بھائی صاحب!
کیسی تاریخ اور کیسی نقل، کیا فرماتے ہو، پہلے مجھ سے حقیقت تو پوچھ لیا کرو۔ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ جو نظم و نثر تمہاری نظر سے نہ گزرے وہ ضائع ہے،
وائے بر جان سخن گر ایں سخنداں نہ رسد
اب سنیے ماجرا کیا ہے۔ جب ہمایوں کے حال تک پہنچا تو میں نے از راہ عذر و حیلہ بلکہ به سبیل اظہار حقیقت واقعی حکیم صاحب کارفرما سے کہا کہ مجھ سے انتخاب حالات ممکن نہیں۔ آپ مدعا کتب سیر سے نکال کر زبانِ اردو میں ایک مسودہ اُس کا لکھوا کر میرے پاس بھیج دیا کیجئے، میں اُس کو فارسی کر کے تم کو دے دیا کروں گا۔ انہوں نے اس کو قبول کر کے ابتدائے آفرینش عالم و آدم سے میرے پاس مسودہ اردو بھیجا تو اب گویا ایک اور کتاب لکھنی پڑی۔ میں نے اُس کا چھوٹا سادیبا چہ لکھ کر ایک اور ہی انداز کی عبارت میں لکھنا شروع کیا۔ آدم سے لے کر چنگیز خان تک انہوں نے میرے پاس مسودہ بھیجا۔ میں نے اپنے طور پر لکھا اور مسودہ حوالے کیا۔ رمضان کے مہینے سے کہ آج اس کو دس مہینے ہوئے وہ مسودہ آنا موقوف ہو گیا۔ یہ ہمہ جہت چار جزو ہوں گے۔ ’’دو چار بار میں نے اُن سے تقاضا کیا۔ یہی جواب سنا کہ اب رمضان ہے۔ پھر کہا کہ عید کا ہنگامہ ہے۔ میں نے سوچا کہ مجھ کو کیا۔ میں کیوں طالب مشقت ہوں، تقاضا موقوف کیا۔ وہ چار جزو میرے لکھے ہوئے حکیم صاحب کے پاس ہوں گے۔ اب کہاں اُن سے مانگوں اور کیوں مانگوں۔ جانے دو، دور کرو۔ جو بنا اٹھی ہی نہیں اُس سے غرض کیا۔
جے پور کا حال کیا پوچھتے ہو؟ ایک گدائی کی طرح نکالی تھی۔ ایک دوست مددگار ہوا اور اس طرح کو اُس نے کمال کو پہنچایا۔ راول مختار راج اور سعد اللہ خاں وکیل راج یہ دونوں ذریعہ حصول مدعا ٹھہرے۔ وہاں کا رنگ یہ ہو گیا کہ راول بھاگتا پھرتا ہے اور وکیل استعفا بغل میں دابے رہتا ہے۔ راجا لڑکا ہے اور کوئی محرک نہیں۔ بس اب اس امر خاص کو بھی ہم نے فہرست حسرت ہائے دیرینہ میں لکھ دیا۔ ’’واللہ علی کل شی قدیر ‘‘سب بچوں کو، خصوصاً بیگم کو دعا کہنا اور میری طرف سے پیار کرنا۔
والسلام
یکشنبه دہم اپریل ۱۸۵۳ء
از اسد الله
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.