واہ حضرت!
کیا خط لکھوں؟ اس خرافات کے لکھنے کا فائدہ؟ بات اتنی ہی ہے کہ میرا پلنگ مجھ کو ملا، میرا بچھونا مجھ کو ملا، میر احجام مجھ کو ملا۔ میرا بیت الخلا مجھ کو ملا۔ رات کا وہ شور، کوئی آئیو، کوئی آئیو، فرو ہو گیا۔ میری جان بچی، میرے آدمیوں کی جان بچی،
اکنوں شب من شب است و روزم روز است
بھئی، تم نے یہ نہ لکھا کہ میرن صاحب کو میرا خط پہنچایا نہ پہنچا۔ میں گمان کرتا ہوں کہ نہیں پہنچا، اگر پہنچتا تو بے شک وہ تمہاری نظر سے گزرتا اور میرن صاحب اس کی اصل حقیقت تم سے پوچھتے اور اس صورت میں یہ بھی ضرور تھا کہ تم اس واہیات کے بدلے مجھ کو وہ روداد لکھتے جو میرن صاحب میں اور تم میں پیش آئی پس اگر جیسا کہ میرا گمان ہے۔ خط نہیں پہنچا، تو خیر جانے دو، اگر خط پہنچا ہے تو میرن صاحب کے خط کے جواب لکھوانے میں تم نے میر ادم ناک میں کر دیا تھا۔ اب ان سے میرے خط کے جواب کا تقاضا کیوں نہیں کرتے؟ حسن بھی کیا چیز ہے۔ نادر کا اتنا خوف نہیں جتنا حسین آدمی کا ڈر ہوتا ہے۔ تم ان سے خواہش وصال کرتے ہوئے ڈرو، میرے خط کے جواب کے باب میں کیوں نہیں کہتے؟ نہ صاحب یہ کچھ بات نہیں۔ میرے خط کا جواب ان سے لکھوا کر بھجواؤ۔
یہاں کا حال وہ ہے جو دیکھ گئے ہو۔ پانی گرم، ہوا گرم، تپیں مستولی(۱)، اناج مہنگا۔
بے چارہ منشی میر احمد حسین کا بھتیجا۔ میر امداد علی آشوب کا بیٹا، محمد میر شب گزشتہ کو گزر گیا۔ آج صبح کو اس کو دفن کر آئے جوان، صالح، پرہیز گار، مومنین کا پیش نماز تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مجتہد العصر کا حکم بجالاؤں گا۔ اور نہ رئیس کو بلکہ مدار المہام ریاست کو لکھوں گا۔ رئیس میرے سوال کا جواب قلم انداز کر جائے گا اور مدارالمہام امور واقعی لکھ بھیجے گا۔
مجتہد العصر کو دعا کہنا اور یہ خط پڑھا دینا میرن صاحب کو دعا اور کہنا کہ بھلا صاحب تم نے ہمارے خط کا جواب نہیں لکھا۔ ہم بھی تمہاری طرز کا تتبع کریں گے۔ حکیم میرا شرف علی کو دعا کہنا اور کہنا کہ اگر تم میں ان میں راہ و رسم تعزیت اور تہنیت ہو تو میر احمد حسین کو خط لکھو اور یہ بھی ان کو معلوم ہو کہ حفیظ یہاں آیا ہوا ہے۔ قبائل تمہارے یہیں ہیں۔ اگر وہاں کچھ رسائی حاصل ہو تو خیر، ورنہ یہاں کیوں نہ چلے آؤ۔ شعر،
میں بھولا نہیں تجھ کو اے میری جان
کروں کیا کہ یاں گر رہے ہیں مکان
برسات کا حال نہ پوچھو، خدا کا قہر ہے۔ قاسم جان کی گلی سعادت خاں کی نہر ہے۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں عالم بیگ خان کے کٹرے کی طرف کا دروازہ گر گیا۔ مسجد کی طرف کے دالان کو جاتے ہوئے جو دروازہ تھا، گر گیا۔ سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں۔ صبح کے بیٹھنے کا حجرہ جھک رہا ہے۔ چھتیں چھلنی ہو گئی ہیں۔ مینہہ گھڑی بھر برسے تو چھت گھنٹہ بھر بر سے کتابیں، قلم دان سب تو شہ خانے میں۔ فرش پر کہیں لگن رکھا ہوا، کہیں چلمچی دھری ہوئی۔ خط کہاں بیٹھ کر لکھوں؟ پانچ چار دن سے فرصت ہے۔ مالک مکان کو فکر مرمت ہے۔ آج ایک امن کی صورت نظر آئی۔ کہا، کہ آؤ میر مہدی کے خط کا جواب لکھوں۔
الور کی نا خوشی، راہ کی محنت کشی، تپ کی حرارت، گرمی کی شرارت، یاس کا عالم، کثرت اندوہ وغم، حال کی فکر، مستقبل کا خیال، تباہی کا رنج، آوارگی کا ملال، جو کچھ کہو وہ کم ہے۔ بالفعل تمام عالم کا ایک سا عالم ہے۔
سنتے ہیں کہ نومبر میں مہارا جا کو اختیار ملے گا۔ ہاں ملے گا مگر وہ اختیار ایسا ہو گا جیسا خدا نے خلق کو دیا ہے۔ سب کچھ اپنے قبضہ قدرت میں رکھا، آدمی کو بد نام کیا ہے۔
بارے رفع مرض کا حال لکھو۔ خدا کرے تپ جاتی رہی ہو، تندرستی حاصل ہو گئی ہو۔ میر صاحب کہتے ہیں،
تندرستی ہزار نعمت ہے
ہائے پیش مصرع مرزا قربان علی بیگ سالک نے کیا خوب بہم پہنچایا ہے مجھ کو بہت پسند آیا ہے،
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
مجتہد العصر میر سرفراز حسین صاحب کو دعا۔ آہاہاہا میر افضل علی صاحب کہاں ہیں حضرت!یہاں تو اس نام کا کوئی آدمی نہیں ہے۔ لکھنؤ کے مجتہد العصر کے بھائی کا نام میرن صاحب تھا۔ جے پور کے مجتہد العصر کے بھائی میرن صاحب کیوں نہ کہلائیں؟ ہاں، بھائی میرن صاحب بھلا ان کو ہماری دعا کہنا۔
صبح جمعه ۲۶ ستمبر ۱۸۶۲ء
(۱) مستولی: اوپر سے /مستزاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.