Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مولوی نذیر احمد دہلوی

شاہد احمد دہلوی

مولوی نذیر احمد دہلوی

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    میں نے مولوی نذیر احمد صاحب کو پانچ برس کی عمر میں آخری بار دیکھا۔ اس سے پہلے دیکھا تو ضرور ہوگا مگر مجھے بالکل یاد نہیں۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم تین بھائی ابّا کے ساتھ حیدرآباد دکن سے دلّی آئے تھے تو کھاری باؤلی کے مکان میں گئے تھے۔ ڈیوڑھی کے آگے صحن میں سے گزر کر پیش دالان میں گئے، یہاں دو تین آدمی بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ پچھلے دالان کے دروں میں کیواڑوں کی جوڑیاں چڑھی ہوئی تھیں جن کے اوپر رنگ برنگ شیشوں کے بستے بنے ہوئے تھے۔ یہ تین دروازے تھے جن میں سے دو کھلے ہوئے تھے اور ایک دائیں جانب کا بند تھا۔ اس کمرے نما دالان میں ہم ابّا کے ساتھ داخل ہوئے تو سامنے ایک پلنگ پر ایک بڑے میاں دکھائی دیے۔ ان کی سفید داڑھی اور کنٹوپ صرف یاد ہے۔ ابّا جلدی سے آگے بڑھ کر ان سے لپٹ کر رونےلگے اور ہم حیران کھڑے رہے۔ جب ان کے دل کی بھڑاس نکل گئی تو ہمیں حکم ہوا کہ دادا ابّا کو سلام کرو۔ ہم نے سلام کیا، انہوں نے پیار کیا۔ ایک ایک اشرفی سب کو دی اور ہم کمرے کے اندھیرے سے گھبراکر باہر نکل آئے اور کھیل کود میں لگ گئے، اس کے بعد انہیں پھر دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

    سرسالار جنگ نے جب انہیں حیدرآباد بلایا تو انہوں نے یہ کہہ کر آنے سے انکار کردیا کہ میں اسٹرانگ گورنمنٹ کو چھوڑ کر دیک گورنمنٹ میں نہیں آتا۔ جب انہوں نے اصرار کیا تو تنخواہ اتنی زیادہ طلب کی کہ وہ کسی قاعدے سے اتنی رقم نہیں دے سکتے تھے۔ اس دشواری کو یوں حل کیا گیا کہ مولوی صاحب کے ساتھ ان کے دو دامادوں کو بھی اچھی تنخواہوں پر رکھ لیا گیا۔

    مولوی نذیر احمد کو زمانہ سازی بالکل نہیں آتی تھی۔سچی بات کہنے میں انہیں باک نہ ہوتا تھا۔ حیدرآباد دکن میں بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہوئے مگر خوش کسی کو نہ کرسکے۔ اسی وجہ سے زیادہ عرصے تک وہاں نہ رہ سکے اور پنشن لے کر دلّی چلے آئے۔ ان کے لیے ‘‘غیور جنگ’’ کا خطاب تجویز ہوا تھا۔ مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔

    نواب افتخار علی خاں والیٔ ریاست جادرہ کے بھائی نواب سرفراز علی خاں مرحوم بہت بیمار تھے۔ ان کے لیے طبیبوں کی کیا کمی تھی؟ دُنیا بھر کے علاج کرائے مگر شفا نہ ہوئی۔ ایک دن انہوں نے مولوی نذیر احمد کو خواب میں دیکھا کہ ان سے کہہ رہیں ہیں ‘‘ہمارے قرآن کا ترجمہ چھپوالو۔ اچھے ہوجاؤگے۔’’نواب صاحب نے میرے والد کو دلّی خط لکھا اور اس خواب کی رُوداد بیان کرکے ترجمہ شائع کرنے کی اجازت مانگی، والد صاحب نے اجازت دے دی اور صرف ترجمہ قرآن دو بڑی خوبصورت جلدوں میں ریاست جاورہ کے چھاپہ خانے سے شائع ہوا۔ خدا کی شان کہ نواب صاحب بالکل تندرست ہوگئے اور جب اس واقعہ کے کوئی بیس سال بعد میں ان سے ملا تو ستر سے بہتر کے ہوچکے تھے۔ مگر وہ ایک بڑا خوب صورت نیا محل بنوارہے تھے۔ کیونکہ انہوں نے ایک اور نئی شادی کرلی تھی۔

    مولوی احمد حسن صاحب ‘احسن التفاسیر’ مولوی نذیر احمد کے خویش تھے۔ ایک دن مولوی نذیر احمد کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی احمد حسن نے دیکھا کہ ڈپٹی صاحب کی کُہنیاں بہت میلی ہو رہی ہیں۔ اور ان پر میل کی ایک تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ مولوی صاحب سے نہ رہا گیا، بولے ‘‘اگر آپ اجازت دیں تو جھانوے سے آپ کی کہنیاں ذرا صاف کردوں۔’’ ڈپٹی صاحب نے اپنی کہنیوں کی طرف دیکھا اور ہنس کر کہنے لگے ‘‘میاں احمد حسن یہ میل نہیں ہے۔ میں جب بجنور سے آکر پنجاپی کٹرے کی مسجد میں طالب علم بنا تھا تو رات رات بھر مسجد کے فرش پر کہنیاں ٹکائے پڑھا کرتا تھا۔ پہلے ان کہنیوں میں زخم پرے اور پھر گٹّے پڑ گئے۔ لو دیکھ لو، اگر تم انہیں صاف کرسکتے ہو تو صاف کردو۔’’ اس کے بعد اپنا وہ زمانہ یاد کرکے آبدیدہ ہوگئے۔ اور مولوی احمد حسن بھی رونے لگے۔

    مولوی صاحب بڑے فخر سے اپنے بچپن کے مصائب بیان کرتے تھے۔ جس مسجد میں ٹھہرے تھے اس کا ملّا بڑا بدمزاج اور بے رحم تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں ایک ٹاٹ کی صف میں یہ لپٹ جاتے اور ایک میں ان کے بھائی۔ سات آٹھ سال کے بچے کی بساط ہی کیا؟ علی الصباح اگر آنکھ نہ کھلتی تو مسجد کا ملّا ایک لات رسید کرتا اور یہ لڑھکتے چلے جاتے اور صف بھی بچھ جاتی۔ اس زمانے کے طالب علموں کی طرح انہیں بھی محلے کے گھروں سے روٹی مانگ کر لانی پڑتی تھی۔ دن اور گھر بندھے ہوئے تھے۔ انہی گھروں میں سے ایک گھر مولوی عبدالقادر صاحب کا بھی تھا۔ روٹی کے سلسلے میں جب ان کے ہاں آنا جانا ہوگیا تو نذیر احمد سے اوپر کے کام بھی لیے جانے لگے۔ مثلاً بازار سے سودا سُلف لانا۔ مسالہ پیسنا۔ لڑکی کو بہلانا۔ لڑکی بڑی ضدّن تھی۔ ان کا کولھا توڑتی اور انہیں مارتی پیٹتی رہتی۔ ایک دفعہ مسالہ پیستے میں مرچوں کا بھرا ہوا ڈبہ چھین کر ان کے ہاتھ کچل ڈالے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہی لڑکی آگے چلکر مولانا کی بیوی بنی۔

    مولوی نذیر احمد بڑے غیور آدمی تھے۔ سسرال والے خاصے مرفہ الحال تھے۔ مگر انہوں نے اسے گوارا نہ کیا کہ سسرال والوں کے ٹکڑوں پر پڑ رہیں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو غالباً پندرہ روپے کے ملازم تھے۔ اسی میں الگ ایک کھنڈلا لے کر رہتے تھے۔ میں نے بڑی بوڑھیوں سے سُنا ہے کہ ان کے گھر میں صرف ایک ٹوٹی ہوئی جوتی تھی۔ کبھی بیوی ان لیتروں کو ہلگا لیتیں کبھی میاں۔

    دلّی کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہیں کوئی سرکاری ملازمت نہیں ملی تو سخت برہم ہوئے۔ پرنسپل سے جاکر ایک دن بولے کہ ‘‘مجھے سرکاری ملازمت اگر نہیں دی گئی تو اپلوں کی ڈنڈی کھولوں گا اور اس پر دلّی کالج کی سند لگادوں گا۔’’ مگر اس کی نوبت نہیں آئی اور انہیں ملازمت مل گئی۔

    مولوی عنایت اللہ مرحوم منشی ذکاء اللہ دہلوی کے بڑے صاحب زادے تھے۔ یہ وہی مولوی عنایت اللہ ہیں جو علی گڑھ کالج کے ابتائی زمانے کے گریجویٹ تھے اور اردو میں ترجمہ ایسا کرتے کہ اس میں طبع زاد تصنیف کا مزہ آتا۔ اخیر میں حیدرآباد دکن میں ناظم الترجمہ بھی رہے۔ کچھ تو منشی ذکاء اللہ کی نسبت سے اور کچھ اپنی غیر معمولی قابلیت کی بنا پر مولوی صاحب سر سید احمد خاں کے مقربین میں شامل تھے اور ان کے سکریٹری کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ سرسید احمد خاں کالج کے لیے چندہ جمع کرنے لاہور گئے۔ ان کے سب رفیق ہم رکاب تھے۔ سید صاحب کو توقع تھی کہ زندہ دلانِ پنجاب سے بہت روپیہ ملے گا۔ سو دوست۔ سو دشمن۔ سید صاحب کے مخالفین میں مولویوں کی ایک بااثر جماعت بھی تھی جس نے سید صاحب اور ان کے ہم خیال لوگوں کو ‘‘نیچری’’ موسوم کرکے خوب مخالفانہ پروپیگنڈا کیا تھا۔ سید صاحب لاہور پہنچے اور شہر کے اخباروں اور پوسٹروں کے ذریعے ان کے آنے اور خطاب کرنے کی خبر مُشتہر کی گئی کہ بعد نماز جمعہ شاہی مسجد میں سید صاحب لکچر دیں گے۔ انہیں امید تھی کہ خلقت کاخوب ہجوم ہوگا مگر مولویوں کی مخالف جماعت کا زہر پھیل چکا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد جب سید صاحب کھڑے ہوئے تو سارے نمازی انہیں نیچری اور کافر کہتے ہوئے باہر نکل گئے۔ صرف مُٹھی بھر آدمی بیٹھے رہ گئے۔ سید صاحب اس ماجرے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے، ایسے رونکھے اور شکستہ دل ہوئے کہ ہمت ہی ہار بیٹھے۔ جائے قیام پر بے حد مایوس لوٹے اور اپنی ناکامی پر تاسف کرنے لگے۔ ان کے رفقا نے ان کی ڈھارس بندھائی مگر کوئی صورت حالات کو سنبھالنے کی سمجھ میں نہ آئی۔ بالآخر سیدصاحب نے فرمایا ‘‘نذیر احمد کودلّی سے لاؤ تو شاید کچھ کام بن سکے’’ منشی ذکاء اللہ انہیں لانے کے لیے بھیجے گئے کیونکہ ڈپٹی صاحب خود بڑے ضدی اور ہٹیلی طبیعت کے آدمی تھے اور سوائے منشی ذکاء اللہ کے اور کوئی انہیں رام نہیں کرسکتا تھا۔ سید صاحب سے بعض امور میں انہیں اختلاف ضرور تھا لیکن مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کے باب میں وہ سید احمد خاں کے حامی و مددگار تھے۔ نذیر احمد کا اس زمانے میں طوطی بول رہا تھا۔ اور وہ ہر طبقے میں ایک بہت بڑے عالم دین سمجھے جاتے تھے اور لوگوں کو یہ گمان بھی تھا کہ ڈپٹی صاحب نیچریوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے سید صاحب کے مخالفین میں سے ہیں اور غالباً وہ اسی وجہ سے اس سفر میں سید صاحب کے ساتھ گئے بھی نہیں تھے۔ لیکن جب ڈپٹی صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ سرسید کی لاہور میں یہ دُرگت بنی تو جھٹ منشی ذکاء اللہ کے ساتھ ہولیے۔ لاہور پہنچتے ہی ایک بڑا پوسٹر شائع کیا گیا کہ نیچریوں سے مقابلہ و مناظرہ کرنے کے لیے دلّی سے ایک بہت بڑے جغادری مولوی کو بُلایا گیا ہے اور بعد نماز جمعہ شاہی مسجد میں یہ معرکہ ہوگا۔ شہر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر مسلمان کو شوق و تجسس ہوا کہ ان مولوی صاحب کو دیکھے کہ کس کس طرح نیچریوں کو پٹخنیاں دیتے ہیں، لوگ جوق درجوق آنے لگے اور شاہی مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ نماز کے بعد مولوی نذیر احمد کھڑے ہوئے اور نیچریوں کی بُرائی سے ان کا لکچر شروع ہوا۔ سننے والوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ نذیر احمد کا لکچر خدا جانے کیسے کیسے پہلو بدلتا ہوا کہاں پہنچا۔ جب لکچر ختم ہوا تو علی گڑھ کے لیے روپیہ برس رہا تھا اور انہی نیچریوں کے ہاتھ چومے جارہے تھے، اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ جغادری مولوی نذیر احمد ہیں۔

    مولوی عنایت اللہ مرحوم فرماتے تھے کہ جب ہم لاہور سے دلّی واپس آرہے تھے تو ایک ہی ڈبّے میں سب سوار تھے۔ سرسید احمد خاں نے کسی بات کے سلسلے میں کہا ‘‘مولوی صاحب! میں اس لائق بھی نہیں ہوں کہ آپ کے جوتے کے تسمے باندھوں۔’’ مولوی نذیر احمد کھڑے ہوئے اور تعظیماً تین آداب بجالائے۔

    سرسید احمد خاں عمر میں مولوی نذیراحمد سے بیس بائیس سال بڑے تھے اور عوام کے علاوہ انگریزی حکام میں بھی بہت معزز تھے۔مولوی نذیر احمد بھی ان کی بڑی عزت کرتے اوردامے درمے، قدمے سُخنے ان کی مدد کرتے۔ ایک دفعہ علی گڑھ کالج میں ایک ہندو محاسب نے لاکھوں روپے کا غبن کیا اور کالج جاری رکھنا محال ہوگیا۔ اس خبر کو سن کر مولوی نذیر احمد دلّی سے علی گڑھ پہنچے اور ہر طرح کی ڈھارس بندھائی۔بولے ‘‘اگر روپے کی ضرورت ہو تو یہ روپیہ اس وقت موجود ہے، لے لو اور بھی دوں گا۔ اور اگر کسی خدمت کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔’’ سرسید اس خلوص سے بے حد متاثر ہوئے۔

    اسی زمانے میں مولوی نذیر احمد کے دو نواسے مشرف الحق اور اشرف الحق علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔ (ڈاکٹر) اشرف الحق نے بتایا کہ ‘‘نانا ابّا نے ہمیں سید صاحب کے کمرے میں بُلوایا تو ہم نے دیکھا کہ ان کے پاؤں میں بوٹ ہیں اور وہ ٹانگیں میز پر سرسید کی طرف کیے نہایت بدتمیزی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ (ڈاکٹر) اشرف نے چپکے سے ان سے کہا ‘‘نانا ابّا پاؤں نیچے کرلیجیے۔’’ بولے ‘‘یہ انہی کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔’’ سرسید ہنس پڑے۔

    ٹامسنؔ صاحب (جو غالباً شمال مغربی صوبے کے لفٹننٹ گورنر تھے) مولوی نذیر احمد کے بڑے قدرداں دوست تھے۔ ان کی آمد کی اطلاع پاکر مولوی صاحب ان سے ملنے گئے۔ چپراسی نے ایک مُلّا شکل کے کالے آدمی کو دیکھا تو کوٹھی کے دروازے ہی پر روک لیا۔ مولوی صاحب نے لاکھ چاہا کہ کسی طرح تعارفی کارڈ صاحب تک پہنچادے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسے یہ بھی بتایا کہ میرے پُرانے ملنے والے ہیں مگر وہ بھلا انہیں کیوں گردانتا؟ آخر ہار کر مولوی صاحب نے دو روپے بٹوے میں سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے اور کہا ‘‘بھائی اب تو للہ پہنچادے۔’’ یہی تو وہ چاہتاتھا۔ جھٹ کارڈ لے کر اندر چلا گیا اور فوراً ہی مولوی صاحب کی طلبی ہوگئی۔ مولوی صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو ٹامسنؔ صاحب سر و قد کھڑے ہوگئے اور بولے ‘‘مولوی صاحب مزاج شریف!’’ یہ کہہ کر انہوں نے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھادیا۔ مولوی صاحب نے کہا، ‘‘مزاج میرا اس وقت ٹھیک نہیں ہے اور میں آپ سے ہاتھ بھی نہیں ملاسکتا۔’’ ٹامسنؔ نے حیران ہوکر پوچھا ‘‘کیا ہوا مولوی صاحب آپ کو؟’’ بولے ‘‘آپ کا چپراسی دو روپے مجھ سے لینے کے بعد آپ تک مجھے لایا ہے۔’’ صاحب تو یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئے۔ اس چپراسی کو آواز دے کر بُلایا اور پوچھا ‘‘تم نے مولوی صاحب سے دو روپے لیے؟’’ روپے اس کی جیب میں موجود تھے انکار کیسے کرتا؟ کہنے لگا ‘‘جی ہاں!’’ صاحب نے خفگی سے کہا ‘‘تم برخاست۔’’ اور مولوی صاحب سے بولے۔ ‘‘لائیے اب ہاتھ ملائیے۔’’ مولوی صاحب نے ہاتھ نہیں بڑھایا اور کہا ‘‘مگر وہ میرے دو روپے تو مجھے واپس نہیں ملے۔’’ صاحب نے پھر اس چپراسی کو آواز دی اور اس سے مولوی صاحب کے دو روپے واپس دلوائے۔ بولے ‘‘اب ہاتھ ملائیے۔’’ مولوی صاحب نے اب بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔ صاحب نے متعجب ہوکر پوچھا ‘‘اب کیا بات ہے؟’’ مولوی صاحب نے کہا ‘‘میرے دو روپے مجھے مل گئے اس کا قصور معاف کیجیے اور اسے بحال کردیجیے۔’’ صاحب چیں بجیں ہوئے مگر مولوی صاحب کی بات بھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ آخر بولے ‘‘جاؤ مولوی صاحب کے کہنے سے ہم نے تمہیں بحال کیا۔’’ یہ کہہ کر پھر ہاتھ برھایا اور اب کے مولوی صاحب نے بھی ہاتھ بڑھادیا۔

    مولوی نذیر احمد صاحب علی گڑھ کے لیے چندہ اگانے کے سلسلے میں بہت کارآمد آدمی تھے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہوتا سرسید انہیں اپنے دوروں میں ساتھ رکھتے اور ان سے تقریریں کراتے۔ نذیر احمد کی قوتِ تقریر کے متعلق کہا جاتا تھا کہ انگلستان کامشہور مقرر برک بھی ان سے زیادہ موثر تقریر نہیں کرسکتا تھا۔ اب بھی اگلے وقتوں کے لوگ جنہوں نے مولوی صاحب کے لکچر سُنے ہیں کہتے ہیں کہ یا تو ہم نے ڈپٹی صاحب کو دیکھا یا اب اخیر میں بہادر یار جنگ مرحوم کو دیکھا کہ سامعین پر جادو سا کردیتے اور جو کام ان سے چاہتے لے لیتے۔ جب چاہا انہیں ہنسا دیا اور جب چاہا، ان کی جیبیں خالی کرالیں۔ اور عورتوں کے زیور تک اتروالیا کرتے تھے۔ مولوی نذیر احمد میں شوخی و ظرافت کا عنصر زیادہ تھا۔ پھبتی کسنےاور چوٹ کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ خود مولوی صاحب کہا کرتے تھے کہ چندہ اگانے کے لیے سرسید نے ہمارا ایک طائفہ تیار کیا ہے۔ حالیؔ روں روں روں روں سارنگی بجارہے ہیں۔ شبلیؔ مجیرے کھڑ کھڑا رہے ہیں۔ ہم طلبہ بجا رہے ہیں اور سید صاحب ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہہ رہے ہیں ‘‘لا چندہ! لا چندہ!!’’ غور سے دیکھیے یہ کس قدر مکمل تشبیہ ہے۔ کارکردگی کے اعتبار سے کس قدر مکمل۔

    مولوی نذیر احمد بہت سخت گیر آدمی تھے اور بہت نرم دل بھی۔ مسلمانوں میں تجارت کاشوق عام کرنے کے لیے روپیہ قرض دیا کرتے تھے اور منافع میں اپنا حصہ بھی رکھتے۔ اس شوقِ تجارت میں انہوں نے بڑے بڑے نقصان اٹھائے۔ پکاّ کاغذ لکھوا کر روپیہ دے دیتے اور روپیہ لینے والا خوب نفع کماتا اور اخیر میں دیوالیےہونے کی درخواست دے دیتا۔ خوشامد درآمد سے مولوی صاحب کو راضی کرکے رقم کا بیشتر حصہ ہضم کرجاتا۔ اگر مولوی صاحب سے کوئی کہتا بھی کہ آپ کیوں ایسے جھوٹے اور مکار لوگوں کے فریب میں آتے ہیں تو وہ ناراض ہوتے اور جب غصہ دور ہوجاتا تو کہتے ‘‘میں اپنے روپے سے ان کا ایمان خریدتا ہوں۔’’ ایک دفعہ کسی کو روپیہ ادھار دیا۔ اس نے خوب روپیہ کمایا اور کچھ مولوی صاحب کو بھی دیا۔ ایک دن مولوی صاحب بازار میں سے گزر رہے تھے۔ سامنے سے ایک اعلیٰ درجے کی فٹن آئی اور ان کے قریب آکر رُک گئی۔ اس میں سے وہ صاحب شراب کے نشے میں جھومتے ہوئے اترے اور جو رنڈی ساتھ تھی اس سے ٹھٹھا مار کر بولے ‘‘ان مولوی صاحب کو سلام کرو، یہ سب کچھ انہی کی بدولت ہے۔’’ مولوی صاحب کو یہ بات نہایت ناگوار گزری۔ خون کا سا گھونٹ پی کر چپکے ہو رہے اور گھر آکر پہلا کام یہ کیا کہ موتی ساگر وکیل کو بُلایا۔ اس شخص کے کاغذات ان کے حوالے کیے اور اس پر نالش کردی۔ مقدمے نے طول پکڑا اور خوب خوب روپیہ برباد ہوا۔ فریق ثانی نے جب یہ دیکھا کہ اب قید ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو ایک دن آکر مولوی صاحب کے پاؤں پکڑ لیے۔ اور ان کے قدموں میں لوٹ گیا۔ مولوی صاحب نے اسے معاف کردیا۔

    مولوی نذیر احمد عربی میں غیرمعمولی استعداد رکھتے تھے۔ کئی کئی سال سے لوگوں کاان پر تقاضا تھا کہ قرآن مجید کا ترجمہ کرو۔ مگر وہ پس و پیش کرتے اور کہتے کہ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو خدمت دین میں اپنی ساری ساری عمر صرف کرچکے ہیں۔ مگر جب پنشن لے کر وہ دلّی آگئے تو تیسیر کا ترجمہ شروع کیا اور اس سلسلے میں اکثر آیاتِ قرآنی کا ترجمہ بھی کرنا پڑا۔اس سے انہیں اندازہ ہوا کہ یہ کام اتنا دشوار نہیں ہے جتنی کہ طبیعت میں ہچکچاہٹ ہے۔ چنانچہ کئی مولویوں اور عالموں کے مشوروں سے انہوں نے قرآن مجید کاترجمہ کرنا شروع کیا۔ ایک ایک لفظ پر رد و قدح ہوئی اور بالآخر ایک رائے ہوکر ترجمہ لکھ لیا جاتا۔ ترجمہ مکمل ہونے کے بعد بھی ایک نابینا جید عالم کو پڑھ کر سنایا گیا اور ایک اور عالم کو نظرثانی کے لیےباہر بھیجا گیا۔ جب کاپیوں کی تصحیح ہوئی اور پروف دیکھے گئے تب بھی ان میں ترمیم کی گئی اور جب تک اس کی طرف سے پورا پورا اطمینان نہیں ہوگیا اسے شائع نہیں کیا گیا۔ اس میں ڈھائی سال لگ گئے مگر ترجمہ بھی ایسا شُستہ رُفتہ اور بامحاورہ ہوا کہ اب پچھلے پچاس برس میں کوئی اور ترجمہ اس سے بہتر شائع نہیں ہوسکا۔ خود مولوی صاحب کو اپنی تمام کتابوں میں ترجمۃ القرآن ہی پسند تھا۔ اور وہ فرماتے تھے کہ میں نے اور سب کتابیں دوسروں کے لیے لکھی ہیں اور یہ ترجمہ اپنے لیے کیا ہے کہ یہی میرا توشۂ آخرت ہے۔

    مولوی نذیر احمد نے دلّی کی ٹکسالی اور بامحاورہ اردو میں ترجمہ کیا۔ اوّل تو ایک زبان کے الفاظ و خیالات کو دوسری زبان میں پوری صحت کے ساتھ منتقل کرنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ پھر کلام اللہ کا ترجمہ کہ لفظ اِدھر سے ادھر ہوا اور مفہوم بدلا۔ خدا جانے کن احتیاطوں اور دشواریوں سے یہ ترجمہ مکمل ہوا ہوگا۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی معمولی مضمون کا ترجمہ بھی کرنے بیٹھتے ہیں تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ نذیر احمد جب ترجمہ میں لفظی پابندی سے کام نکلتا نہیں دیکھتے تو مفہوم ادا کرنے کا بہترین پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ تعزیراتِ ہند کے ترجمہ میں بھی انہوں نے یہی ترکیب استعمال کی اور ترجمۃ القرآن میں بھی۔ ٹرانسپورٹیشن فار لائف کاترجمہ انہوں نے 'حبس دوام بہ عبور دریائے شور 'کیا۔ ہم تو ‘‘عمر قید’’ کرتے۔ مگر اس میں کالے پانی بھیجے جانے کا مفہوم ادا نہ ہوتا۔ اسی طرح انہوں نے قرآن مجیدکے ترجمے میں ‘‘عورتیں مردوں کالباس ہیں، اور مرد عورتوں کالباس’’ لکھنے کے بجائے ‘‘مرد عورت کا چولی دامن کا ساتھ ہے’’ لکھا۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کیا کہ مفہوم کو واضح کرنے کے لیے بریکٹ میں الفاظ یا فقرے اپنی طرف سے بڑھا دیے۔ اس قسم کی ‘‘آزادی’’ اکثر علما کو ناگوار گزری۔ اور چاروں طرف سے اعتراضات کی بوچھار ہوئی۔ اور تو اور مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے ‘‘ردِترجمۂ دہلویہ’’ کے نام سے ایک خاصی ضخیم کتاب لکھ کر اسی زمانے میں چھپوادی تھی۔ مگر مولوی نذیر احمد نے اپنے ترجمہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور آج تک وہی ترجمہ مقبول انام ہے۔

    اس ترجمہ کی نشر و اشاعت کے لیے مولوی صاحب جہاں بھی لکچر دینے جاتے، بڑے بڑے پوسٹر لگوادیتے اور اکثر اپنی تقریروں میں بھی اس کاتذکرہ کرتے۔ پنجاب کے ایک مشہور اخبار نویس کو کلام اللہ کے اس ترجمے سے خدا جانے کیا کاش ہوگئی کہ وہ مولوی صاحب کی مخالفت پر تُل گیا۔ اور لگا ان کے خلاف کالم کے کالم سیاہ کرنے۔ جب مولوی صاحب نے سونے، روپے کے نوالے سے اس کا منہ بند نہیں کیا، وہ اور بھی کمینہ پن پر اتر آیا۔ اور مولوی صاحب کی ذاتیات پر حملے کرنے لگا۔ مولوی صاحب اس پر بھی طرح دے گئے تو اس نے بُہتان تراشی اور افترا پردازی شروع کردی۔ اب مولوی صاحب کو بھی جلال آگیا اور مقدمہ بازی شروع کردی۔ مولوی صاحب کثیر دولت کے مالک تھے۔ اور وہ اس ترنگ میں تھا کہ میں نے بھی بڑے بڑوں کو مار رکھا ہے۔ یہ سلسلہ خوب دراز ہوا۔ یہاں تک کہ مولوی صاحب کو اطلاعیں پہنچنے لگیں کہ وہ مقدمے کی زیر باری سے تباہ و برباد ہوا جارہا ہے۔ اخیر میں چند بھلے مانس بیچ میں پڑے۔ اس سے معافی نامہ داخل کرایا اور مولوی صاحب نے اسے معاف کردیا۔

    مولوی نذیر احمد نے اپنی آخری عمر میں ایک کتاب ‘‘امہات الاّمہ’’ لکھی تھی۔ اس زمانے میں عام دستور تھا کہ پادری چوراہوں میں کھڑے ہوکر عیسائیت کی تبلیغ کرتے اور بہکا سکھاکر لوگوں کو عیسائی کرلیتے۔ عیسائی پادریوں کےاردو اخبار بھی اسی غرض سے جاری تھے اور اکثر کتابچے بھی عیسائی اداروں سے شائع ہوتےرہتے تھے۔ ایک پادری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط سلط اعتراضات کیے۔ بالخصوص ان کے ایک سے زیادہ نکاح کرنے پر۔ اس کا جواب چند علماء نے دیا۔ ایک جواب سرسید احمد خاں نے بھی لکھا اور مولوی نذیر احمد نے ایک پوری کتاب اس کے جواب میں لکھ دی۔ یہ کتاب ویسے تو ایک پادری کے احمقانہ اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی، لیکن فی الحقیقت تاریخ اسلام کا ایک بیش بہا باب ہے جو تعقلی تنقید کی روشنی میں لکھا گیا۔ مولوی صاحب سے ادب کی رو میں یہ بے ادبی ہوگئی کہ انہوں نے آنحضرت اور اہل بیت جیسی مقدس ہستیوں کے ناموں کے ساتھ احترام کے الفاظ نہیں لکھے اور چند فقرے ایسے بھی لکھ گئے جو زبان کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی صحیح کیوں نہ ہوں احترامِ بیان کے لحاظ سے ناموزوں بلکہ ہتک آمیز سمجھے گئے۔ اس کتاب کا چھپنا تھا کہ مخالفین نے خوب جلے دل کے پھپھولے پھوڑے، مولوی صاحب سے مطالبہ کیا گیا کہ یہ کتاب ہمارے حوالے کرو اور ہم اسے جلسہ کرکے جلائیں گے۔ یہ بات مولانا کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اس پر عوام میں آگ اور بھڑکائی گئی۔ علماء کا ایک جلسہ ہو رہا تھا۔ اس میں ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ حکیم اجمل خاں کو مولوی صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ وہ اس وعدہ پر کتابیں لے آئے کہ اپنے پاس محفوظ رکھیں گے۔ اور کیا یہ کہ کتابیں لاکر بھرے جلسے میں مولویوں کے حوالے کردیں۔ کتابوں کے ڈھیر میں آگ لگادی گئی اور اس کے مصنف کو کفر کا فتویٰ دے دیا گیا۔ مولوی صاحب اس جارحانہ کارروائی سے اس قدر دل ریش ہوئے کہ انہوں نےاس دن کے بعد قلم کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس کتاب کے سلسلے میں مولوی صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر آج کل کے سارے مولوی مل کر مجھ پر دلائل کے ہتھیار سے حملہ کریں تو میں ان کے دلائل کو اس طرح کاٹ دوں گاجیسے قینچی کپڑے کو کاٹ دیتی ہے۔ اور کپڑا دوبارہ جُڑ نہیں سکتا۔ اس سارے ہنگامے کی بنیاد بہت گھٹیا رقابت کے جذبے پر تھی۔ مولانا کے انتقال کے بعد کسی کو شکایت نہیں رہی۔ آج بھی وہی کافر نذیر احمد ہیں جن کی کتابیں تعلیم گاہوں میں پڑھائی جارہی ہیں۔ جن کا ترجمۃ القرآن ہر گھر میں موجود ہے اور جن کی تعزیراتِ ہند کا ترجمہ تمام ہندوپاکستان کی عدالتوں میں رائج ہے۔

    مولوی محمد حسین آزادؔ اواخرِ عمر میں ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ ایک دن اپنے گھر سے غائب ہوگئے۔ پہلے لاہور میں انہیں تلاش کیا گیا پھر اور شہروں میں۔ مگر ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ کئی مہینے غائب رہنےکے بعد وہ ایکا ایکی دلّی میں رونما ہوئے۔ لبریاں لگی ہوئیں۔ ننگے پاؤں۔ پیروں میں چھالے، منہ پر خاک۔ چہرے پر وحشت، لال لال دیدے! سیدھے منشی ذکاء اللہ کے مکان میں گھس آئے۔ منشی ذکاء اللہ سے ان کا بچپن کا یارانہ تھا۔ وہ انہیں اس جنون کی کیفیت میں دیکھ کر لرز گئے۔ فوراً ان کے کپڑے بدلوائے۔ منہ ہاتھ دُھلوایا۔ معلوم ہوا کہ لاہور سے پیدل چلے تھے اور خدا جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے دلّی پیدل ہی پہنچ گئے۔

    ایک دن مولوی نذیر احمد منشی ذکاء اللہ کے ہاں پہنچے تو دیکھتے کاے ہں کہ مولانا آزادؔ ایک مونڈھے پر بٹھےھ ہںل اور دوسرے مونڈھے پر منشی ذکاء اللہ بٹھےا نائی سے حجامت بنوا رہے ہںن۔ نہ جانے مولانا آزادؔ کو کاہ خالل آیا کہ اٹھے اور نائی کے ہاتھ سے استرا چھن لال اور بولے ‘‘ابے تو کاک حجامت بنائے گا، ہم بنائںو گے۔’’ یہ کہہ کر منشی ذکاءاللہ کا گلا بنانےلگے اور سارا خط بھی بناڈالا۔ مولوی نذیر احمد نے بعد مںن منشی جی سے کہا ‘‘اماں تم نے غضب کاو کہ اس جنونی کے آگے اپنا گلا کردیا۔ اور جو وہ اڑا دیتا؟’’ منشی ذکاء اللہ نے کہا ‘‘نہں ۔ آزادؔ تو ہمارا دوست ہے۔ ہمارا گلا نہںم کاٹ سکتا۔’’

    مولوی نذیر احمد کی پنشن پندرہ سو روپے ہر مہینے آیا کرتی تھی۔اس زمانے میں نوٹوں کا اتنا دستور نہیں تھا۔ چاندی کا روپیہ لیا دیا جاتا تھا۔ جب پنشن کا روپیہ آتا تو مولوی صاحب کے آگے ایک چھوٹی میز پر بیس بیس روپے کی ڈھیریاں لگادی جاتیں اور وہ ڈھیریاں سنبھال لیتے۔ اگر گھر کا کوئی چھوٹا بچہ کھیلتا ہوا ادھر آتا تو مولوی صاحب اسے اٹھاکر روپوں کی چبوتری پر بٹھا دیتے اور خوب ہنستے پھر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور وہ کہتے ‘‘جتنی میری پنشن آتی ہے اتنی ان میں سے کسی کی تنخواہ بھی نہیں آئے گی۔’’ اور ان کی یہ پیشن گوئی اب تک تو سچ ثابت ہو رہی ہے۔

    مولوی عنایت اللہ صاحب فرماتے تھے کہ جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو میں نے ڈپٹی صاحب کو جاکر اطلاع دی۔ بہت رنجیدہ ہوکر بولے ‘‘تمہارے ابّا نے جانے میں جلدی کی۔ ساتھ ہی چلتے۔’’ آبدیدہ ہوگئے اور کچھ نہیں فرمایا۔ منشی ذکاء اللہ ان کے ہم سن اور سب سے پرانے ساتھی تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے