Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام منشی شیو نارائن آرام (۱ )

مرزا غالب

بنام منشی شیو نارائن آرام (۱ )

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    برخوردار نور چشم منشی شیو نارائن کو معلوم ہو کہ میں کیا جانتا تھا کہ تم کون ہو۔ جب یہ جانا کہ تم ناظر بنسی دھر کے پوتے ہو تو معلوم ہوا کہ میرے فرزند دلبند ہو ۔ اب تم کو مشفق و مکرم لکھوں تو گنہ گار۔

    تم کو ہمارے خاندان اور اپنے خاندان کی آمیزش کا حال کیا معلوم ہے، مجھ سے سنو، تمہارے دادا کے والد عہد نجف خاں و ہمدانی میں میرے نانا صاحب مرحوم خواجہ غلام حسین خاں کے رفیق تھے۔ جب میرے نانا نے نوکری ترک کی اور گھر بیٹھے تو تمہارے پر دادا نے بھی کمر کھولی اور پھر کہیں نوکری نہ کی۔ یہ باتیں میرے ہوش سے پہلے کی ہیں۔ مگر جب میں جوان ہوا تو میں نے دیکھا کہ منشی بنسی دھر، خاں صاحب کے ساتھ ہیں اور انہوں نے جو کٹھیم گاؤں اپنی جاگیر کا سر کار میں دعویٰ کیا ہے تو بنسی دھر اس امر کے منصرم ہیں وکالت اور مختاری کرتے ہیں۔ میں اور وہ ہم عمر تھے۔ شاید منشی بنسی دھر مجھ سے ایک دو برس بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ انیس بیس برس کی میری عمر اور ایسی ہی عمر اُن کی۔ باہم شطرنج اور اختلاط اور محبت۔ آدھی آدھی رات گزر جاتی تھی چونکہ گھر ان کا بہت دور نہ تھا، اس واسطے جب چاہتے تھے، چلے آتے تھے۔ بس ہمارے اور ان کے مکان میں مچھیا رنڈی کا گھر اور ہمارے دو کٹرے درمیان تھے۔ ہماری بڑی حویلی وہ ہے کہ جواب للھمی چند سیٹھ نے مول لی ہے۔ اُسی کے دروازے کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی اور پاس اُس کے ایک کھٹیا والی حویلی، اور سلیم شاہ کے تکیے کے پاس دوسری حویلیاں اور کالے محل سے لگی ہوئی ایک اور حویلی اور اُس سے آگے بڑھ کر ایک کٹرا کہ وہ گڈریوں والا مشہور تھا اور ایک کٹرہ کہ وہ کشمیرن والا کہلاتا تھا، اُس کٹرے کے ایک کو ٹھے پر میں پتنگ اُڑاتا تھا اور راجا بلوان سنگھ سے پتنگ لڑا کرتے تھے۔ واصل خاں نامی ایک سپاہی تمہارے دادا کا پیش دست (۱) رہتا تھا اور وہ کٹروں کا کرایہ اوگاہ کر اُس کے پاس جمع کرواتا تھا۔

    بھائی تم سنو تو سہی، تمہارا دادا بہت کچھ پیدا کر گیا ہے۔ علاقے مول لئے تھے اور زمیندارا اپنا کر لیا تھا، دس بارہ ہزار روپئے کی سرکار کی مال گزاری کرتا تھا۔ آیا وہ سب کارخانے تمہارے ہاتھ آئے یا نہیں؟ اس کا حال از روئے تفصیل، جلد مجھ کو لکھو۔

    روز سه شنبه ۱۹ اکتوبر ۱۸۵۸ء، وقت ورود خط۔

    اسد الله

    (۱) پیش دست:پیش خدمت / آ گے یا ساتھ خدمت کے لئے چلنے والا ملازم۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے