Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام چودھری عبد الغفور سرور (۳)

مرزا غالب

بنام چودھری عبد الغفور سرور (۳)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    میرے مشفق چودھری عبدالغفور صاحب اپنے خط اور قصیدہ بھیجنے کا مجھ کو شکر گزار اور قصیدۂ سابق کی اب تک اصلاح نہ پانے سے شرمسار تصور فرمائیں اور ان دونوں قصیدوں کے باہم پہنچنے کا انتظار کریں:

    پہلے کچھ باتیں کہ بادی النظر (۱) میں خارج از مبحث معلوم ہوں گی لکھی جاتی ہیں میں پانچ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا، نو برس کا تھا کہ چچا مرا، اس کی جاگیر کے عوض میری اور میرے شرکائے حقیقی کے واسطے شامل جا گیر نواب احمد بخش خاں دس ہزار روپیے سال مقرر ہوئے۔

    انہوں نے نہ دیے مگر تین ہزار روپیے سال، اس میں سے خاص میری ذات کا حصہ ساڑھے سات سو روپیے سال۔ میں نے سرکار انگریزی میں یہ غبن ظاہر کیا۔ کولبرک صاحب بہادر رزیڈنٹ دہلی اور استر لنگ صاحب بہادر سکرتر گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے میرا حق دلانے پر، رزیڈنٹ معزول ہو گئے سکرتر به مرگ ناگاہ مر گئے۔ بعد ایک زمانے کے پادشاہ دہلی نے پچاس روپیے مہینہ مقرر کیا، ان کے ولی عہد نے چار سو روپیے سال۔ ولی عہد اس تقرر کے دو برس کے بعد مر گئے۔ واجد علی شاہ پادشاہ اودھ کی سرکار سے بہ صلہ مدح گستری پان سو روپیے سال مقرر ہوئے۔ وہ بھی دو برس سے زیادہ نہ جیے۔ یعنی اگر چہ اب تک جیتے ہیں، مگر سلطنت جاتی رہی اور تباہی سلطنت دو ہی برس میں ہوئی۔ ولی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی، سات برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی۔

    ایسے طالع مربی کش اور حسن سوز کہاں پیدا ہوتے ہیں؟ اب میں جو والی دکن کی طرف رجوع کروں یا د ر ہے کہ متوسط (۲) یا مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا اور اگر یہ دونوں امر واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کی ضائع جائے گی اور والی شہر مجھ کو کچھ نہ دے گا اور احیاناً (۳) اگر اس نے سلوک کیا تو ریاست خاک میں مل جائے گی اور ملک میں گدھے کے بل پھر جائیں گے۔ اے خداوند بندہ پرور، یہ سب باتیں وقوعی اور واقعی ہیں، اگر ان سے قطع نظر کر کے قصیدے کا قصد کروں، قصد تو میں کر سکتا ہوں، تمام کون کرے گا؟ سوائے ایک ملکہ کے کہ وہ پچاس پچپن برس کی مشق کا نتیجہ ہے، کوئی قوت باقی نہیں رہی۔ کبھی جو سابق کی اپنی نظم و نثر دیکھتا ہوں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ تحریر میری ہے مگر حیران رہتا ہوں کہ میں نے یہ نثر کیوں کر لکھی تھی اور کیوں کر یہ شعر کہے تھے: عبد القادر بیدل کا یہ مصرع گویا میری زبان سے ہے،

    عالم همه افسانهٔ ما دارد و ما ہیچ

    پایان عمر (۴) ہے، دل و دماغ جواب دے چکے ہیں۔ سور و پیے رام پور کے ساٹھ روپیے، پنسن کے روٹی کھانے کو بہت ہیں۔ گرانی اور ارزانی امور عامہ میں سے ہے۔ دنیا کے کام خوش و نا خوش چلے جاتے ہیں۔ قافلے کے قافلے آمادہ رحیل (۵) ہیں۔ دیکھو منشی نبی بخش مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ ماه گذشتہ میں گزر گئے۔ مجھ میں قصیدے کے لکھنے کی قوت کہاں؟ اگر ارادہ کروں تو فرصت کہاں؟ قصیدہ لکھوں، آپ کے پاس بھیجوں، آپ دکن کو بھیجیں۔ متوسط کب پیش کرنے کا موقع پائے؟ پیش کیے پر کیا پیش آئے؟ ان مراحل کے طے ہونے تک میں کیوں کر جیوں گا؟

    نومبر ۱۸۶۰ء

    (۱) بادی النظر: ظاہری طور پر۔

    (۲) متوسط: بیچ کا وسیلہ

    (۳) احیاناً: گا ہے گا ہے / اتفاقاً۔

    (۴) پایانهٔ عمر: عمر کا آخر

    (۵) آمادہ رحیل: کوچ کے لیے تیار۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے