بنام خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (۳)
مولانا!
بندگی۔ آج صبح کے وقت شوق دیدار میں بے اختیار، نہ ریل، نہ ڈاک، تو سن (۱) ہمت پر سوار چل دیا ہوں جانتا ہوں کہ تم تک پہنچ جاؤں گا۔ مگر یہ نہیں جانتا کہ کہاں پہنچوں گا اور کب پہنچوں گا۔ اتنا بے خود ہوں کہ جب تک تم اطلاع نہ دو گے، میں نہ جانوں گا کہ کہاں پہنچا اور کب پہنچا۔ آپ کا پہلا خط رام پور سے دلی آیا۔ میں راہ میں تھا۔ پھر دلی سے خط رام پور پہنچا۔ میں وہاں بھی نہ تھا۔ خط دلی روانہ ہوا۔ اب کئی دن ہوئے کہ میں نے ڈاک سے پایا۔ اس حال میں کہ میں بیمار تھا۔ معہذ ا جاڑے کی شدت، مہاوٹ (۲) کا مہینہ، دھوپ کا پتہ نہیں، پردے چھٹے ہوئے نشیمن تاریک، آج نیر اعظم کی صورت نظر آئی۔ دھوپ میں بیٹھا ہوں، خط لکھ رہا ہوں۔ حیران ہوں کہ کیا لکھوں؟ اس خط کے مضامین اندوه فزا نے دل کو بڑا مضمحل کر دیا۔ جانتا تھا کہ خواجہ صاحب مغفور تمہارے ماموں ہیں مگر اُن کے اور تمہارے معاملات مہر وولا، جیسے کہ تمہاری تحریروں سے اب معلوم ہوئے، میرے دل نشین نہ تھے۔ ایسے محب کا فراق اور پھر بہ قید دوام کیوں کر جاں گداز نہ ہو۔ حق تعالیٰ اُن کو بخشے اور تم کو صبر دے۔
حضرت! میں بھی اب چراغ سحری ہوں۔ رجب ۱۲۸۲ھ حال کی آٹھویں تاریخ سے اکہترواں سال شروع ہو گیا۔ طاقت سلب، حواس مفقود، امراض مستولی۔ (۳)
به قول نظامی
یکے مردہ شخصم بمردی رواں
آج میں اور بھی باتیں کرتا مگر میرا خاص تراش آ گیا۔ مہینہ بھر سے حجامت نہیں بنوائی۔ خط لپیٹ کر ڈاک میں بھیجتا ہوں اور خط بنواتا ہوں۔
جنوری ۱۸۶۶ء
(۱) توسن: گھوڑا۔
(۲) مہاوٹ: سردیوں کی بارش۔
(۳) امراض مستولی: بیماری نے غلبہ پا لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.