جان غالب!
تمہارا خط پہنچا۔ غزل اصلاح کے بعد پہنچتی ہے،
ہر اک سے پوچھتا ہوں وہ کہاں ہے، مصرع بدل دینے سے یہ شعر کسی رُتبے کا ہو گیا۔ اے میر مہدی تجھے شرم نہیں آتی۔ میاں، یہ اہل دہلی کی زباں ہے؟
ارے، اب اہل دہلی یا ہندو ہیں یا اہل حرفہ ہیں یا خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں۔ ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے؟ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی۔ باقی ہرفن کے کامل لوگ موجود ہیں۔
خس کی ٹٹی، پروا ہوا، اب کہاں لطف؟ وہ تو اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں وہ چھت اور سمت بدلی ہوئی ہے۔ یہ بہر حال، مے گزرد۔
مصیبت عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال ڈگی کے کنوئیں یک قلم کھاری ہو گئے۔ خیر، کھاری ہی پانی پیتے، گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنوؤں کا حال معلوم کرنے گیا تھا۔ مسجد جامع ہوتا ہوا راج گھاٹ دروازے کو چلا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازے تک، بے مبالغہ ایک صحرا لق ودق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں، وہ اگر اٹھ جائیں تو ہو کا مکان ہو جائے۔ یاد کرو، مرزا گوہر کے باغیچے کے اس جانب کو کئی بانس نشیب تھا۔ اب وہ باغیچے کے صحن کے برابر ہو گیا۔ یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہو گیا۔ فصیل کے کنگورے کھلے رہے ہیں باقی سب اٹ گیا۔ کشمیری دروازے کا حال تم دیکھ گئے ہو۔ اب آہنی سڑک کے واسطے کلکتہ دروازے سے کا بلی دروازے تک میدان ہو گیا۔ پنجابی کٹرہ، دھوبی واڑه، رام جی گنج، سعادت خاں کا کٹرہ جرنیل کی بی بی کی حویلی، رام جی داس گودام والے کے مکانات صاحب رام کا باغ، حویلی، ان میں سے کسی کا پتا نہیں ملتا۔ قصہ مختصر، شہر صحرا ہو گیا تھا۔ اب جو کنویں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہو گیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہو جائے گا۔ اللہ اللہ دلی نہ رہی اور دلی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں۔ واہ رے حسن اعتقادارے بندۂ خدا، اردو بازار نہ رہا اردو کہاں، دلی کہاں۔ واللہ، اب شہر نہیں ہے کیمپ ہے، چھاؤنی ہے نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ شہر۔
الور کا حال کچھ اور ہے۔ مجھے اور انقلاب سے کیا کام؟ النگزنڈر ہدرلی کا کوئی خط نہیں آیا۔ ظاہر ا ًان کی مصاحبت نہیں۔ ورنہ مجھ کو ضرور خط لکھتا رہتا۔ میر سرفراز حسین اور میرن صاحب اور نصیر الدین کو دعا۔
١٨٦٠ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.