لو بھائی، اب تو بی زکیہ ہمارے تمہارے برابر ہو گئیں۔ آخر ہم تم بھی تو اس عمر میں سورہ مبارکہ الم نشرح پڑھتے ہوں گے۔ اِنْشَاءَ الله تَعَالى عم يتساء لون کا سیپارہ تمام نہ ہوگا کہ میں آن کر اُن کا سبق سنوں گا۔ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير .
مسہل (۱) میں نے اس واسطے لیا تھا کہ میرے اعضا میں درد رہتا تھا اور فضول (۲)معدے میں جمع ہو گئے تھے۔ سو عنایت ایزدی سے مقصود حاصل ہو گیا۔ اب میں سبکسا را در تندرست ہوں۔ امام الدین خاں سے میرا اعتقاد، اُن کی مجھ پر عنایت به دستور لیکن حکیم احسن اللہ خاں صاحب سے ربط بڑھ گیا اور اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی اور یہ بھی پایہ علم و عمل میں کسی سے کم نہیں ہے، اس واسطے اُنہی کی رائے کے مطابق تنقیہ (۳)کیا گیا۔
حکیم نسیم اللہ خاں تم سے ملیں یا منشی عبدالطیف سے ملیں اور کچھ نہ کہیں، مجھ کو اس سے کچھ کام نہیں۔ مدعا یہ کہ پاکھل کے مربے کا پیام اُن کی تحویل ہے، وہ آپ سے کہہ دیں۔ ہر چند وہ کیا ہے جو کہا چاہیے، مگر مجھ پر سے احتمال قصور جاتا رہتا ہے اور پیام یہ ہے کہ پاکھل کا حیات بخش باغ میں گل ایک درخت ہے اور وہ اکتوبر نومبر میں بار لاتا ہے۔ اُس کے اثمار کا اچار مربہ بنا لیتے ہیں۔ اب کے سال وہ درخت کم بخت بار ور نہ ہوا، اس راہ سے مربہ ہاتھ نہ آیا۔
جے پور سے ہنوز کوئی امر فیصل نہیں معلوم ہوا۔ کتاب اور عرضی راجا صاحب کے پاس بھیجی ہے اور وہ خوش ہوئے ہیں اور دیوان کو اپنی نظر میں رکھتے ہیں اور پہنچانے والے سے عرضی کے جواب کا وعدہ ہے۔ نئے اجنٹ کے آنے کا ہنگامہ تھا، وہ کم ہوا۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے، دل بجھ گیا ہے۔ جو ابتدا میں رنگ امید کا تھا وہ اب نہیں ہے۔
نیم کی پتیاں تم پیتے ہو، خوب کرتے ہو۔ یہ کہ اُس کو کھا کر ایک بیسن کی ٹکیا گھی ڈال کر کھاتے ہو، یہ ترکیب عامیانہ ہے۔ ہاں یہ مسلم کہ چنے کی روٹی ان امراض میں اگر غذا منحصر اسی پر کی جائے اور ایک مدت تک یہ طریق نبھ جائے تو بہت نافع ہے۔ میں ایک بات تمہیں اور بتاتا ہوں۔ تم نیم کی مستی پیا کرو۔ یعنی بعضا نیم رستا ہے۔ اور اس میں سے ایک رطوبت نکل کر جم جاتی ہے، اسے نیم کی مستی کہتے ہیں۔ سبیل اس کی یہی ہے کہ دو پیسے بھر سے شروع کرو اور پانچ ماشے بڑھاتے جاؤ۔ جب پانچ تولہ پر آجاؤ تو تھم جاؤ۔ بھلا زیادہ نہیں تو بیس میں دن تو پانچ پانچ پیسا بھر پیو۔ پر ہیز به دستور بیشتر چنے کی روٹی کھایا کرو۔ دوا پی کر نکیا کھانی زائد ہے۔ چنے کی روٹی کے ساتھ وقت غذا کے گھی بہ قدر برداشت طبع کھاؤ۔ گھیا توری خرفے کا ساگ۔ بتھوے کا ساگ۔ کھیرا۔ ککڑی۔ جس کا کلیہ مرغوب ہو، کھاؤ۔ دیکھو تو یہ ترکیب موافق آتی ہے یا نہیں۔
به منشی عبد اللطيف دعا برسد - نصیر الدین وزکیہ بیگم و عبد السلام و کلثوم بیگم دعا خوانند۔
از اسد الله
پنجشنبه ۱۷ مارچ ۱۸۵۳ء
(۱) مسہل: جلاب۔
(۲) فضول: شد سے وغیرہ، انتریوں میں بوجھ اور رکاوٹ۔
(۳) تنقیہ: پاک صاف کرنا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.