رفیع احمد خاں
نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جاتا ہے
رفیع احمد خاں ایم۔ اے۔ مجھ سے اس قدر قریب ہیں کہ میں ان کو دیکھنے سے قاصر ہوں۔ ان کے معائب محاسن اور محاسن معائب نظر آتے ہیں۔ مثلاً ان کی ذہانت، اور ان کی بلا کی حاضر جوابی پر غصہ آتا ہے کہ یہ شخص اتنا بلند ہو کر اس پستی میں زندہ رہنا کیوں گوارا کئے ہوئے ہے۔ خودکشی کیوں نہیں کر لیتا۔ کسی کو قتل کر کے پھانسی پر کیوں نہیں چڑھ جاتا۔ لڑائی میں جاکر رنگروٹ کیوں نہیں بن جاتا۔ کو آپریٹو سوسائیٹیز میں ہیڈ اسسٹنٹ کیوں بنا ہوا ہے۔ ان کے چاندنی اور اندھیری راتوں کے مشاغل پر دل خوش ہوتا ہے کہ ضرور اس مظلوم کو فطرت سے اسی طرح انتقام لینا چاہئے۔ فطرت اس کو پیس ڈالنا چاہتی ہے مگر وہ ٹھٹھے لگاتا ہے۔ قہقہے بلند کرتا ہے۔ تقدیر کو منھ چڑھاتا ہے اور منھ چڑھا چڑھا کر ایک شریر لڑکے کی طرح دور جاکر ہنستا ہے۔ پھر منھ چڑھاتا ہے اور پھر دُور بھاگ کر ہنستا ہے۔
میں نے بہت سے ذہین آدمی دیکھے ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے جاہلوں اور عالموں سے سابقہ رہا ہے، بڑے بڑے حاضر جوابوں کے کمالات دیکھ چکا ہوں۔ مگر رفیع احمد خاں اپنا جواب خود ہیں۔ انگریزی میں ایک متبحر صاحب قلم، اردو میں ایک جادو بیان شاعر۔ جادو یہ ہے کہ کلام نظر نہیں آتا، مگر خدا کی قسم بے پناہ کہتے ہیں۔ ایسا کہتے ہیں کہ خود ان کا ایک شعر سن کر علامہ اقبال نے مجھ سے کہا تھا کہ خیریت یہ ہوئی کہ یہ شخص اپنے مخصوص رنگ میں اپنی ذہانت صرف کر رہا ہے۔ اگر سنجیدگی کی طرف مائل ہو جاتا تو بہت سے شاعروں کا پتہ نہ چلتا کہ کیا ہوئے۔ نقاد اس قیامت کا کہ بڑے بڑے لوہا مانتے ہیں۔ حضرت جوش ملیح آبادی کے پہلے دیوان کے مقدّمہ نگار رفیع احمد خاں ہی ہیں۔
زندگی کا صرف ایک اصول ہے یعنی بے اصولی۔ نہ کوئی سونے کا وقت، نہ بیداری کا کوئی پروگرام۔ تاش کھیلنے بیٹھے تو دو دو دن شب و روز جمے ہوئے ہیں۔ پیر میں گاؤٹ کا درد ہے، کباب کھا رہے ہیں اور تاش بانٹ رہے ہیں۔ بخار میں ہانپ رہے ہیں مگر مصرع طرح دے دیجئے،
پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
ایک ایک قہقہ بر دوش۔ توبہ کرا دینے والا شعر استادی کے سانچے میں ڈھلا ہوا سننے کو مل جائے گا۔ یہ اشعار کہیں لکھے نہیں جاتے، نہ چھپ سکتے ہیں، نہ با تکلف لوگوں کو سناۓ جا سکتے ہیں۔ مگر علم سینہ بن کر حافظوں میں محفوظ رہ جاتے ہیں اور بڑے بڑے شاعران ہی شرمناک اشعار کو اپنے نام سے منسوب کر کے لوگوں کو سناتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
میں ان کا عزیز ترین دوست ہوں، بے حد گستاخ اور بے حد بے تکلف۔ لوگ کہتے ہیں کہ رفیع احمد خاں کی نکیل شوکت کے ہاتھ میں ہے اور رفیع احمد خاں خود فرماتے ہیں کہ میرے کلام کی سب سے زیادہ تشہیر شوکت نے کی ہے۔ میں نے ان سے بارہا کہا ہے کہ تم آخر سنجیدگی کے ساتھ شاعری کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے۔ جواب ہمیشہ یہی ملتا ہے کہ جس کو تم سب غیر سنجیدگی کہہ رہے ہو میرے نزدیک وہی سنجیدگی ہے۔ میں شعرمیں دل اور جگر کہہ کر جھوٹ بولنا نہیں چاہتا۔ ان پردوں کی میری راۓ میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بات کھری کھری کیوں نہ کہی جائے۔ ان کو امید ہے کہ وہ دن قریب ہے جب ان کا کلام کورس کی کتابوں میں شامل ہو کر داخل نصاب ہو جائے گا۔
بذلہ سنجی اور حاضر جوابی میں ان کو مات کھاتے ہوئے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ نہایت متین چہرہ بنا کر ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ دھوتے دھوتے نہ چھوٹے۔ کیسی ہی تکلیف ہو، دل پر جو عالم بھی گذر رہا ہو مگر رفیع احمد خاں کی زندگی پر مردنی کبھی نہیں چھا سکتی۔ حال ہی میں آپ کی ان خالہ صاحبہ محترمہ کا انتقال ہوا جنہوں نے اولاد کی طرح آپ کو پالا تھا۔ مجھے اطلاع ہوئی، میں جنازہ میں شرکت کے لئے فوراً پہنچا۔ رفیع احمد خاں خلاف معمول چہرہ لٹکائے نظر آئے مگر مجھے دیکھتے ہی علیحدہ لے گئے اور ہاتھ جوڑ کر کہا، بھائی اس مصیبت کے وقت ایک احسان مجھ پر یہ کرو کہ تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ میں حیران تھا کہ کیا ماجرا ہے۔ کہنے لگے، خدا کی قسم ہنسی آجائے گی اور لوگ کہیں گے کہ دیکھو اس درندے کو کہ موت پر ہنس رہا ہے۔ پھر میں نے لاکھ لاکھ نہ ہنسنے کا وعدہ کیا۔ مگر توبہ کیجئے، جب تک مجھ کو وہاں سے واپس نہیں کیا برابر میرے سر رہے کہ خدا کے لئے چلے جاؤ یا میں خود کہیں چلا جاتا ہوں۔
کافی عمر آ چکی ہے۔ بظاہر صاحب اولاد نہیں ہیں لیکن اس کا بھی غم نہیں۔ کہتے ہیں کہ خدا ایک در بند کرتا ہے تو ہزار کھول دیتا ہے۔ بیماریوں نے قبل از وقت بوڑھا ضرور کر دیا ہے مگر پوپلے منھ میں قہقہوں اور تبسموں کی آج بھی کوئی کمی نہیں۔ کیا کوئی نوجوان اس قدر زندہ ہوگا جس قدر یہ جوانی کی حدوں سے گذرا ہوا انسان زندہ اور شگفتہ ہے۔
واقع ہوئے ہیں آپ پٹھان، مگر طبیعت پائی ہے لطافت پسند۔ پٹھنوری کا یہ عالم ہے کہ چاقو سے لے کر بندوق تک سب ہی کچھ رکھتے ہیں اور لطافت پسندی کی انتہا یہ کہ پٹھان ہوتے ہوئے بھی بغیر خلال کئے گوشت نہیں کھا سکتے۔ دسترخوان پر خلالوں کا ڈبہ ہونا ضروری ہے۔ شکار سے بھی شوق ہے اور شاعری سے بھی، پھر بھی بیکار آدمیوں میں نہیں ہیں۔ بلکہ ذمہ داریاں تو اتنی اوڑھ رکھی ہیں کہ ایمانداری کے ساتھ کوئی وعدہ کرنے کے باوجود اپنے فرائض کی کثرت میں گم ہو کر ایفا کو بھول جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وعدہ ہے کہ شام کو پانچ بجے کسی پارٹی میں ساتھ ہی چلیں گے۔ تیسرے دن پتہ یہ چلے گا کہ خلق اقد کو فائدہ پہنچانے کے لئے آپ شکار پر چلے گئے تھے۔ اور وہاں چونکہ شکار نہیں ملا، لہٰذا تاش کا کوئی ایسا کھیل شروع ہو گیا جو آج تیسرے دن ختم ہوا ہے۔ اب بتائیے کہ ان کے فرائض کا کیا علاج ہے اور وعدہ خلافی میں خاں صاحب کا کیا قصور ہو سکتا ہے۔ جو دوست ہیں وہ اس جادوگر سے لڑ نہیں سکتے، روٹھ نہیں سکتے، بائکاٹ نہیں کر سکتے۔ پکا ارادہ کر لیا ہے کہ اب خاں صاحب کی ناز برداری ختم۔ وہ ہماری پروا نہیں کرتے تو ہم ان کی کیوں پروا کریں۔ اُن کی طرف جائیں گے توبھی ان کے گھر کا رخ نہیں کریں گے۔ ان کے سلام کا جواب تک نہ دیں گے۔ ارادہ کر ہی رہے تھے کہ دیکھتے کیا ہیں کہ سامنے سے خاں صاحب چلے آ رہے ہیں۔ اڑا۔۔۔ ڑا۔۔۔ ڑا۔۔۔ دھم!
سارا قلعہ مسمار ہو گیا۔ دوڑ کر لپٹ گئے۔ پھر وہی ہاہا ہوہو۔ قہقہے لگ رہے ہیں، قوالیاں ہو رہی ہیں۔ پکّے گانے گائے جا رہے ہیں، کچے شعر پڑھے جا رہے ہیں۔ نقلیں ہو رہی ہیں کہ یکایک کوئی صاحب تشریف لائے۔ خاں صاحب سے کسی علمی مَسْئَلَہ پر تبادلہ خیال کرنے۔ خاں صاحب ایک دم ٹھوس علمی آدمی بن گئے۔ ان کے جاتے ہی پھر منھ سے پھول اور چہرہ سے ٹھیکرے برسنے لگے۔ ایک مستقل انجمن، ایک سراپا مسرت۔ ایک مجسم زندگی، ایک مسلسل ہنگامہ۔ کاش ایسے لوگ دنیا میں چند اور بھی ہوتے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.