بھائی!
کیا پوچھتے ہو؟ کیا لکھوں؟ ولی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر تھی قلعہ، چاندنی چوک، ہر روزه بازار مسجد جامع کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں۔ پھر کہو دلی کہاں؟ ہاں کوئی شہر قلمرو ہند میں اس نام کا تھا۔
نواب گورنر جنرل بہادر پندرہ دسمبر کو یہاں داخل ہوں گے۔ دیکھئے کہاں اُترتے ہیں اور کیوں کر دربار کرتے ہیں۔ آگے کے درباروں میں سات جاگیردار تھے کہ ان کا الگ الگ دربار ہوتا تھا۔ جھجر، بہادر گڑھ، بلب گڑھ، فرخ نگر، دو جانہ، پاٹودی، لوہارو، چار معدوم محض، تین جو باقی رہے اس میں سے دو جانہ ولو ہار و تحت حکومت ہانسی، حصار، پاٹودی حاضر۔ اگر ہانسی حصار کے صاحب کمشنر بہادر، ان دونوں کو یہاں لے آئے تو تین ریکس، ورنہ ایک رئیس، بس۔ رہے در بار عام والے مہاجن لوگ، سب موجود۔ اہل اسلام میں سے صرف تین آدمی باقی ہیں۔ میرٹھ
میں مصطفے خاں، سلطان جی میں مولوی صدرالدین خاں بلی ماروں میں سگ دنیا موسوم به اسد۔
تینوں مردود و مطروہ (۱) و محروم و مغموم۔
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسمان سے بارہ گلفام گر برسا کرے
تم آتے ہو چلے آؤ۔ جاں نثار خاں کے چھتے کی سڑک، خان چند کے کوچے کی سڑک دیکھ جاؤ۔ بلاقی بیگم کے کوچے کا ڈہنا، جامع مسجد کے گر دستر ستر گز گول میدان نکلنا سن جاؤ۔ غالب افسردہ دل کو دیکھ جاؤ، چلے جاؤ۔ مجتہد العصر میر سرفراز حسین کو دعا حکیم الملک حکیم میرا شرف علی کو دعا۔ قطب الملک میر نصیر الدین کو دعا۔ یوسف ہند میر افضل علی کو دعا۔
مرقومه صبح جمعه ۶ جمادی الاول ۱۲۷۶ء
۲ دسمبر ۱۸۵۹ء
(۱) مطروہ: نکالا ہوا/ رد کیا ہوا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.