سید صاحب!
اچھا ڈھکوسلا نکالا ہے، بعد القاب کے شکوہ شروع کر دینا اور میرن صاحب کو اپنا ہم زبان کر لینا۔ میں میر مہدی نہیں کہ میرن صاحب پر مرتا ہوں۔ میر سرفراز حسین نہیں کہ ان کو پیار کرتا ہوں علی کا غلام اور سادات کا معتقد ہوں، اس میں تم بھی آگئے۔ کمال ہے کہ میرن صاحب سے محبت قدیم ہے، دوست ہوں، عاشق زار نہیں۔ بندہ مہر و وفا ہوں، گرفتار نہیں۔
تمہارے بھائی نے سخت مشوش بلکہ نعل در آتش کر رکھا ہے۔ ایک سلام اصلاح کے واسطے بھیجا اور لکھا کہ بعد محرم کے میں بھی آؤں گا۔ میں نے سلام رہنے دیا اور منتظر رہا کہ ڈاک میں کیوں بھیجوں، وہ آئیں گے تو یہیں ان کو دے دوں گا۔ محرم تمام ہوا۔ آج سہ شنبہ، غرہ صفر ہے۔ حضرت کا پتا نہیں۔ ظاہراً برسات نے آنے نہ دیا۔
برسات کا نام آگیا۔ سو پہلے مجملاً سنو۔ ایک غدر کالوں کا، ایک ہنگامہ گوروں کا، ایک فتنہ انہدام مکانات کا، ایک آفت و با کی۔ ایک مصیبت کال کی۔ اب یہ برسات جميع حالات کی جامع ہے۔ آج اکیسواں دن ہے۔ آفتاب اس طرح گاہ گاہ نظر آجاتا ہے جس طرح بجلی چمک جاتی ہے۔ رات کو کبھی کبھی اگر تارے دکھائی دیتے ہیں تو لوگ ان کو جگنو سمجھ لیتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئی ہے۔ کوئی دن نہیں کہ دو چار گھر کی چوری کا حال نہ سنا جائے۔ مبالغہ نہ سمجھنا ہزار ہا مکان گر گئے۔ سینکڑوں آدمی جا بہ جا دب کر مر گئے۔ گلی گلی ندی بہہ رہی ہے۔ قصہ مختصر وہ ان کال تھا کہ مینہہ نہ برسا۔ اناج نہ پیدا ہوا۔ یہ پن کال ہے۔ پانی ایسا برسا کہ بوئے ہوئے دانے بہہ گئے۔ جنہوں نے ابھی نہیں بویا تھا، وہ ہونے سے رہ گئے۔ سن لیا دلی کا حال؟ اس کے سوا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
جناب میرن صاحب کو دعا۔ زیادہ کیا لکھوں۔
سه شنبه یکم صفر ۱۲۷۹ ھ ۲۹ جولائی سال رستاخیز ۱۸۶۲ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.