Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام هرگوپال تفته

مرزا غالب

بنام هرگوپال تفته

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    صاحب!

    تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے اور کیا واقع ہوا؟ وہ ایک جنم تھا کہ جس میں ہم تم با ہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے، دیوان جمع کئے، اس زمانے میں ایک بزرگ تھے کہ وہ و ہمارے تمہارے دوست دلی تھے اور منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر تخلص تھا۔ ناگاہ نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ معاملات، نہ وہ اختلاط، نہ وہ انبساط، بعد چند مدت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگر چہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی نبی بخش صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب مجھ کو آیا اور ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم به منشی ہر گوپال اور متخلص بہ تفتہ ہو، آج آیا اور میں جس شہر میں ہوں اس کا نام بھی دلی اور اس محلے کا نام بلی ماروں کا محلہ ہے، لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں سے نہیں پایا جاتا۔ واللہ ڈھونڈھنے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب، کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہنود البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

    اب پوچھو تو کیوں کر مسکن قدیم میں بیٹھا رہا ؟ صاحب بندہ میں حکیم محمد حسن خاں مرحوم کے مکان میں نو دس برس سے کرایہ کو رہتا ہوں اور یہاں قریب کیا دیوار بہ دیوار ہیں گھر حکیموں کے اور وہ نوکر ہیں را جا نر ندر سنگھ بہادر والی پٹیالہ کے۔ راجا صاحب نے صاحبان عالی شان سے عہد لیا تھا کہ بروقت غارت دہلی یہ لوگ بچے رہیں۔ چنانچہ بعد فتح راجا کے سپاہی یہاں آبیٹھے اور یہ کوچہ محفوظ رہا۔ ورنہ میں کہاں اور یہ شہر کہاں ! مبالغہ نہ جاننا، امیر غریب سب نکل گئے تھے۔ جو نکل نہ سکے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار، پنشن دار، دولت مند، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ہے۔ مفصل حالات لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ ملا زمان قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس (۱) اور دار و گیر (۲) میں مبتلا ہیں،

    مگر وہ نوکر جو اس ہنگام (۳) میں نوکر ہوئے ہیں اور ہنگامے میں شریک رہے ہیں۔ میں غریب شاعر، دس برس سے تاریخ لکھتے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہ ہی اس کو نوکری سمجھو، خواہ ہی مزدوری جانو۔ اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے، مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی۔ لہذا طلبی نہیں ہوئی۔ ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیردار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آتے ہیں، میری کیا حقیقت تھی۔ غرض اپنے مکان میں بیٹھا ہوں دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے (۴) جاتے ہیں۔ جرنیلی بند و بست یاز دہم (۵)مئی سے آج تک یعنی شنبه پنجم دسمبر ۱۸۵۷ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال معلوم نہیں، بلکہ ہنوز ایسے امور کی طرف حکام کو توجہ بھی نہیں دیکھئے، انجام کا ر کیا ہوتا ہے۔ یہاں باہر سے اندر کوئی بغیر ٹکٹ کے آنے جانے نہیں پاتا۔ تم زنہار (۶) یہاں کا ارادہ نہ کرنا۔ ابھی دیکھا چاہیے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ بہر حال منشی صاحب کو میرا سلام کہنا اور یہ خط دکھا دینا۔ اس وقت تمہارا خط پہنچا اور اسی وقت میں نے یہ خط لکھ کر ڈاک کے ہرکارے کو دے دیا۔

    شنبه ۵ دسمبر ۱۸۵۷ء

    (۱) باز پرس: پوچھ گجھ۔

    (۲) دارو گیر: پکڑ دھکڑ۔

    (۳) ہنگام: وقت۔

    (۴) سیاست پانا: سزا پانا۔

    (۵) یازدہم: گیارہ۔

    (۶) زنہار: ہرگز۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے