Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیارے دقیانوسی وارث علوی کا ایک ادھورا خاکہ

باقر مہدی

پیارے دقیانوسی وارث علوی کا ایک ادھورا خاکہ

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

     

    میں تم پر مضمون لکھنے کی تیاری کرتا رہا۔ تمہارے چند پرانے نئے مضامین پڑھے اور ذہن میں ان باتوں کو دہرایا جن کی مدد سے تمہارا خاکا سا بن سکتا ہے۔ پھر سوچا کہ تمہاری اس تحریر سے شروع کروں جس نے تمہارے نام کا تعارف ۱۹۵۳ء میں مجھ سے کرایا تھا مگر یہ لکھنے کا انداز پسند نہیں آیا۔ پھر میں نے شخصیت پر ایک کتاب پڑھی مگر یہ بات بھی کچھ جچی نہیں۔۔۔ اور پھر مجھے ایک ان جانے خوف نے گھیرنا شروع کیا۔۔۔ یہ خوف لکھنے کی خواہش اور نہ لکھ پانے کی مجبوری کے تصادم سے جنم لیتا ہے۔

    میں تم سے کتنی بار ملا ہوں۔ کیا بار بار ملنے سے میں تم سے اچھی طرح واقف ہوں۔ شاید ہاں شاید نہیں۔۔۔ مگر مجھے تو ادھورا خاکا لکھنا ہے، اس لیے نہیں کہ پورا خاکا لکھا ہی نہیں جا سکتا بلکہ اس لیے کہ میں تم سے اس وقت ملا جب ہم ایک دوسرے کو شعوری طور سے متاثر نہیں کر سکتے تھے۔ یوں تو متاثر ہونے کا غیرشعوری عمل ہر عمل میں جار ی رہتا ہے۔ پھر بھی ہماری عمریں ایسی نہیں تھیں یا ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو نوجوان دوستوں کی طرح یاد کریں یعنی ملاقات ہو گئی تو ٹھیک ہے ورنہ۔۔۔ ورنہ بھی ٹھیک ہے۔

    تم زندگی کے سردوگرم جھیلے ہوئے ہو۔۔۔ میں۔۔۔ لیکن میرا اس خاکے میں کیسے ذکر آ سکتا ہے۔ میں تو تمہارے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں اور یہ جملہ لکھتے ہوئے مجھے یکایک احساس ہوا کہ میں تمہارے بارے میں کیوں باربار لکھنے سے جھجک رہا تھا۔ اس لیے کہ میں تمہارے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے بارے میں لکھنا چاہتا تھا۔ کیا تم کو آئینہ بناکر میں اپنا عکس دیکھنا چاہتا تھا؟ اور مجھے لکھنا ہے تمہارے بارے میں۔ ایک آئینہ دوسرے آئینے کے بارے میں لکھ سکتا ہے؟ یا یہ ’’آئینہ‘‘ کا استعارہ ہی غلط ہے؟ آدمی جذبات کو منعکس کرنے کے باوجود آئینے سے مشابہ نہیں ہے اور یہیں سے ساری پیچیدگی شروع ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست سے اپنے عکس کی خواہش رکھتے ہیں مگر میں شعوری اورغیرشعوری طور سے اس ’’خواہش ناتمام‘‘ سے آگے نکل چکا ہوں اور میں تم میں اپنا عکس نہیں ڈھونڈ رہا ہوں۔ مجھے ان ملاقاتوں کا تجزیہ کرنا ہے جن کی یادیں میر ے ذہن میں کچھ کچھ دھندلی اور ہلکی ہلکی روشن ہیں۔

    ایک صفحہ لکھنے کے بعد میں نے اردو کے چند خاکے پڑھے۔ اکثر خاکے ممدوح کے چند لطائف، دو ایک میلو ڈرامائی مناظر اور شخصیت کے علم وفضل کی قصیدہ خوانی سے آگے نہیں بڑھتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ خاکے میں صرف چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں اور قارئین کو یہ یقین دلانا مقصود ہوتا ہے کہ ’’بقیہ خیریت‘‘ ہے اور ہمار اسماج بھی تجزیے سے زیادہ تفسیر، تنقید سے زیادہ تعریف کا خواہا ں ’’بن گیا ہے۔۔۔‘‘ بن گیا! ہے۔ میں نے کہا کہ بنایا گیا ہے۔ کوئی سچی بات سننے کو تیار نہیں ہے اور شاید کوئی سچی بات کہنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ تم اس سے آگے یہ کہوگے کہ کوئی سچی بات ہے ہی نہیں۔ کہنے اور سننے کا سوال بعد کا ہے۔

    اصل میں ساری بحث انسانی رشتوں کو سمجھنے کی ہے اور ہم ایک دوسرے سے بارہا ملنے کے باوجود ایک دوسرے سے اب تک ’بور‘ بھی نہیں ہوئے ہیں جبکہ میری رائے میں آدمی جب تک ایک دوسرے کا عادی نہ ہو جائے، اسے معروضی طریقے سے سمجھنا دشوار ہے اور پھر وہی بنیادی سوال، اگربڑی حد تک تجزیہ کر بھی لیا اور کسی نتیجے پر پہنچ بھی گئے تو اس کا حاصل کیا ہے؟ حاصل یہ ہے کہ آدمی ’مجموعہ اضداد‘ ہوتے ہوئے بھی کوئی ایسا کرشمہ نہیں ہے کہ جس کو سمجھا ہی نہ جا سکے اور فرداسی وقت تک ’ورق ناخواندہ‘ رہتا ہے جب تک کہ اس پر تیز شعاعیں ڈال کراس کے پیچ وخم کے راز نہ سمجھے جائیں۔ یہ ردوقبول کا سلسلہ ہے۔

    ہم اپنی مطلق آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ماحول، تعلیم، ملازمت، شادی، بچے وغیرہ غرض کہ وہ تمام باتیں جنہیں ’’ذمہ داری‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔۔۔ میں گھرے ہوتے ہیں۔ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی عادتوں میں جکڑے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ ساری باتیں کلیشے ہیں مگر ان کا اعتراف کیے بغیر ان سے آزادی حاصل کرنا بھی محال ہے اور آزادی۔۔۔ یہاں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آزادی کی خواہش خودبخود نہیں پیدا ہوتی۔ اس کے لیے بڑا خون پانی کرنا پڑتا ہے، ورنہ اکثر لوگ انہیں راہوں پر چلتے رہنا پسند کرتے ہیں جن پران کے والدین ا پنے نقش پا چھوڑ گئے ہیں۔

    میں تمہیں کیوں دقیانوسی کہتا ہوں، اس لیے کہ تم نے اپنی زندگی ان ہی دائروں میں گزاری ہے جو تمہارے گرد خاندان اور اس سے منسلک رشتوں نے بنائے تھے اور تم ان دائروں میں جتنا ’’خوش‘‘ ہو، شاید ان کے باہر نہیں۔ اس لیے کہ باہر’’آزادی کا خطرہ‘‘ ہے اور تم اپنی ساری ذہنی جسارت کے باوجود دقیانوسی ٹھہرے۔ اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ تم ’’غلطی‘‘ پر ہو۔ غلطی تو اس سے ہوتی ہے جو بنے بنائے دائروں، مرکزوں اور سیدھی لکیروں کو توڑتا ہوا ’’تباہ‘‘ ہو جاتا ہے۔ ’’تباہ‘‘ کتنا رومانی لفظ ہے۔ اس میں کتنی کشش ہے۔ مگر اس ذکر کو چھوڑو۔۔۔ آؤ میں تمہیں تمہاری شخصیت کی ادھوری جھلکیاں دکھاؤں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سے کوئی آئینہ نہیں بن سکتا اور نہ مجھے آئینہ بنانا اور نہ ہی عکس کی جستجو ہے۔ بس ایک بامعنی خلش ہے کہ میں تم سے تمہارا ذکر کروں۔۔۔ حاصل اور لاحاصل کی فکر کے بغیر۔۔۔ کم از کم وقتی طور سے۔

    (۲)
    میں وارث علوی سے اس وقت ملا جب کہ خاص کر اس سے ملنے کی وجہ نہیں تھی۔ غالب سمینار علی گڑھ یونیورسٹی میں ہو رہا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ وہاں بہت سے میرے سابق دوست ومہربان، آشنا ناآشنا اور کتنے ہی نیم اجنبی جمع تھے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ وارث علوی بھی اس میں شرکت کرنے والے ہیں۔ میں اخترالایمان کے ساتھ یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا تھا اور وارث اولڈ بوائز لاج میں۔ میں صبح سویرے ناشتے سے پہلے وہاں گیا۔ میں نے اس کی تصویر نہیں دیکھی تھی مگر وہاں تقریباً سب ہی میرے شناسا ٹھہرے تھے اور وارث ہی سے میرا تعارف نہیں تھا۔ ایک کمرے میں جہاں قاضی سلیم، مغنی تبسم، عالم خوندمیری وغیرہ بیٹھے، لیٹے یا کھڑے تھے، میں نے وارث سے جاکر کہا میں تم سے ملنا چاہتا ہوں برسوں سے اور اپنا نام بتایا۔ اس نے کسی غیرمعمولی جذبے کا اظہار نہیں کیا۔ یوں بھی وارث ایسے ناقدوں سے کتنے شاعر اور ادیب ملنا چاہتے ہیں۔

    اس نے مسکراتے ہوئے چند معمولی سے جملے کہے تھے جنہیں یاد رکھنا ضروری نہیں تھا۔ میں نے اس کی یادداشت کریدنے کے لیے کہا، وارث صاحب یاد ہے آپ کے چند مضامین کے بارے میں آج سے ۱۶ برس پہلے میں نے رسائل میں خطوط لکھے تھے۔ آپ کے مضامین پر سخت تنقید کی تھی۔ اس نے کیا جواب دیا، یہ مجھے یاد نہیں ہے۔ شاید اس نے کہا تھا ہاں یاد ہے مگر کیا اعتراضات تھے اور شاید میں نے کہا کہ مجھے بھی یاد نہیں ہے۔ میں تو فراموشگاری کے مرہم اور اس کی قوت کا بہت قائل ہوں ورنہ اگر آدمی تمام عمر ایک ہی زخم لیے رہتا تو یہاں یہ لکھنا چاہئے کہ میر کے ایک زخم پر بار بار زخم لگتے رہے، اسی لیے وہ ’ناسور‘ بن گیا تھا او وہ بھی اس کو سینے سے لگائے رہے تھے ورنہ اس سے بار بار لہو نہ ٹپکتا۔

    خیریہ تو جملہ معترضہ ہے۔ میں نے وارث سے کہا شام ساتھ گزاریں گے اور جب شام آئی تو میں وارث کے پاس گیا۔ افتتاحیہ جلسہ ختم ہوا او ر وارث اورمیں ہال سے باہر آئے مگر ہمارے ساتھ ہماری طرح کے دو حضرات تھے۔ ایک بزرگ ترقی پسند غزل گو، دوسرے ترقی پسند ناول نگار۔ ہماری طرح سے مراد یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی کوئی نہ تھا اور وہ ہماری خاطر کرنا چاہتے تھے اورمیں صرف وارث کے ساتھ شام گزارنا چاہتا تھا۔ چائے وغیرہ پی کرہم بہ مشکل ان سے الگ ہوئے۔ پھر میں وارث کو لےکر رسل گنج گیا اور شام کا انتظام کیا۔ ہم نے بہانہ یہ کیا تھا کہ ہمیں اپنے مضامین پر نظرثانی کرنی ہے۔ پھر تھوڑی دیرشغل کرنے کے بعد ہم باتیں کرتے رہے۔ اپنے محبوب ادیبوں کے نام گناتے رہے۔

    ہم نے گفتگو میں یہ احتیاط برتی کہ ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لیے کوئی حربہ استعمال نہیں کیا، شاید ہمارے پاس کوئی حربہ تھا بھی نہیں۔ جیسے نیم اجنبی ملتے ہیں بس ویسے ہی گفتگو کرتے رہے۔ ہلکی، پرلطف، تبسم زیرلبی سے ہلکے قہقہوں والی گفتگو، کسی کی برائی نہیں کی۔ ان لوگوں کی بھی نہیں جن کی خاطر وتواضع سے ہم گھبراکر ان سے الگ ہوئے تھے۔ پہلی تفصیلی ملاقات کتنی سرسری ہوتی ہے۔ رسمی جملے ٹوٹ ٹوٹ کر ربط نہاں کی تخلیق کرنے کی ناکام سی کوشش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے واقف ہو رہے ہیں، جب کہ ہم بڑے ضبط سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ غیرشعوری طور سے ہم نہیں چاہتے کہ پہہلا تاثرخراب پڑے۔ زندگی کے ’بازاری ماحول‘ نے ہمیں اتنا مسخ کر دیا ہے کہ ایک دوسرے پر عیاں ہونے کے باوجود آدھے چھپے ہوئے غائب رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ وہ ہماری ملاقات کی پہلی رات تھی۔

    مجھے آج اس لیے یاد رہ گئی ہے کہ میں اپنا مختصر مضمون اور وارث اپنے طویل مضمون کے اقتباسات سنا رہے تھے اور ہمارے سابق دوست اور آشنا ناآشنا اپنی محفل گرم کئے ہوئے ہم سے کچھ دور کسی کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں ہماراخیال بھی نہ تھا۔ اخترالایمان مجھے اس محفل میں لے جانا چاہتے تھے مگرمیں نہ گیا۔ مدتوں بعد علی گڑھ آیا تھا اور اکھڑا اکھڑا محسوس کر رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ سیمینار ختم ہو اور بمبئی بھاگ جاؤں مگر مجھے اب بھی کئی روز علی گڑھ میں رہنا تھا اور وارث کے لیے علی گڑھ خاصا نیا تھا، گو کہ وہ وہاں چند بار انگریزی میں ایم اے کرنے آیا تھا مگر اس نے مجھ سے شکایت کے لہجے میں کہا مجھے یہاں کوئی گھاس نہیں ڈالتا اور تمہیں؟ میں نے کہا مجھے گھاس کی تلاش نہیں ہے۔

    یوں بھی علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود میری دوستی علی گڑھ سے نہ ہو سکی تھی جبکہ علی گڑھ میں میرا ایک بہت قریبی دوست تھا مگر اس کا ذکر بے سود ہے۔ اس لیے کہ کھوئے ہوئے دوست کا ذکر نئے دوست کے ساتھ مجھے ذرا بے جوڑ لگتا ہے اور زندگی تو دوستی دشمنی کے چھوٹے چھوٹے دائروں کو توڑ کر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ چند برسوں بعد ہم ایک دوسرے کے لیے نیم اجنبی بن جاتے ہیں۔ جب ہم یہ جملہ کہتے ہیں، ’’ہاں میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں، وہ میرا پرانا دوست تھا۔۔۔‘‘ تھا اور اس تھا میں دوستی کی وہی پرانی داستان ہے جسے میں نے ایک شعر میں کہا تھا،

    دوستی ہی تھی بڑھی اور خشک ہو کر رہ گئی
    دل کی دھڑکن سے نظر کا سلسلہ جاتا رہا

    دوسرے دن وارث علوی نے اپنا طویل مضمون پڑھنے کی کوشش کی۔ کو شش اس لیے کہ اسے طوالت کی وجہ سے کتنے ہی صفحات چھوڑنے پڑے تھے۔ میں نے اس کے مضمون پر بحث میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ شاید اسے میں نے توجہ سے سنا ہی نہیں تھا۔ گو کہ ایک جدید ناقد کے مضمون کو بہت غورسے سنا تھا اور ان پر چند اعتراضات بھی کیے تھے۔ وارث علوی کا یہ مضمون عرفان غالب مرتبہ آل احمد سرور میں شامل ہے اور اسے میں دو بار پڑھ چکا ہوں۔ اس مضمون کے چند اقتباسات دینا ضروری سمجھتا ہوں، اس لیے کہ وارث علوی کے تنقیدی رویے کو سمجھنے میں ان سے مدد مل سکتی ہے۔

    ’’تنقید میں اگر کسی چیز کی قدروقیمت ہے تو وہ اس تجزیاتی مطالعے کی جو صحیح قسم کے ادبی اور فنی شعور کی روشنی میں کیا جائے۔‘‘ اس میں ’’صحیح‘‘ کا لفظ ہی شدید بحث طلب ہے۔

    ’’جو شخص شعر اور شخصیت میں تفریق روا نہیں رکھ سکتا، وہ گویا تنقید ادب کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہیں ہے۔‘‘ یہ تنقیدی خیال ایلیٹ نے مشہور کیا تھا۔

    ڈاکٹر عبد اللطیف پر سخت تنقید کرتے ہوئے وارث نے (حیرت ہے) یہ لکھ ڈالا ہے: ’’وہ شخص جو خطوط جیسی کاروباری اور غیرتخلیقی صنف کو کسی شاعر کے تخلیقی کارناموں پر فوقیت بخشے، وہ کسی بھی قسم کے بڑے تخلیقی کارنامے کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھنے کا دعوے دار کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘

    یہاں میری رائے میں غالب کے خطوط کی عظمت تسلیم کرکے عبداللطیف پر تنقید ہونی چاہیے تھی اور شاید وارث بھول گئے کہ خطوط نگاری کے فن ہی نے ناول نگاری کے فارم کو جنم دیا تھا اور سوانح عمری کے فن پر بحث خطوط نگاری کے فن کو بھی معرض بحث میں لا چکی ہے۔ بہ ہر حال بحث کی جھونک میں وہ یہ لکھ گئے۔ آگے چل کر انہوں نے خود خطوط کا ذکر کیا ہے۔ حسن عسکری کے بارے میں وارث لکھتے ہیں،

    ’’میں اتنا سادہ لوح نہیں کہ حسن عسکری کا شمار اثرونیاز کے ساتھ کروں لیکن عسکری ذہانت اور تنقیدی شعور کی پختگی کے لحاظ سے اگر ان لوگوں کی طبیعت کے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ حسن عسکری کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی تنقیدوں میں اس وقت تک اردو شاعر کے نام نہیں لیتے جب تک انہیں فرانسیسی شاعروں کے نام یاد آتے رہیں۔‘‘

    مگر اس رائے کے چند برسوں بعد وارث اردو کے تین ناقدوں کے قائل ہونے کا ذکر اپنے مضمون ’’فاروقی کی تنقیدیں‘‘ میں کرتے ہیں اور دوسرا اہم نام حسن عسکری کا ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ وارث اپنے مضامین شائع ہونے کے بعد دوبارہ کم پڑھتے ہیں۔ اس طرح وہ کبھی کبھی اپنی پچھلی رائے کی تردید کرتے جاتے ہیں۔ شاید اسی کا نام ’’ذہنی ارتقا‘‘ ہے۔ اسی مضمون کے چند کلیدی جملے قابل توجہ ہیں،

    ’’ایک بار نقاد جبریت کا شکار ہو گیا پھر چاہے یہ جبریت نفسیاتی ہو، معاشرتی ہو یا تاریخی ہو تو پھر ادبی تنقید وجود ہی میں نہیں آ سکتی۔ کیونکہ ادبی تنقید کا عمل فنی، جمالیاتی اور اخلاقی قدروں کی تشکیل فعال آویزش اور پیکار سے ہوتی ہے، انفعالی طور پر جبریت کے عمل کو قبول کرنے سے نہیں ہے۔‘‘

    وارث نے ادبی تنقید کے دائرے کو دوسرے دائروں سے الگ تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ رویہ ان کی بیشتر تنقیدوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ ادبی قدروں کی بحث کرتے ہوئے کلچر کی بحث اور اسی طرح سماجی ساخت اور طبقات کی باتیں نہیں کرتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں ترقی پسند ادیب رہنے کا خمیازہ ادا کر رہے ہیں کہ ہر قیمت پر بنیادی سوالات کو اپنے ’’ادبی جمالیاتی حلقے‘‘ ہی میں رکھ کر باتیں کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ ان کی خامی یا خوبی ہے۔

    ان کے ذہن پر مارکسی تنقید کے آہنی سایے سے گریز کرنا ایک شعوری آسیب بن گیا ہے۔ وہ سوویت مارکسزم اور مارکسزم میں فرق کیسے کر سکتے ہیں جب کہ وہ یہ بات ہی تسلیم نہیں کرتے کہ ساری جمالیاتی بحث بھی زبان کی بحث بن کر نہیں رہتی بلکہ یہ پورے معاشرے کے منظر نامے کی بحث کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ مگر وہی بات ’’ترقی پسند ی کے گزیدہ‘‘ ہیں اور اب وہ اس میں الجھنے والے نہیں ہیں۔ غالب کے ہر نقاد پر تنقید کرنے کے بعد وہ صرف دو مضامین کو اچھا قرار دیتے ہیں۔ آفتاب احمد خاں کا ’’غالب کا غم‘‘ اور حمید احمد خاں کا مضمون ’’غالب کی شاعری میں حسن و عشق۔‘‘

    میں نے اس مضمون کا ذکر ذرا تفصیل سے کیا تاکہ وارث سے میری جان پہچان کی نشان دہی ہو جائے اور ہمارے بنیادی اختلافات کی وجوہ سامنے آ جائیں۔ اس سیمینار میں وارث کا مضمون کچھ جم نہ سکا۔ عرفان غالب میں جو مضمون شامل ہے وہ نظر ثانی کے بعد شائع کیا گیا ہے۔ وہاں تو صرف دو ہی مضامین کا ذکر رہا۔ ایک محمود ہاشمی کے مضمون ’’غالب کی شاعری کا علامتی پہلو‘‘ دوسرے عالم خوند میری کا ’’غالب اور عصریت۔‘‘

    مگر مجھے تو اس وارث کا ذکر کرنا ہے جو اپنے مضامین کے باہر گھومتا پھرتا اور قلندر نظر آتا ہے۔ سیمینار ختم ہونے کے بعد ایک خاتون شاعرہ کے گھر محفل جمی۔ سب لوگ تھے سوائے وحید اختر کے اور وہاں بڑا لطف رہا۔ میں اچھے موڈ میں تھا اور میں نے اپنے ’’مسخرے پن‘‘ کا ہنر دیکھا تھا۔ اسی شب محمود ہاشمی سے پہلی بار میرا تعارف ہوا تھا۔ اس سے پہلے ہم ایک دوسرے کو ’’قابل نفریں‘‘ سمجھتے تھے۔ اگر میں افسانہ نگار ہوتا تو اس کی بازیافت کر سکتا۔ اب بھی صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وارث نے مجھے وہیں پہلی بار پسند کیا تھا مگر وہ یہ نہیں طے کر سکا تھا کہ اسے یعنی مجھے قریبی دوست بنائے یا نہیں۔ محفل صبح تک چلتی رہی اور ذوق کے مشہور مصرع ’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘ پر ہم الگ ہوئے تھے۔

    صبح میں دیر سے اٹھا۔ وارث اسٹیشن جا چکا تھا۔ میں اس سے ملنے گیا، وہ لکھنو جا رہا تھا گھومنے۔ وارث کو جب بھی موقع ملتا ہے، تو وہ احمد آباد سے فرار ہو کر ایک مست قلندر کی طرح شہر شہر گھومتا ہے۔ وہاں کی آب و ہوا کو چکھتا ہے اور اکثر مجھے خط لکھتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ ہم نے خط و کتابت کا کوئی وعدہ نہیں کیا اور ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم کبھی قریبی دوست بنیں گے۔

    اور ایک دوپہر تصدیق سہاوری مرحوم وارث کو میری کھولی پر لائے تھے۔ وہ گوا گیا تھااور بمبئی سے احمد آباد واپس جاتے ہوئے چند گھنٹے ٹھہر گیا تھا اور مکتبہ جامعہ میں تصدیق سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی۔ اور اس نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ دوہرے بدن کا سرخ و سفید رنگ کا آدمی ہے۔ اس کی فربہی میں بھدا پن نہیں ہے۔ وہ کھلی شخصیت اور تیز نظر کا مالک ہے۔ ہم دونوں اس بار کچھ زیادہ باتیں نہیں کر پائے۔ کتابوں کی باتیں کرتے رہتے۔ وہ مجھ سے یوگوسلاویہ کے فلسفی سویتے زا ستوجانووچ (SVETOZA STOJANOVIC) کی نہایت بحث طلب کتاب ’’آدرشوں اور حقیقت کے درمیان‘‘ لے گیا مگر ایک عرصے تک نہ کتاب پڑھ کربھیجی نہ خط ہی لکھا۔۔۔ یہ کتاب فائیرباخ کے اس قول سے شروع ہو جاتی ہے۔ آزاد ترجمہ ملاحظہ ہو،

    ’’آدمی بنے بغیر فلسفی بننے کی کوشش نہ کرو اور صرف وہ آدمی بنوجو غوروفکر کرتا ہے اور مفکر کی طرح نہ سوچو، جو مسائل کو سیاق وسباق سے الگ کرکے سوچتا ہے۔ فکر کو زندہ رکھو یعنی حقیقی۔۔ اس شخص کی طرح رہو جس کو دنیا کے سمندرکی لہریں تروتازہ اور توانا رکھتی ہیں۔ وجودی طریقے سے سوچو۔۔۔‘‘

    جس کتاب کا آغاز اتنے فکر خیز طریقے سے ہووہ یقینا ًدلچسپ تو ہوگی، پھراس میں استالین کے زمانے میں سو ویت یونین میں اشتراکیت کی کیا درگت بنی اس کا خاصا ذکر ہے۔ علیحدگی ALIENATION کے مسئلے پر بھی بحث ہے۔ یہاں کتاب کا خلاصہ دینا مقصود نہیں ہے۔ مگر وارث نے شاید اس کتاب کے چند صفحات ہی پڑھ کر چھوڑ دیے، اس لیے کہ اس کا نہ کہیں ذکر کیا اور نہ اس کے بارے میں کبھی گفتگو کی۔ میں نے اس کتاب کا اس لیے ذکر کیا کہ وارث علو ی’’ترقی پسند گزیدہ‘‘ 1 ہے اور یہ جاننا نہیں چاہتا کہ سو ویت مارکسزم اور مارکسزم الگ الگ ہیں اور یہ کہ سوشلزم روس، چین اور کیوبا میں فروغ نہیں پا سکا ہے تواس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ سوشلزم کی جدوجہد ہی غلط ہے اوریہ کہ ادب بھی مجموعی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی اپنی اوپری شناخت سے الگ کرکے خودمختار سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

    مگر وارث کی ساری کوشش اسی پر مرکوز رہتی ہے کہ وہ ادب کو سماجی علوم خاص کرعمرانیات سے الگ کرکے دیکھے۔ کیوں؟ وہی پرانا جواب، سماجی علوم تخلیقی عمل کی پراسراریت سے واقف نہیں ہو سکتے۔ یہ میری رائے میں صحیح نہیں ہے۔ وارث کا اچھا خاصا مضمون ’’قافیہ تنگ اور زمین سنگلاخ‘‘ ہے۔ سوغات نمبر۱ (دورجدید ۱۹۷۱ء) میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بارے میں محمود ایاز نے لکھا تھا، ’’۔۔۔ وارث حسین علوی کے مضمون میں فنکار کے منصب اور تخلیقی عمل سے بحث کی گئی ہے۔ اس موضوع پر اتنا اچھا مضمون شاید ہی ملے۔ وارث حسین نے پچھلے چار پانچ برسوں میں بہت اچھے مضامین لکھے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ایک بات کھٹکتی ہے، ان مضامین کا حریفانہ انداز اور لہجے کی خطیبانہ داروگیر۔‘‘ (سوغات نمبر۱ ص ۱۱)

    محمود ایاز کو یاد نہیں رہاکہ وارث ممتاز حسین (جن کے نام سے وارث اب چڑتے ہیں) کے ہم عصر رہ چکے ہیں۔ وہ ’شاعر‘ (بمبئی) میں ایک عرصے تک خصوصی فنکار کی حیثیت سے لکھتے رہے تھے اور پھر ترقی پسندی کے زوال کے ساتھ انہوں نے ’’خاموشی‘‘ اختیار کر لی تھی۔ وارث مکتبی قسم کے بہت سے مضامین لکھ چکے ہیں۔ ’سودا کی ہجو‘ پران کا مضمون اور عبادت بریلوی کی کتاب ’’اردو تنقید کاا رتقا‘‘ پر تفصیلی تبصرہ، ان مضامین کے تراشے میرے پاس موجو دہیں۔ بہرحال یہ لکھنا اس لیے ضروری تھا کہ وارث تنقیدی میدان کا پرانا پہلوان ہے اور اس کے مضامین کی تعداد تقریباً دو سو سے زیادہ ہی ہوگی اور اس کا ایک ایک مضمون اپنے ڈیل ڈول میں اکثر کئی کئی مضامین کے برابر ہوتا رہا ہے اور اپنے بلند آہنگ لب ولہجے کو غیرشعوری طور سے خطابت سے الگ سمجھتا ہے۔ اب آئیے اس کے قافیہ تنگ اور زمین سنگلاخ کے کچھ حصوں کا تجزیہ کیا جائے۔ مضمون کی ابتدا ہی نہایت ڈرامائی انداز سے ہوتی ہے۔ مضمون کے شروع میں ٹالسٹائی کے چند جملے ہیں۔ ملاحظہ ہوں،

    ’’سوال یہ نہیں کہ سنسر اس چیز کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے جو میں نے لکھی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ سنسر کے عمل کا اس چیز پر کیا اثر پڑتا ہے جو میں لکھنے والا ہوں۔۔۔‘‘ (ٹالسٹائی)

    اس کے بعد مضمون کا پہلا جملہ یوں شروع ہوتا ہے، ’’ٹالسٹائی کے یہ جملے چوبی تختیوں پر جلی حروف میں لکھ کر ان تمام لیڈر نقادوں کے مطالعے کے کمرے میں آویزاں کرنا چاہئے جو فنکار کو تخلیق کی آزادی کا پروانہ دیتے وقت اسے شیکسپیئر کے ڈرامے ’ہلمٹ‘ کے بوڑھے وزیر پولونیئس کی نظروں سے گھورتے ہیں کہ اللہ جانے آزادی ملنے پر صاحب زادہ کیا گل کھلائےگا۔۔۔‘‘ کتنا ڈرامائی ابتدائیہ ہے مگر اس ہی میں وہ خاموش غلطی ہوئی ہے کہ میں پڑھتے ہی ایک لمحے کے لیے چپ رہ گیا۔ ٹالسٹائی کی شیکسپیئر کے بارے میں کیا رائے تھی؟ اور کیا ٹالسٹائی خود نہایت دقیانوی قسم کی اخلاقی اقدار کا ترجمان نہیں تھا؟ حیرت ہے کہ وارث نے ابتدا ہی غلط انداز سے کی ہے۔

    اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ناقد، تخلیق کی مکمل آزادی کے لفظ وارث کے مضامین میں کہیں نہیں ملیں گے۔ یہ تو میں نے لکھے ہیں۔ اس لیے کہ مکمل آزدادی نراجیت ہے اوروارث اورنراجیت جو اشتراکیت سے بھی آگے کی منزل ہے (جی نہیں توبہ کیجئے) کا حامی ہے۔ اسی پیرگراف میں یہ اہم جملہ آتا ہے: ’’ہمارا افادی اور مقصدی ادب کا علمبردار نقاد پولونیئس ہی کا ادبی روپ ہے۔‘‘ (سوغات ص ۸۷) اب پتہ چلتا ہے کہ صرف مقصدی ناقد کو پولونیئس ثابت کرنے کے لئے شیکسپیئر کا ذکر کیا گیا تھا ورنہ ٹالسٹائی کا قول ثابت کیسے ہوتا؟

    وارث تنگ نظری، ملائیت اور کٹرپن کے خلاف لکھتے ہوئے خود بھی کبھی کبھی اسی کا شکار ہو جاتے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنے لب ولہجے میں حقارت ہی کا اظہار نہیں کرتے ہیں بلکہ اکثر طنز بے جاسے کام لیتے ہیں اور عام نقادوں کی طرح صرف اپنے بیا ن کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش نہیں کرتے بلکہ زیادہ تروہ زور بیان پر زور دیتے ہیں۔ انہیں مضمون کے تنقیدی مزاج کی اتنی فکر نہیں رہتی جتنی اسے نہایت دلچسپ بنانے کی فکر رہتی ہے۔ یہ ’’بدعت‘‘ عسکری گروپ سے اردو میں آئی تھی اور اسے سلیم احمد نے خوب ہوا دی تھی۔ (سلیم احمد بھی وارث کے پسندیدہ ناقد ہیں گوکہ شمس الرحمن فاروقی، جنہیں وارث نے عظیم ناقد کہنے کی ’’حماقت‘‘ کی ہے، اپنی تحریر کو نہایت سنجیدہ رکھنے پر مصر رہے ہیں مگر ان کی بحث پھر کبھی۔۔۔) اس مضمون کے چند کلیدی جملے ملاحظہ ہوں،

    ’’آدمی کی شخصیت جتنی آدرشی، خانہ بدوش اور متعصب ہوگی، اتنی ہی زیادہ احتسابی ہوگی۔ اس کے برعکس فنکار کی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہو وہ اپنی شخصیت کو کشادہ اور شفاف بنائے تاکہ ہر تجربے کی کرن اس کی روح کی گہرائیوں تک اتر سکے۔‘‘ (ص ۹۱)

    یقین کیجئے مجھے یہ جملے پڑھتے ہوئے بڑی تقویت ملی کہ وہ آدرشوں کی تنگ نظری کے خلاف ہیں مگر وہی پرانی بات سارے آدرش رد کرنے والے ناقد اور فنکار اپنی تمام زندگی میں اوپری طبقے کی حکومت اور اس کے کلچر کے محافظ کے ہم نوا تو بن ہی نہیں سکتے اور اگربن گئے تو کیا اس کی مثال دینے کی ضرورت ہے؟ ایمرجنسی کے دوران ترقی پسندوں کا ایک بڑا حلقہ بیس نکاتی پروگرام کا ہم نوا تھا تو’’جدیدیے‘‘ بھی نیشنل فرنٹ آف رائٹرس بناکر کچھ ان سے پیچھے نہ تھے۔

    گویا یہ ایمانداری کی بات ہے کہ وارث دونوں کا مخالف تھا مگر اپنی مخالفت کا اظہار صرف ترقی پسندوں سے مضمون میں کیا اور مجھے ایک ذاتی خظ میں لکھا کہ ’’جدیدیوں کی یہ نسل بھی بڑی بزدل ہے۔ ترقی پسندوں کی طرح انعامات اور اکرام حاصل کرنا چاہتی ہے، لعنت ہے۔‘‘ یعنی وارث خود ایک آدرشی ناقد کا رول ادا کرنا چاہتا ہے مگر ناقد تو اقدار کی نئی ترتیب کرتا ہے۔ نئی جمالیات بغیر ادبی اقدار کی تشکیل نو کے ممکن نہیں ہے۔ اسے افتخار جالب کا انجام معلوم ہے جو اپنے ’’پرانے کارناموں‘‘ کو رد کرکے ترقی پسندوں کا علم بردار بن گیا۔ کیوں؟ اسی لیے کہ اپنی تنقیدی نظر کو تنہا نہیں رکھ سکا۔ کیا ناقد فنکار کی طرح تنہا رہ سکتا ہے؟ اور یگانہ کی طرح یہ کہہ سکتا ہے،

    زمانہ لاکھ گم ہو جائے آپ اپنے اندھیرے میں 
    کوئی صاحب نظر اپنی طرف سے بدگماں کیوں ہو

    کم از کم میرے محدود علم میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے، اس لیے کہ ناقد ایک حلقے کا ترجمان نہ ہوکر بھی چند ادبی یا ثقافتی رجحانات کا ہم نوا یا ہم درد رہتا ہے۔ وہ فنکار کی طرح خلا میں تیر نہیں چلا سکتا۔۔۔ وارث کے اس مضمون کے چند اور جملے ملاحظہ ہوں۔ وارث کو مضمون کے دوران میں احساس ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو پراسرار بنا رہا ہے۔ اس لیے لکھتا ہے،

    ’’آپ کہیں گے میں نے تخلیق کے عمل کو شعور کی سطح سے ہٹاکر بالکل لاشعور کی سطح پر رکھ دیا ہے۔ فن کا ایک پراسرار وجود بنا دیا ہے جسے اس دنیا کی سرگرمیوں سے گویا کوئی تعلق ہی نہیں۔ فنکار کو ایسا ظاہر کرنا میرا مقصد بالکل نہیں تھا۔ میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ فنی تخلیق کا عمل اتنا سیدھا سادا نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ تخلیقی عمل کی نفسیات کو علم وشعور کی سطح پر سمجھنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کی پراسراریت ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ (ص ۱۰۴)

    ظاہر ہے کہ وارث کو یہ جملے لکھنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی اگر وہ تخلیق کے پراسرار ہونے پر غیرضروری اصرار نہ کرتے ورنہ مارکسی ناقد (جیسے آرٹسٹ فشر وغیرہ) بھی یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ اصل سوال پراسراریت کا نہیں ہے بلکہ تخلیق کے تجزیے میں اولیت کس بات کی ہے۔ آیا یہ تسلیم کرکے تجزیہ کرنا ہوگا کہ پراسراریت تجزیے کے بعد بھی برقرار رہےگی یا تجزیہ صرف ظاہری ہوگا۔ اس لیے کہ تجزیہ اگر تخلیق کی ’’روح‘‘ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو ناکام رہےگا اور اگر روح تک پہنچ گیا تو حقیقت کا عرفان ہو جائےگا اور ناقد اس کا اظہار کرےگا۔

    کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وارث تخلیق کو کئی کئی روحوں اور تہوں کا حامل سمجھتا ہے کہ ایک روح مل بھی گئی تو کئی روحیں پوشیدہ رہیں گی اور تہہ در تہہ تخلیق کبھی بھی پوری طرح تجزیے کی گرفت میں نہیں آ سکتی۔ اگر وارث یہ مانتا ہے تو تنقید کے دائرے کو تنگ کر دیتا ہے، اس لیے کہ ناقد تنقید کرکے صرف تخلیق کی بازیافت ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے مرتبے کا تعین بھی کرتا ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی، اس لیے کہ نظیر اکبرآبادی کو سالہا سال تک نظرانداز کرنے کے بعد ترقی پسندوں نے سر پر چڑھایا مگر حقیقت ان دونوں رویوں کے درمیان ہے۔ غرض کہ ناقد کا ڈائلیما ختم نہیں ہوتا۔

    وارث فنکار کو مرکزی حیثیت دیتا ہے مگر یہ نہیں سوچتا کہ اس کا تیسرے درجے میں سفر کرنے والا آدرشی فنکار متوسط طبقے کا ایک فرد ہے اور اس طبقے سے لاکھ آزاد ہوکر اس میں بڑی حد تک گرفتار بھی ہوتا ہے۔ اپنا یہ نہایت فکرخیز مضمون بھی ایلیٹ کے قول پر ختم کرتا ہے یعنی فنکار کا کام زبان کی حفاظت ہے مگر زبان تو زندگی، معاشرے اور سیاست سے جڑی ہوئی ہے اور فنکار کی ساری پراسراریت سرمایہ دارانہ نظام میں خاک ہو جاتی ہے کہ اسے فن کو فروخت کرنا پڑتا ہے۔ وہ بغیر بازار میں گئے زندہ نہیں رہ سکتا۔ حیرت ہے کہ اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے وارث نے (یہ مضمون ۱۹۷۱ء میں لکھا تھا) ALIENATION کے مسئلہ پر بحث نہیں کی تھی۔

    میری وارث سے ایک بار اور سرسری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنے دوست نثار کے ساتھ بمبئی آیا تھا۔ کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ جب وہ مجھ سے ملنے آیا تو اتفاقاً راجندر سنگھ بیدی میرے یہاں آئے ہوئے تھے اور ہم دوپہر میں بیٹھے ہوئے بیئرپی رہے تھے۔ وارث بیدی سے نہایت ادب سے ملا اور اس وقت تک میری بےتکلفی بھی نہیں تھی۔ وارث کے کئی مضامین قلمی نام ابن الحسین کے نام سے شائع ہو چکے تھے۔ مگر بیدی وارث کو ترقی پسندی کے عروج کے زمانے سے جانتے تھے۔ ہم سب دیر تک بیئر پیتے رہے۔ بیدی کھانا کھاکر کچھ دیر کے لیے سو گئے اور پھر چلے گئے۔ وارث بھی چلا گیا مگر دوسرے دن پھر بوتلیں لے کر آ گیا۔ اس بار ہم کھانے کے بعد بھی پیتے رہے۔ پھر وہ سو گیا اور میں پیتا اور پڑھتا رہا۔

    شام ہو گئی اور وہ سال کی آخری شام یعنی ۳۱ دسمبر کی شام تھی۔ میرے ایک دوست محمود چھابڑا مجھے بلانے آئے، اس لیے کہ جاں نثار اختر نے مجھے نئے سال کی رات گزارنے کے لیے بلایا تھا۔ ہم لوگ وارث کو اسٹیشن چھوڑنے گئے تھے۔ وہ پہلی بار ایئرکنڈیشن درجے میں سفر کر رہا تھا۔ میں نے اس لیے ذکر کیا کہ اس کا فنکار تیسرے درجے کا مسافر ہے اور ناقد ایک بار سہی مگر اعلیٰ درجے میں سفر کر رہا تھا۔ ویسے وارث ہوائی جہاز سے بھی سفر کر چکا ہے۔ بیچارہ فنکار جس کا سفر تیسرے درجے ہی میں ہمیشہ رہےگا۔

    (۳) 
    وارث سے میری خط وکتابت کا آغاز ۱۹۷۴ء کے اگست میں ہوا۔ میں نے اس سے بیدی کی کہانیوں پر مضمون لکھنے کی فرمائش کی مگر اس نے وعدہ کرکے پورا نہیں کیا۔ پھر میں نے اس سے آل احمد سرور کی دو تنقیدی کتابوں پر مضمون لکھنے کی درخواست کی۔ اس نے میری خواہش پوری کی۔ اظہار کی پہلی کتاب میں اس کاتبصرہ شائع ہوا مگرمیں نے اس کے نیچے ایک جملہ لکھ دیا تھا (ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے) اسے یہ اچھا نہیں لگا۔ اس لیے آئندہ مضمون لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ ابھی ہماری کاغذی گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ایمرجنسی نافذ ہو گئی اور’’گفتگو‘‘ میں وارث اور میرے بارے میں کچھ اس انداز سے لکھا گیا کہ پڑھنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم لوگ سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔

    میں نے اس بار بھی وارث کو لکھا۔ اس نے میری درخواست قبول کر لی۔ ’’ترقی پسند گفتگو‘‘ لکھ کر بھیجا۔ اس کے علاوہ فنکار کی علاحدگی کے مسئلہ پر بھی ایک مضمون بھیجا۔ ’’اے پیارے لوگو! تم دور کیوں ہو؟ ‘‘ یہ وارث کے مضامین ہی کی برکت تھی۔ ’’اظہار۲‘‘ نہایت مقبول ہوا اور ترقی پسندوں کا حکمراں حلقہ ہم سے بےحد خفا ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اورنگ آباد کے ایک پرچے کو صرف اس لیے بند کر دیا گیا کہ اس میں وارث نے فناٹیسزم (FANATICISM) کی شدید مخالفت کی تھی۔ شاید ادبی صحافت میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی پرچہ کسی ناقد کے ایک مضمون کی وجہ سے بند کیا گیا ہو۔ وارث نے اس کے خلاف ایک مضمون ’’نشانات‘‘ (مالےگا نو) میں بھیجا لیکن وہ واپس کر دیا گیا۔ میں اسے ’’اظہار‘‘ میں شائع کرنا چاہتا تھا مگر’’اظہار‘‘ تو سال میں ایک بار شائع ہوتا ہے اور پھروارث کا ایک دم سے دل اچاٹ ہو گیا۔ وہ ان دنوں بار بار خطوط میں لکھتا رہا کہ میں اب پھر خاموشی اختیار کر لوں گا۔ وہ ہماری زندگی کے تاریک ترین دن تھے۔

    ہماری کاغذی ملاقاتوں نے اتنی شدت اختیار کر لی تھی کہ اگر ہر ہفتہ اس کا خط نہ آتا تو میں اسے تار دیتا تھا اور پھر جامعہ ملیہ میں ایک سیمینار منعقد ہوا اور ہم پھر ایک بار ملے۔ اس بار ہم دونوں ایک ہی کمرے میں ٹھہرے تھے مگر ساتھ ٹھہرنے کے باوجود ہم ایک دوسرے سے زیادہ باتیں نہ کر سکے اس لیے کہ ’’احباب کا حلقہ‘‘ ہمیں گھیرے رہتا تھا اور ہمارے کمرے میں تین راتیں صبح تک محفلیں جمی رہی تھیں۔ اس سیمینار میں وارث چھا سا گیا تھا۔ اس نے اکثر مضامین پر نہایت وزنی تنقیدیں کیں مگر اپنا مقالہ مختصر کرنے کی دھن میں توازن کھو بیٹھا۔ دیوندر ستھیارتھی نے بلا وجہ اس کی تقریر کو دو بار روک کر اعتراضات کیے اور مین را تو آپے سے باہر ہو گئے کہ وارث نے اردو میں ناول کے وجود سے انکار کیا تھا۔ حیرت تو یہ تھی کہ راجندر سنگھ بیدی اور قرۃ العین حیدر اس کی ہم نوائی کر رہے تھے۔

    اس شام اس کا موڈ خاصا خراب تھا۔ میں نے اسے خوش کرنے کے لیے کہا کہ سیمینار تو ایک طرح کا سرکس ہے مگر تم نے رسی توڑی اور اس کے ساتھ اپنی سائیکل بھی توڑ دی۔ میرا مطلب تھا کہ ’’مسخرا‘‘ اگر لوگوں کو خوش نہیں کر سکتا تو پبلک ناراض ہو جاتی ہے۔ مگر وارث نے میرے مزاحیہ جملوں کی پروا نہ کی اور پوری شام بجھا بجھا رہا۔ دوسرے دن ہم اس کمرے سے الگ الگ جگہوں پر چلے گئے مگر شام کو اتفاقیہ ملاقات ہو گئی اور پھر پہلی بار وارث مست ہو گیا اور مجھے اسے لاد کر اپنے کمرے پر لے جانا پڑا۔ میری دو پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور ابھی اچھی طرح جڑی نہیں تھیں اور ہم ایک سڑک کے پل پر بیٹھے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس ’’تن نازک‘‘ کو کیسے لے جاؤں گا مگر کسی نہ کسی طرح ’ناتواں ‘ اسے گھسیٹ گھسیٹ کر اپنے کمرے تک لے گیا۔ صبح وہ مجھ سے خوش بھی تھا اور شرمندہ بھی۔ وہ بغیر ناشتہ کیے رخصت ہوا اور پھر ہم دہلی میں نہ مل سکے۔

    مجھے وارث سے ملنے کی سب سے زیادہ خوشی اودھے پور میں ہوئی۔ اسے علم تھا کہ میں اپنے بھائی شبر مہدی کے پاس ٹھہر اہواہوں اور وہ مجھے ڈھونڈتا اس وقت پہنچا جب کہ میں بہ قول جو ش طلوع ہو چکا تھا اور ہم اس طرح ملے جیسے کہ بچھڑے ہوئے محبوب! کیا واقعی ہمارے بنیادی ادبی اختلا فات ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتے ہیں؟ یا ہم ایک دوسرے میں اپنی کمیاں تلاش کرتے ہیں؟ یا ہم دونوں تنہا ہیں اور ایک دوسرے میں اپنا ہم زاد ڈھونڈتے ہیں۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ جب ۹ نومبر ۱۹۷۶ء کو اودھے پور سے احمدآباد کے لیے ایک معمولی سی بس میں سفر کر رہے تھے تو ہم بس میں نہیں تھے۔ سات گھنٹے کا بورنگ سفر باتوں میں گزر گیا کہ جب ہم احمدآباد پہنچے تو تکان کا احساس ہی نہیں تھا۔ اتنی باتوں کے باوجود ہم ایک دوسرے کے لیے ’’پرانے‘‘ نہیں ہوئے تھے اور پھر میں نے اس کی پرانی حویلی دیکھی۔

    میں تین دن اس کے ساتھ رہا۔ اس کی تینوں لڑکیوں سے بھی کچھ کچھ گفتگو کی مگر وہ بس والی بات کہاں۔ اس کا عالیشان پرانا مکان، مسجد اور قبرستان کے بیچ میں ہے۔ اب یہاں برائے نام ہی رہ گئی ہیں مگر نشانات باقی ہیں۔ مجھے اس کے گھر میں وہی گھٹن کا احساس ہوا جس کا تجربہ میں اپنے وطن ردولی میں کر چکا ہوں۔ اس کے کمروں میں ہر طرف کتابوں کی الماریاں ہیں۔ آخر تین زبانوں کا استادرہ چکا ہے وارث۔ اردو، فارسی اور انگریزی اور پھر گجراتی کا ڈرامانگار ہے۔ ناشتہ اور کھانا نوابی رنگ کا۔ جدید ادب پر کتابوں کے باوجود ہر طرف دقیانوسیت کی فضا تھی اور میں اس کی جوان بیٹیوں کے سامنے بے تکلفی سے گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔

    اسی لیے عادل منصوری اور محمدعلوی کی پارٹیوں میں بالکل خاموش رہا ایسا کہ وارث کو اچھا نہیں لگا۔ مگر مجھ پر احمدآباد کی گھٹن چھا چکی تھی۔ میں کیا ہنستا کیا بولتا۔ الماری میں کتابوں کو دیکھتا رہا۔ ہاں میرے کام کی بہت کم کتابیں تھیں یعنی ریڈیکل ادب، عمرانیات وغیرہ پراس کے پاس بہت کتابیں نہیں تھیں مگر مجھے اس کا پودوں سے عشق پسند آیا۔ وہ لنگی پہنے بڑے پیار سے پودوں کو پانی دیتا تھا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ اپنے مضامین کی آبیاری کر رہا ہے اور یہاں میری اس کی دوستی نے کئی خاموش منزلیں طے کیں اور اس کے ساتھ یہ بھی ڈر لگا کہ اگر مجھے اس شہرمیں رہنا پڑا تو۔۔۔ تو شاید ہماری دوستی اتنی گہری نہ رہے، اس لیے کہ کچھ دوستیاں دوری کی وجہ سے بھی پروان چڑھتی ہیں۔ یہی دیکھئے کہ میں فخریہ کہتا ہوں کہ بیدی میرے قریبی دوست ہیں مگر ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی میری بیدی سے سال میں تین چار بار ہی ملاقات ہوتی ہے اور اگر ہم روز ملیں تو۔۔۔ تو شاید کچھ عرصے کے بعد ہم الگ ہو جائیں۔ میں نے کم عمری میں ایک شعر کہا تھا،

    ملتے ملتے یوں ہی بےگانے سے ہو جائیں گے 
    دیکھتے دیکھتے کھو جائیں گی ساری باتیں

    پھروارث ۲۰ مارچ ۱۹۷۷ء کی شام بمبئی آیا۔ میرے ہی ساتھ ٹھہرا۔ اس بار بھی کافی باتیں ہوئیں مگر وہی تشنگی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو برابر پہچاننے، پرکھنے اور ایک دوسرے کے آر پار دیکھنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ ۲۲ مارچ کی شام ’’اظہار‘‘ کا ایک جلسہ محمود چھابڑا کے مکان پر ہوا اور وارث نے میرے مشورے کو رد کرکے ایک طویل مضمون کا اقتباس سنایا۔ میری خواہش تھی کہ وہ اپنا طویل مقالہ ’’تیسرے درجے کا مسافر‘‘ پڑھے مگر اس نے منظور نہیں کیا۔ جلسے میں بڑی گرماگرم بحث ہوئی۔ تقریباً سب نے سخت اعتراضات کئے۔ فضیل جعفری کی رائے خاصی متوازن تھی۔ اتنی سخت بحث کا وارث پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔ آج اس جلسے کا ذکر کرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ اگر میرے کسی مضمون پر اتنی سخت تنقید ہوتی تو کیا میرا موڈ کئی روز خراب نہ رہتا مگر وارث کو اپنے اوپر بےحد اعتماد ہے۔ وہ غیر کے آزمانے پر کیوں بپھرنے لگا۔

    اس نے احمدآباد پہنچ کر مجھے لکھا کہ میں نے اس شام کا ذکر اپنے گھر والوں سے کیا توسب بہت ہنسے۔ مطلب یہ تھا کہ ساری تلخ بحث لب ولہجے کی ہے، ذرا الفاظ کی ترتیب بدلی اور آواز میں تمسخر پیدا کیا کہ ساری تلخی قہقہوں میں ڈھل گئی۔۔۔ اس کے بعد سے پھر کاغذی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب ہمارے تعلقات میں ابتدا کی شدت نہ تھی۔ ہم ایک دوسرے کو اب بھی یاد کرتے ہیں مگر ہماری دوستی کچھ پختہ ہو چکی ہے۔ پھر بھی نوک جھونک کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہم ایک دوسرے کو ہم خیال نہیں بنا سکتے، اس لیے کہ ہماری راہیں بالکل مختلف سمتوں میں ہیں اور شاید اسی لیے ہم ایک دوسرے کے لیے تھوڑی بہت کشش رکھتے ہیں اور شاید اسی کشش (آگ) کا نام دوستی ہے۔ کیوں ہے ناشیفتہ!


    حاشیہ
    (۱) اس کے باوجود وارث کے سردار جعفری اور گوپال متل دونوں سے اچھے مراسم ہیں اور قمررئیس سے تو اس کی خط وکتابت ہے۔

     

    مأخذ:

    تنقیدی کشمکش (Pg. 215)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: خیاباں پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے