میرے شفیق ولی کو میر اسلام پہنچے۔ کل ، ”انشا“ کا پارسل پہنچا اور آج خط ”انشا“کا نام”بہارستان“اور اب آپ کا تخلص سرور ”بہارستان“مضاف اور ”سرور “مضاف الیہ ”بہارستان سرور“اچھا نام ہے۔
قطعے کا وعدہ نہیں کرتا۔ کس واسطے کہ اگر بے وعدہ پہنچ جائے گا تو لطف زیادہ دے گا اور اگر نہ پہنچے گا تو محل شکایت نہ ہوگا۔
رفع فتنہ و فساد اور بلاد (۱)میں مسلم، یہاں کوئی طرح آسائش کی نہیں ہے۔ اہل دہلی عموما برے ٹھہر گئے۔ یہ داغ ان کی جبین حال سے مٹ نہیں سکتا۔ میں اموات میں ہوں مردہ شعر کیا کہے گا؟ غزل کا ڈھنگ بھول گیا معشوق کسی کو قرار دوں جو غزل کی روش ضمیر میں آوے؟ رہا قصیدہ ، محمدوح کون ہے؟ ہائے انوری گویا میری زبان سے کہتا ہے،
اے دریغا نیست ممدوحے سزاوار مدیح
اے دریغا نیست معشوقے سزاوار غزل
گورنمنٹ کے دربار میں ہمیشہ سے میری طرف سے قصیدہ نذر گزرتا ہے، اشرفیاں نہیں اور خلعت ، ریاست دودمانی کا سات پارچه اور تین رقم جیغہ سر پیچ ، مالائے مروارید مجھ کو ملا کرتا ہے۔ اب نواب گورنر جنرل بہادر یہاں آتے ہیں۔ دربار میں بلائے جانے کی توقع نہیں، پھر کس دل سے قصیدہ لکھوں؟ صناعت شعر اعضا و جوارح کا کام نہیں ، دل چاہئے ، دماغ چاہئے، ذوق چاہئے ، اُمنگ چاہئے۔ یہ سامان کہاں سے لاؤں جو شعر کہوں؟ معہذا کیوں کہوں؟ چونسٹھ
برس کی عمر، ولولۂ شباب کہاں؟ رعایت فن ، اس کے اسباب کہاں؟ انا لله وانا اليه راجعون یہاں سے خطاب حضرت صاحب عالم کی طرف ہے۔
پیرو مرشد کو سلام نیاز پہنچے۔ ”کف الخضیب“ صور جنوبی میں سے ایک صورت ہے،
اس کے طلوع کا حال مجھ کو کچھ معلوم نہیں۔ اختر شناسان ہند کو اس کا کچھ حال معلوم نہیں اور ان کی زبان میں اس کا نام بھی یقین ہے کہ نہ ہوگا۔ قبول دعا وقت طلوع منجملہ مضامین شعری ہے۔جیسے کتاں(۲) کا پر تو ماہ (۳) میں پھٹ جانا اور زمرد سے افعی (۴) کا اندھا ہو جانا۔ آصف الدولہ نے افعی تلاش کر کر منگوایا اور قطعات زمرد اس کے محاذی چشم رکھے۔ کچھ اثر ظاہر نہ ہوا۔ ایران وروم فرنگ سے انواع کپڑے منگوائے۔ چاندنی میں پھیلائے کوئی مسکا بھی نہیں۔
تحویل آفتاب یہ حمل کے اب میں موٹی بات یہ ہے کہ بائیس مارچ کو واقع ہوتی ہےکبھی اکیس کبھی تئیس بھی آ پڑتی ہے، اس سے تجاوز نہیں رہا۔ طالع وقت تحویل درست کرنا ہے کتب فن اور مبلغ علم ممکن نہیں۔ میرے پاس یہ دونوں باتیں نہیں،
نه دانم که گیتی چساں می رود
چه نیک و چه بد در جہاں می رود
میں تو اب روز و شب اس فکر میں ہوں کہ زندگی تو یوں گزاری۔ اب دیکھئے موت کیسی ہو،
عمر بھر دیکھا کیا مرنے کی راہ
مر گئے دیکھیے دکھلائیں کیا
میرا ہی شعر ہے اور میرے ہی حسب حال ہے۔
سکے کا وار تو مجھ پر ایسا چلا جیسے کوئی چھرایا کوئی گراب (۴)کس سے کہوں؟ کس کو گواہ لاؤں؟ یہ دونوں سکے ایک وقت میں کہے گئے ہیں یعنی جب بہادر شاہ تخت پر بیٹھے تو ذوق نے یہ دو کہہ کر گزرانے ، پادشاہ نے پسند کئے۔ مولوی محمد باقر ، جو ذوق کے معتقدین میں تھے، انہوں نے ”دلی اردو اخبار“ میں یہ دونوں سکے چھاپے۔ اس سے علاوہ اب وہ لوگ موجود ہیں کہ جنہوں نے اس زمانے میں مرشد آباد اور کلکتے میں یہ سکے بنے ہیں اور ان کو یاد ہیں۔ اب یہ دونوں سکے سرکار کے نزدیک میرے کہے ہوئے اور گزارے ہوئے ثابت ہوئے ہیں میں نے ہر چند قلم رو ہند میں
”دلی اردو اخبار“ کا پرچہ ڈھونڈا کہیں ہاتھ نہ آیا۔ یہ دھبا مجھ پر رہا۔ پنسن بھی گئی اور وہ ریاست کا نام و نشان خلعت و در بار بھی مٹا۔ خیر جو کچھ ہوا چوں کہ موافق رضائے الہی کے ہے اس کا گلہ کیا۔ شعر،
چوں جنبش سپہر بہ فرمان داورست
بیداد نبود آنچه بما آسماں دہر
یہ تحریر به طریق حکایت ہے نہ بہ سبیل شکایت۔
”گویند“ از ابوالحسن خرقانی رحمتہ الله علیه پرسش رفت که چه حال داری؟ فرمود: کدام حال خواهد بود کسی را که خدا از وی فرض طلبد و پیمبر سنت وزن نان خواهد و ملک الموت جان قصہ مختصر اب زیست به امید مرگ ہے۔
”قاطع برہان“ چودھری صاحب کی نثر کے اجزا کے ساتھ بھیجا جائے گا۔ یہ مقابلہ ”برہان قاطع“، منطبع (۶) دیکھا جائے اور بے حیف و بے میل از راہ انصاف دیکھا جائے۔ مرشد زادوں کو سلام مسنون اور دعائے افزونی عمر و دولت پہنچے۔
اکتوبر یا نومبر ۱۸۵۹ء
(۱) بلاد: بلد کی جمع شہر۔
(۲) کتاں: ریشمی کپڑا۔
(۳) پر توے ماہ: چاندنی۔
(۴) افعی: سانپ۔
(۵) گراب: بڑا چاقو۔
(۶) منطبع: جو چیز چھپ رہی ہو/ نقش پذیر۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.