Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام میر مہدی مجروح (۷)

مرزا غالب

بنام میر مہدی مجروح (۷)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    مارڈالا یار، تیری جواب طلبی نے۔ اس چرخ کج رفتار کا برا ہو، ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا۔ ملک و مال و جاہ و جلال کچھ نہیں رکھتے تھے۔ ایک گوشہ و توشہ تھا چند مفلس و بے نوا ایک جگہ فراہم ہو کر کچھ نہیں ہنس بول لیتے تھے۔

    سو بھی نہ تو کوئی دم، دیکھ سکا اے فلک

    اور تو یاں کچھ نہ تھا، ایک مگر دیکھنا

    یاد رہے یہ شعر خواجہ میر درد کا ہے۔

    کل سے مجھ کو میکش بہت یاد آتا ہے، سو صاحب، اب تم ہی بتاؤ کہ میں تم کو کیا لکھوں؟ وہ صحبتیں اور تقریر میں جو یاد کرتے ہو اور تو کچھ بن نہیں آتی، مجھ سے خط پر خط لکھواتے ہو، آنسوؤں سے پیاس نہیں بجھتی۔ یہ تحریر تلافی اس تقریر کی نہیں کر سکتی۔ بہ ہر حال کچھ لکھتا ہوں، دیکھو کیا لکھتا ہوں۔

    سنو، پنسن کی رپورٹ کا ابھی کچھ حال نہیں معلوم۔۔۔دیر آید درست آید۔ بھئی، میں تم سے بہت آزردہ ہوں۔ میرن صاحب کی تندرستی کے بیان میں نہ اظہار مسرت، نہ مجھ کو تہنیت، بلکہ اس طرح سے لکھا ہے کہ گویا ان کا تندرست ہونا تم کو ناگوار ہوا ہے۔ لکھتے ہو کہ میرن صاحب ویسے ہی ہو گئے جیسے آگے تھے۔ اچھلتے کودتے پھرتے ہیں۔ اس کے یہ معنی کہ ہے ہے، کیا غضب ہوا کہ یہ کیوں اچھے ہو گئے۔ یہ باتیں تمہاری ہم کو پسند نہیں آتیں۔ تم نے میر کا وہ مقطع سنا ہو گا یہ تغیر الفاظ لکھتا ہوں،

    کیوں نہ میرن کو مغتنم جانوں

    دلی والوں میں اک بچا ہے یہ

    میر تقی کا مقطع یوں ہے،

    میر کو کیوں نہ مغتنم جانیں

    اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

    میر کی جگہ ’’میرن‘‘ اور ’’رہا‘‘ کی جگہ ’’بچا‘‘ کیا اچھا تصرف(۱) ہے!

    ارے میاں! تم نے کچھ اور بھی سنا؟ کل یوسف مرزا کا خط لکھنؤ سے آیا۔ وہ لکھتا ہے کہ نصیر خان عرف نواب جان، والدان کا دائم الحبس (۲) ہو گیا۔ حیران ہوں کہ یہ کیا آفت آئی۔ یوسف مرزا تو جھوٹ کا ہے کو لکھے گا۔ خدا کرے اس نے جھوٹ سنا ہو۔

    لو بھئی اب تم چاہو بیٹھے رہو، چاہو اپنے گھر جاؤ، میں تو روٹی کھانے جاتا ہوں۔ اندر باہر سب روزہ دار ہیں۔ یہاں تک کہ بڑا لڑکا باقر علی خان بھی صرف ایک میں اور ایک میرا پیارا بیٹا حسین علی خاں، یہ ہم روزہ خوار ہیں۔ وہی حسین علی خاں، جس کا روزمرہ ہے، کھولنے منگا دو، میں بھی بجار جاؤں گا میر سرفراز حسین کو دعا کہنا اور یہ خط ان کو ضرور سنا دینا۔ برخوردار میر نصیر الدین کو دعا پہنچے۔

    اپریل ۱۸۵۹ء

    (۱) تصرف: تبدیلی۔

    (۲) دائم الحبس: عمر قید۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے