Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام منشی نبی بخش حقیر (۷)

مرزا غالب

بنام منشی نبی بخش حقیر (۷)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    یا الہی! کس کس پر رشک کروں۔ مال و دولت، جاہ و شوکت پر تو میں کسی کا بھی حاسد نہیں ہوا۔ شیخ وزیر الدین پر اور مرزا حسن علی بیگ رسالہ دار پر حسد کیوں کر نہ کروں کہ میرے بھائی کو دیکھتے ہوئے اور اُن سے باتیں کرتے ہوئے آئے ہیں۔ مقصود اس نگارش سے یہ ہے کہ دونوں صاحب جدا جدا آئے اور آپ کی خیر و عافیت اُن سے معلوم ہوئی۔ شیخ وزیر الدین کچھ ’’مہر نیم روز‘‘کے مقدمے میں کہتے تھے، مگر میں جو بہرا ہوں تو کچھ سمجھا نہیں کہ وہ کیا کہتے تھے۔ شاید یہی کہتے ہوں گے کہ جواب پھر چھاپی جائیں تو ایک نسخہ منشی صاحب کو اور بھیجنا۔ عبد السلام کو میں از راہ نسیاں بہت چھوٹا سمجھا ہوا تھا۔ اب شیخ جی کے اظہار سے معلوم ہوا کہ وہ باتیں کرتا ہے اور حسین علی کے برابر ہے۔ اُن کے کہنے سے مجھ کو یاد آیا کہ کم و بیش چار برس کا ہوا ہو گا۔ یقین ہے کہ اب بسم اللہ بھی ہو اور وہ پڑھنے بیٹھے۔ اُس کی مجھ کو اطلاع دیجیے گا کہ بسم اللہ اس کی کب ہوگی؟

    بیگم کو دعا کہہ دینا۔ یقین ہے کہ اب پانچواں سیپارہ شروع کیا ہو گا یا شروع کرے۔

    یہاں کے سب حالات بہ دستور ہیں۔ حکیم نورالدین صاحب اور اُن کے بھائی حکیم نصیر الدین اور حکیم مہر علی وغیرہ یہاں آئے تھے۔ نواب زینت محل بیگم کے حقیقی ماموں امین الرحمن خان اُن کے مرید ہیں۔ اُن کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں آئے تھے۔ انہی کے ہاں اترے تھے میں ایک دن حکیم نور الدین صاحب سے ملنے گیا۔ قضارا (۱)، وہ تو تھے، مگر حکیم نصیر الدین اور مہر علی اُن میں سے کوئی نہ تھا۔ بادشاہ سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک تو خواجہ صاحب کی درگاہ میں اور ایک جس دن حکیم صاحب اکبر آباد جاتے تھے۔ حسب الطلب حضور قلعے میں گئے اور بادشاہ سے مل کر رخصت ہو کر اپنے شہر کو تشریف لے گئے۔ حکیم صاحب عابد و زاہد آدمی ہیں۔ صلحا (۲) میں ہیں، فقرا میں نہیں ہیں۔ حلقہ اور توجہ اور مراقبہ اور مکاشفہ اور اذکار اور اشغال اور مسائل توحید و تصوف کا بیان۔ یہ باتیں بالکل نہیں ہیں۔ صرف اور او پر مدار ہے۔ تعلیم و تلقین بھی شاید اوراد ہی کی ہو۔ ذکر و شغل کا ذکر ہی نہ ہو۔ بہر حال خوش اوقات آدمی ہیں اور غنیمت ہیں۔

    لو بھئی اب آٹھ بج گئے، نو بجا چاہتے ہیں۔ تم کچہری جاؤ، میں قلعہ ہو آؤں۔ یار باقی صحبت باقی۔ السلام علیکم و علیکم السلام

    ۱۸۵۵ء

    (۱) قضارا: اتفاق سے۔

    (۲) صلحا: صالحین/ نیکی کا دعوی کرنے والے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے