میری جان!
تو کیا کہہ رہا ہے؟ پینے سے سیانا سودیوانہ۔ صبر و تسلیم و توکل و رضا، شیوہ صوفیہ کا ہے۔ مجھ سے زیادہ اس کو کون سمجھے گا، جو تم مجھ کو سمجھاتے ہو؟ کیا میں یہ جانتا ہوں کہ ان لڑکوں کی پرورش میں کرتا ہوں؟ استغفر الله لا موثر فی الوجود الا اللہ۔ یا تم یہ سمجھے ہو کہ میں شیخ چلی کی طرح سے یہ خیال باندھتا ہوں کہ مرغی مول لوں گا اور اس کے انڈے بچے بیچ کر بکری خریدوں گا اور پھر کیا کروں گا اور آخر کیا ہوگا؟ بھائی، یہ تو میں نے اپنا راز دل تم سے کہا تھا کہ آرزو یوں تھی اور اب وہ نقش باطل ہو گیا۔ ایک حسرت کا بیان تھا، نہ خواہش کا۔
دیکھا، اس پنسن قدیم کا حال؟ میں تو اس سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہوں، لیکن جب تک جواب نہ پاؤں، کہیں اور کیوں کر چلا جاؤں؟ حاکم اکبر کے آنے کی خبر گرم ہے۔ دیکھئے کب آئے؟ ئے تو مجھے بھی دربار میں بلائے یا نہ بلائے؟ خلعت ملے یا نہ ملے؟ اس بیچ میں ایک اور پیچ آپڑا ہے۔ اس کو دیکھ لوں اور پھر صرف اسی کا انتظار نہیں۔
اس مرحلے کے طے ہونے کے بعد پنسن کے ملنے نہ ملنے کا تر دو بدستور رہے گا۔ سبک سر کیوں کر بن جاؤں کہ یہ سب امور ملتوی چھوڑ کر نکل جاؤں؟ پنسن جاری ہوئے پر بھی تو سوا رام پور کے کہیں ٹھکانا نہیں ہے۔ وہاں تو جاؤں اور ضرور جاؤں۔ تین برس ثبات قدم اختیار کیا اب انجام کار میں اضطراب کی کیا وجہ؟ چپکے ہور ہو اور مجھ کوکسی عالم میں غمگین اور مضطر گمان نہ کرو۔ ہر وقت میں جیسا مناسب ہوتا ہے ویسا عمل میں آتا ہے۔
صاحب! یہ میرن صاحب نے جو دو سطریں دستخط خاص سے لکھی تھیں واللہ، میں کچھ نہیں سمجھا کہ یہ کسی مقدمے کا ذکر ہے۔
نومبر ۱۸۵۹ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.