔ اس اسپتال کا خرچہ ہی نہ جانے کتنا ہوگا۔ اور آپا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں دیوان میر کی کاپیاں اٹھالوں گا اور جتنی جلدی ہو سکے گا، بیچنے کی کوشش کروں گا۔ آپا نے پھر سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہوں، ’’شکریہ۔۔۔‘‘ جانے کے لیے پلٹا تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی، ’’جاوید۔۔۔‘ میں رک گیا۔ ’’جی آپا؟‘‘ انھوں نے پوچھا، ’’تم دعا مانگتے ہو؟‘‘ اور میرا جواب سننے سے پہلے دھیرے سے بولیں، ’’سردار کے لیے دعا کرنا۔‘‘ کہتے کہتے مڑیں اور کمرے کے اندر چلی گئیں۔ مگر کسی دوا، کسی دعا سے کچھ نہیں ہوا۔ سردار جعفری جس خاموش ویرانے میں چلے گئے تھے، یکم اگست 2000کو اسی میں کہیں کھو گئے۔

    انہیں سیتا محل لایا گیا اور آخری سفر کی تیاری شروع ہوئی۔ سردار جعفری تو خیر کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے مگر بلرامپور کے ایک معزز شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے ایک شیعہ قبرستان رحمت آباد میں تدفین کا بندوبست کیا گیا۔ اور تب اچانک سلطانہ آپا کی آواز سنائی دی، ’’سردار کو سانتا کروز قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔‘‘ وہ شیعہ مولانا جو انتظامات میں پیش پیش تھے، اچھل پڑے، ’’سانتا کروز قبرستان؟۔۔۔ مگر وہ تو سنیوں کا ہے۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟ سردار کے سارے دوست وہیں ہیں۔ زندگی بھر جن کا ساتھ رہا، موت کے بعد انہیں الگ کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘

    اور وہی ہوا۔ تمام اعتراضات اور مخالفت کے باوجود سردار جعفری کو سانتا کروز کے سنی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

    اس وقت یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر آج جب سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ آپا سردار جعفری کی موت کے بارے میں نہیں، ان کی ابدی تنہائی کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ اگر جعفری صاحب شیعہ ہونے کے ناطے رحمت آباد چلے جاتے اور آپا سنی ہونے کی وجہ سے سانتا کروز پہنچتیں تو دونوں کے درمیان ایک ایسی دوری بن جاتی جو کبھی ختم نہ ہوتی۔ اور وہ سردار اور سلطانہ جو چار دن بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں رہے، ہمیشہ ہمیشہ الگ رہیں، یہ کیسے ممکن تھا!

    جعفری صاحب کی موت کے بعد میں آپا سے کئی دفعہ ملا، مگر ہمیشہ یہی احساس ہوا کہ ان کے اندر کچھ بجھ گیا ہے۔ آنکھوں کی وہ چمک جو شمعیں روشن کردیا کرتی تھیں، دھواں بن چکی ہے۔ چہرے سے پھوٹنے والی مسکراہٹ غائب ہو چکی ہے۔ بال روکھے اور بے جان ہو چکے تھے، اور وزن جو پہلے ہی سے کم تھا اور بھی کم ہو گیا تھا۔ سفید ساڑی میں لپٹا ہوا ان کا سراپا اپنی کشش کھوچکا تھا۔ وہ اپنی ہی کوئی پرانی دھندلی سی تصویر معلوم ہوتی تھیں۔

    اپنے سردار سے الگ ہو کر وہ چار سال بھی نہیں رہ سکیں اور16جولائی 2004 کو وہیں پہنچ گئیں جہاں سردار جعفری اپنے دوستوں ساحر، مجروح، جاں نثار اختر، اختر الایمان، خواجہ احمد عباس اور راہی معصوم رضا وغیرہ کے ہجوم میں گھرے بیٹھے تھے۔ انہوں نے جیسے ہی سلطانہ کو دیکھا، کہا، ’’لیجیے حضرات، وہ بھی آگئیں جن کے بغیر یہ محفل یاراں ادھوری تھی۔ آئو بھئی سلطانہ۔۔۔!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے