میاں!
کیوں تعجب کرتے ہو یوسف مرزا کے خطوط کے نہ آنے سے؟ وہاں اچھی طرح ہے۔ حاکموں کے ہاں آنا جانا، نوکری کی تلاش حسین مرزا صاحب بھی وہیں ہیں۔ وہاں کے حکام سے ملتے ہیں۔ وہاں پنسن کی درخواست کر رہے ہیں۔ ان دونوں صاحبوں کے ہر ہفتے میں ایک دو خط مجھ کو آتے ہیں۔ جواب بھیجتا ہوں۔
بھائی! لکھنو میں وہ امن و امان ہے کہ نہ ہندوستانی عمل داری میں ایسا امن و امان ہوگا نہ اس فتنہ وفساد سے پہلے انگریزی عمل داری میں یہ چین ہوگا۔ امرا اور شرفاء کی حکام سے ملاقاتیں، یہ قدر رتبہ، تعظیم و توقیر، پنسن کی تقسیم علی العموم، آبادی کا حکم عام، لوگوں کو کمال لطف اور نرمی سے آباد کرتے جاتے ہیں۔
اور ایک نقل سنو۔ وہاں کے صاحب کمشنر بہادر اعظم نے جو دیکھا کہ عملے میں ہنود بھرے ہوئے ہیں، اہل اسلام نہیں ہیں، ہنود کو اور علاقوں پر بھیج دیا اور ان کی جگہ مسلمانوں کو بھرتی کیا۔ یہ تو آفت دلی ہی پر ٹوٹ پڑی ہے۔ لکھنؤ کے سوا اور سب شہروں میں عمل داری کی وہ صورت ہے جو غدر سے پہلے تھی۔ اب یہاں ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔ میں نے بھی دیکھے۔ فارسی عبارت یہ ہے، ’’ٹکٹ آبادی درون شهر دلی به شرط ادخال جرمانہ‘‘ مقدار روپیے کی حاکم کی رائے پر ہے۔ آج پانچ ہزار ٹکٹ چھپ چکا ہے۔ کل اتوار یوم تعطیل ہے۔ پرسوں دوشنبے سے دیکھئے یہ کاغذ کیوں کر تقسیم ہوں۔
یہ تو کیفیت عموماً شہر کی ہے۔ خصوصاً میرا حال سنو۔ بائیس مہینے کے بعد پرسوں کو تو ال کو حکم آیا ہے کہ اسد اللہ خاں پنسن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے یا نہیں۔ کوتوال نے موافق ضابطے کے مجھے سے چار گواہ مانگے ہیں۔ سوکل چار گواہ کو تو الی چبوترے جائیں گے اور میری بے مقدوری ظاہر کر آئیں گے۔ تم کہیں یہ نہ سمجھنا کہ بعد ثبوت مفلسی، چڑھا ہوا رو پیہ مل جائے گا اور آئندہ کو پنسن جاری ہو جائے گا نہ صاحب، یہ تو ممکن ہی نہیں۔ بعد ثبوت افلاس مستحق ٹھہروں گا چھے، مہینے یا برس دن کا روپیہ علی الحساب پانے کا۔
میرن صاحب، جو بلائے گئے ہیں، اس طلب کے جواب میں یہی کیوں نہیں لکھتے کہ ٹکٹ میرے نام کا حاصل کر کر بھیج دو تو میں آؤں۔ دیکھو اب دس پانچ دن میں سب حال کھلا جاتا ہے۔
میر سرفراز حسین کو دعا کہنا اور میری طرف سے گلے لگانا اور پیار کرنا۔ میر نصیر الدین کو دعا کہنا اور میرن صاحب کو مبارکباد کہتا۔
فروری ۱۸۵۹ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.