سید صاحب!
کل پہر دن رہے تمہارا خط پہنچا۔ یقین ہے کہ اس وقت یا شام کو میر سرفراز حسین تمہارے پاس پہنچ گئے ہوں۔ حال سفر کا جو کچھ ہے ان کی زبانی سن لو گے۔ میں کیا لکھوں، میں نے بھی جو کچھ سنا ہے انہی سے سنا ہے۔ ان کا اس طرح ناکام پھر آنا میری تمنا اور میرے مقصود کے خلاف ہے لیکن میرے عقیدے اور میرے تصور کے مطابق ہے۔ میں جانتا تھا کہ وہاں کچھ نہ ہوگا۔ سو روپیے کی ناحق زیر باری ہوئی۔ چونکہ یہ زیر باری میرے بھروسے پر ہوئی تو مجھے بھی شرمساری ہوئی۔ میں نے اس چھیاسٹھ برس میں اس طرح کی شرمساریاں اور روسیاہیاں بہت اٹھائی ہے ہیں جہاں ہزار داغ ہیں، ایک ہزار ایک سہی، میر سرفراز حسین کی زیر باری سے دل کڑھتا ہے۔
وبا کو کیا پوچھتے ہو؟ قدر انداز قضا کے ترکش میں یہی ایک تیر باقی تھا۔ قتل ایسا عام لوٹ ایسی سخت، کال ایسا بڑا، و با کیوں نہ ہو؟ لسان الغیب نے دس برس پہلے فرمایا ہے،
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
میاں ۱۲۷۷ھ کی بات غلط نہ تھی مگر میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا۔ واقعی اس میں میری کسر شان تھی۔ بعد رفع فساد ہوا سمجھ لیا جائے گا۔ کلیات اردو کا چھا پا تمام ہوا۔ اغلب (۱)کہ اسی ہفتے میں غایت (۲)اسی مہینے میں ایک نسخہ بہ سبیل ڈاک تم کو پہنچ جائے گا۔ کلیات نظم فارسی کے چھاپنے کی بھی تدبیر ہو رہی ہے۔ اگر ڈول بن گیا تو وہ بھی چھاپا جائے گا۔ ’’قاطع برہان‘‘ کے خاتمے میں کچھ فوائد بڑھائے گئے ہیں۔ اگر مقدور مساعدت کر۔ گا تو میں بے شرکت غیر اس کو چھپواؤں گا، مگر یہ خیال محال ہے۔ میرے مقدور کی تیاری کا حال مجتہد العصر کو معلوم ہے۔ والله على كل شيءٍ قدير۔ خدا کا بندہ ہوں، علی کا غلام۔ میرا خدا کریم، میرا خداوند سخی،
علی دارم چه غم دارم
وبا کی آنچ مدھم ہو گئی ہے۔ پان سات دن بڑا زور شور رہا۔ پرسوں خواجہ مرزا ولد خواجہ امان مع اپنی بی بی بچوں کے دلی میں آیا۔ کل رات کو اس کا نو برس کا بیٹا ہیضہ کر کے مر گیا۔ انا اللہ وانا اليه راجعون۔ الور میں بھی رہا ہے الگزنڈر ہدر لی مشتہر بہ الک صاحب مر گیا۔ واقعی بے تکلف وہ میرا عزیز اور ترقی خواہ اور راج میں اور مجھ میں متوسط تھا۔ اس جرم میں ماخوذ ہو کر مرا۔ خیر یہ عالم اسباب ہے۔ اس کے حالات سے ہم کو کیا؟
جمعه ۲۶ جولائی ۱۸۶۱ء
۱۷محرم ۱۲۷۸ھ
(۱) اغلب: زیادہ اُمید /غالباً۔
(۲) غایت: حد سے حد۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.