Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام مولوی کرامت علی

مرزا غالب

بنام مولوی کرامت علی

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    فقیر اسد اللہ جناب مخدومی مولوی کرامت علی صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ آپ کی تحریر کے دیکھنے سے یاد آیا کہ آپ میرے ہاں آئے ہیں اور میں نے آپ کی ملاقات سے حظ اٹھایا ہے۔ حل معنی اشعار کی یہ صورت ہے کہ ہندی کے شعر میرے نہیں۔ شعرائے لکھنو میں سے کسی کے ہیں بلکہ اغلب ہے کہ ناسخ کے ہوں۔ اشعار فارسی البتہ میرے ہیں۔

    خواست کز ما رنجد و تقریب رنجیدن نداشت

    جرم غیر از دوست پرسیدیم و پرسیدن نداشت

    ’’داشتن‘‘ به معنی رکھنے کے ہے لیکن اہلِ زبان به معنی ’’بایستین“ بھی استعمال کرتے ہیں۔ ظہوریؔ،

    گر اسیر زلف و کاکل گفته باشم خویش را

    گفته باشم ایں قدر بر خویش پیچیدن نداشت

    میرے شعر میں پہلے مصرع کا ”داشت“ بہ معنی ”رکھنے“ کے اور دوسرے مصرع کا ”داشت“ به معنی ”بایست“ ہے۔ مفہوم شعر یہ ہے کہ دوست ایسا حیلہ ڈھونڈتا تھا کہ اس کے ذریعہ سے مجھ پر خفا ہو۔ چاہتا تھا کہ آزردہ ہو مگر سبب نہیں پاتا تھا۔ قضا را کچھ دنوں کے بعد رقیب سے معشوق کو ملال ہوا۔ میری جو شامت آئی، میں نے دوست سے پوچھا کہ رقیب نے کیا گناہ کیا جو راندہ درگاہ (۱) ہوا ؟ معشوق اسی گستاخی کو بہانہ عتاب ٹھہرا کر آزردہ ہو گیا۔ اب شاعر افسوس کرتا ہے اور کہتا ہے، ’’ہائے پرسیدن نداشت‘‘ یعنی ’’پو چھنا نہ چاہیے تھا‘‘،

    دیر خواندی سوئے خویش و زود فهمیدم دریغ

    پیش ازیں پایم زگرد راه پیچیدن نداشت

    عاشق ایک عمر تک منتظر رہا کہ یار مجھ کو بلا وے مگر اُس عیار نے نہ بلایا۔ رفتہ رفتہ میں غم سے ایساز ارونا تو اں ہو گیا کہ طاقت رفتار نہ رہی اور گر دراہ سے میرے پاؤں اُلجھنے لگے۔ جب اس نے یہ جانا کہ اب نہ آ سکے گا تب بلایا۔ عاشق کہتا ہے کہ تو نے میرے بلانے میں دیر کی اور میں اس کی وجہ جلد سمجھ گیا کہ تو نے میرے بلانے میں اس واسطے دیر کی کہ اس سے پہلے میں ایسا ضعیف نہ تھا کہ تو بلائے اور میں نہ آؤں۔’’دریغ‘‘ کو یہ نہ سمجھا جائے کہ ’’زود فہمیدن‘‘ پر ہے یا پہلے سے بیمار نہ ہونے پر ہے۔ دریغ ہے دوست کی بے وفائی اور بے سبب آزار دینے اور اپنی عمر کے تلف ہونے پر،

    ’’من بوفا مردم و رقیب بدر زد

    نیمه بش انگبین و نیمه تبرزد‘‘

    ’’انگبین‘‘ شہد کو کہتے ہیں اور تبرز د ’’مصری‘‘ کو کہتے ہیں۔ ان معنوں میں کہ یہ مانند قند اور بتاشوں کے جلد ٹوٹنے والی نہیں، جب تک اس کو تبر سے نہ تو ڑو، مدعا حاصل نہیں ہوتا۔ ’’بدر زدن‘‘ اگر چہ لغوی معنی اس کے ہیں۔ ’’با ہر مارنا‘‘ یعنی ’’بدر‘‘ ’’باہر‘‘ اور ’’زدن‘‘ مارنا لیکن روز مرہ میں اس کا ترجمہ ہے ’’نکل جانا‘‘اب جب یہ معلوم ہو گیا تو یوں سمجھیے کہ معشوق کے ہونٹوں کو میٹھا کہتے ہیں اور قند اور مصری اور شہد سے نسبت دیتے ہیں اور البتہ مکھی مٹھاس کی عاشق ہے۔ پس جو مکھی کہ مصری پر بیٹھی، وہ جب چاہے، تب بے تکلف اُڑ جائے اور جو مکھی کہ شہد پر بیٹھے گی، جب وہ اُڑنے کا قصد کرے گی پر و بال اس کے شہد میں لپٹ جائیں گے اور وہ مرکر رہ جائے گی۔ پس اب یہ کہتا ہے کہ میرے معشوق کے ہونٹ شیرینی میں میرے واسطے شہد ہو گئے اور رقیب کے واسطے مصری۔ یعنی وہ چاٹ کر، لطف اُٹھا کر، صحیح و سالم چلا گیا اور میں پھنس کرو ہیں مرکر رہ گیا۔

    در نمکش بیں و اعتماد نفوذش

    گر به مے افگند، ہم بہ زخم جگر زد

    ’’زدن‘‘ لازمی بھی ہے اور متعدی بھی۔ لازمی کے معنی ہندی میں لگ جانا اور متعدی کے معنی ”مارنا‘‘ یہاں’’زد‘‘ لازمی ہے۔ اب یہ سمجھا چاہیے کہ نمک شراب کو بگاڑتا ہے یعنی اگر شراب میں نون ڈال کر ایک آدھ دن دھوپ میں رکھیں تو اس میں نشہ جاتا رہتا ہے اور وہ سرکہ ہو جاتا ہے اور زخم پر اگر نمک ڈالیں تو وہ کٹاؤ کرتا ہے اور زخم کو بڑھاتا ہے۔ مقصود شاعر کا یہ کہ تو میرے معشوق کے نمک کو دیکھ اور دیکھ کہ اس نمک کے نفوذ پر کتنا بھروسہ ہے کہ اگر وہ اس نمک کو شراب میں ڈال دیتا ہے تو وہ شراب میں نہیں ملتا اور زخم پر جا لگتا ہے یعنی اگر بے محل بھی کرشمہ کرتا ہے تو بھی وہ اپنا کام کر رہتا ہے،

    کیست درین خانه کز خطوط شعاعی

    مہر نفس ریزه با به روزن در زد

    یہ خیال ہے یعنی ایک گھر میں اس کا محبوب بیٹھا ہوا ہے اور اس نے جان لیا ہے کہ کون ہے مگر بہ طریق تجاہل بھولا بن کر پوچھتا ہے کہ آیا اس گھر میں ایسا کون ہے کہ مہر یعنی آفتاب نے اپنی سانس کے ٹکڑے فرط شوق سے دروازے کے روزن پر پھینک دیئے ہیں؟ آفتاب کے خطوط شعاعی کا روزنوں میں پڑنا اور ان خطوط شعاعی کا یعنی سورج کی کرن کا بہ صورت سانس کے ٹکڑوں کے ہونا ظاہر ہے،

    دعویٰ او را بود دلیل بدیہی

    خندهٔ دنداں نما بہ حسن گہر زد

    ’’خنده دندان نما‘‘ اس ہنسی کو کہتے ہیں جو تقسیم سے بڑھ کر ہو اور اس میں دانت ہنسنے والے کے دکھائی دیں۔ معشوق موتیوں کے حسن پر ہنسا اور ہنستا کوئی اس چیز پر ہے جس کو اپنے نزدیک ذلیل سمجھ لیتا ہے۔ حاصل معنی یہ کہ میرا معشوق موتیوں کے حسن پر ہنسا۔ گویا اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ موتی کچھ اچھی چیز نہیں۔ اب دعوے کے واسطے دلیل ضرور ہے۔ سو شاعر یہ کہتا ہے کہ میرے معشوق کے دعوے پر دلیل بدیہی ہے، یعنی ہنسنے میں اُس کے دانت نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ وہ حسن جو لوگ موتی میں گمان کرتے تھے وہ لغو ہے۔ حسن یہ ہے کہ جو معشوق کے دانتوں میں ہے۔ پس اس دلیل کو سب نے دیکھ لیا اور چوں کہ بدیہی تھامان لیا۔

    غیرت پروانه ہم بروز مبارک

    ناله چه آتش ببال مرغ سحر زد

    پروانے کی غیرت دن کو بھی مبارک سمجھنی چاہیے۔ پروانے کی غیرت وہ غیرت نہیں کہ جو پروانے میں ہو یا پروانے کو ہو۔ بلکہ وہ غیرت کہ جو اور کو آتی ہو پروانے پر، یعنی رشک، حاصل معنی یہ کہ میں تو دن رات عشق میں جلتا ہوں۔ رات کو جو پروانے کو جلتا ہوا دیکھتا تھا تو مجھ کو اس پر رشک آتا تھا۔ دن کو ایسا کوئی نہ تھا کہ مجھ کو اُس پر رشک آوے۔ لواب وہی غیرت اور وہی رشک جو پروانے پر شب کو تھا، اب دن کو بھی مبارک ہو۔ یعنی میرے صبح کے نالوں سے مرغ سحر کے پروں میں آگ لگ گئی اور میں اپنی مستی اور بے خودی میں یہ نہیں جانتا کہ یہ میرے نالے کے سبب سے ہے۔ مجھ کو وہ رنج اور غصہ تازہ ہو گیا جو رات کو پروانے کو دیکھ کر کھاتا تھا۔ اب مرغ سحر کو جلتے ہوئے دیکھ کر جلتا ہوں کہ ہائے یہ کون ہے کہ جو میری طرح جلتا ہے،

    لشکر ہوشم بزور سے نہ شکستی

    غمزهٔ ساقی نخست راه نظر زد

    نظر ’’فکر‘‘ کو بھی کہتے ہیں اور ’’نگاہ‘‘کو بھی۔ یہاں نگاہ کے معنی ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ میں ایسا نہ تھا کہ شراب کی تاب نہ لاتا اور شراب پی کر بے ہوش ہو جاتا۔ مگر کیا کروں کہ پہلے غمزۂ ساقی نے نظر کو خیرہ اور مغلوب کر دیا۔ پھر اس پر شراب پی گئی۔ بے خودی کا استعداد تو بہم پہنچ ہی گیا تھا، ناچار ہوش جاتے رہے،

    زان بتِ نازک چہ جائے دعویِ خون است

    دست وے و دامنے کہ او بکمر زد

    اس شعر کا لطف وجدانی ہے، بیانی نہیں ہے۔ معنی اس کے یہ ہیں کہ اس معشوق سے کہ وہ بہت نازک ہے۔ خون کا دعویٰ کیا کریں کہ اس کو وقت عزم قتل دامن گردانتے وقت وہ صدمہ پہنچا ہے کہ اس کا ہاتھ ہے اور وہ دامن کہ جو انہوں نے گردان کر کمر پر باندھا تھا۔ ایسا لچکا کمر کو پہنچا ہے کہ وہ اپنے آپ دامن پر داد خواہ ہو رہا ہے۔ پس کوئی اس سے خون کا کیا دعویٰ کرے گا۔

    قطعه

    برگ طرب ساختم و باده گرفتیم

    ہر چه ز طبع زمانه بیہده سرزد

    شاخ چه بالد گر، ارمغان گل آورد

    تاک چه نازد اگر صلائے ثمر زد

    شاعر کہتا ہے کہ یہ روئید گیاں بہ مقتضائے طینت خاک (۲) بر طرف ظاہر ہوا کرتی ہیں۔ مثلاً گنا۔ اب کچھ خاک کو اور ہوا کو یہی منظور نہیں کہ اس کا رس نکلے اور اس کا قند بنے۔ یہ آدمی کی دانشمندی ہے کہ اُس نے اس گھاس میں سے یہ بات پیدا کی۔ پس اسی طرح انگور ہیں اور گلاب کے پھول ہیں۔ شاخ گل کیا جانے کہ پھول میں کیا خوبی ہے اور تاک کیا جانے کہ میرے پھل میں کیا ہنر ہے؟ ہم نے اپنے زور عقل سے انگور کی شراب بنائی اور پھولوں کو ہر ہر رنگ سے اپنے کام میں لائے۔

    کام نہ بخشیده، گنه چه شماری

    غالب مسکیں بہ التفات نیر زد

    یہ گستاخانہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے کہ جب اس عالم میں تو نے میری داد نہ دی اور میری خواہشیں پوری نہ کیں۔ تو بس اب معلوم ہوا کہ میں لائق التفات کے نہ تھا۔ پس جب میں لائق توجہ کے نہیں تو اب عالم عقبیٰ میں میرے گناہوں کا مواخذہ کیا ضروری ہے؟ جب ہمارے مطالب آپ نے ہم کو نہ دیئے تو میرے معاصی کا بھی شمار نہ کیجئے۔ جانے دیجئے، ہم میں التفات کی ارزش (۳) نہیں ہے۔

    غالبؔ

    (۱) رانده درگاه: دروازے دے دھکیلا ہوا۔

    (۲) مقتضائے طبیعت خاک: مٹی کی فطرت کا تقاضا۔

    (۳) ارزش: ہمت / قیمت۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے