Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام منشی شیو نارائن آرام (۳)

مرزا غالب

بنام منشی شیو نارائن آرام (۳)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    صاحب!

    میں ہندی غزلیں بھیجوں کہاں سے، اُردو کے دیوان چھاپے کے ناقص ہیں۔ بہت غزلیں اس میں نہیں ہیں۔ قلمی دیوان جو اتم و اکمل تھے، وہ لٹ گئے۔ یہاں سب کو کہہ رکھا ہے کہ جہاں بکتا ہوا نظر آئے، لے لو۔ تم کو بھی لکھ بھیجا اور ایک بات اور تمہارے خیال میں رہے کہ میری غزل پندرہ سولہ بیت کی بہت شاذ و نادر ہے۔ بارہ بیت سے زیادہ اور نو شعر سے کم نہیں ہوتی۔ جس غزل کے تم نے پانچ شعر لکھے ہیں، یہ نو شعر کی ہے۔ ایک دوست کے پاس اُردو کا دیوان چھاپے سے کچھ زیادہ ہے، اس نے کہیں کہیں سے مسودات متفرق بہم پہنچا لیے ہیں۔ چنانچہ ’’پنہاں ہو گئیں‘‘، ’’ویراں ہو گئیں۔‘‘ یہ غزل مجھ کو اسی سے ہاتھ آگئی ہے۔ اب میں نے اس کو لکھا ہے اور تم کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ خط لکھ کر رہنے دوں گا۔ جب اس کے پاس سے ایک غزل یا دو غزل آجائے گی تو اسی خط میں ملفوف کر کے بھیج دوں گا۔ یہ خط یا آج روانہ ہو جائے یا کل۔

    میں نے ایک قصیدہ اپنے محسن و مربی قدیم جناب فریڈرک ایڈ منسٹن صاحب لنفٹنٹ گورنر بہا در غرب و شمال کی مدح میں اور ایک قصیدہ جناب منٹگمری لفٹنٹ گورنر بہادر ملک پنجاب کی تعریف میں لکھا ہے۔ اگر کہو تو بھیج دوں، مگر فارسی میں اور چالیس چالیس پینتالیس شعر ہیں۔

    کتب ’’دستنبو‘‘ کے بک جانے سے میں خوش ہوا۔ خدا کرے، جس کو دی ہو، دو تین غلطیاں جو معلوم ہیں، وہ بنا دی ہوں، یہ نہ معلوم ہوا کہ صاحب لوگوں نے خریدیں یا ہندوستانیوں نے لیں؟ تم مجھ کو یہ بات ضرور ضرور لکھو۔ دیکھو صاحب تم گھبراتے تھے، آخر یہ جنس پڑی نہ رہی اور بک گئی۔ بھائی، ہندوستان کا قلمرو بے چراغ ہو گیا۔ لاکھوں مر گئے۔ جو زندہ ہیں، ان میں سینکڑوں گرفتار بندِ بلا ہیں۔ جو زندہ ہے، اس میں مقدور نہیں۔ میں ایسا جانتا ہوں کہ یا تو صاحبانِ انگریز کی خریداری آئی ہو گی یا پنجاب کے ملک کو یہ کتا بیں گئی ہوں گی۔ پورب میں کم بکی ہوں گی۔

    میاں، میں تم کو اپنا فرزند جانتا ہوں۔ خط لکھنے نہ لکھنے پر موقوف نہیں ہے، تمہاری جگہ میرے دل میں ہے۔ اب میں طبع آزمائی کرتا ہوں اور جو غزل تم نے بھیجی ہے اُس کو لکھتا ہوں۔ خدا کرے نو کے نو شعر یاد آ جائیں۔

    غزل

    ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ’’تو کیا ہے؟“

    تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

    چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن

    ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے؟

    جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا

    کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟

    رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل

    جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟

    وہ چیز جس کے لئے ہو ہمیں بہشت عزیز

    سوائے بادہ گلفام مشک بو کیا ہے؟

    پیوں شراب، اگر خم بھی دیکھ لو دو چار

    یه شیشه و قدح و کوزه و سبو کیا ہے؟

    یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تجھ سے

    وگرنه خوف بد آموزی عدو کیا ہے؟

    رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی

    تو کس امید پر کہیے کہ آرزو کیا ہے؟

    ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا

    وگر نہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے؟

    یہ تمہارا اقبال ہے کہ نو شعر یاد آگئے۔ ایک غزل یہ اور وہ غزلیں وہ جو آیا چاہتی ہیں، تین ہفتے کا گودام تمہارے پاس فراہم ہو گیا۔ اگر منگواؤ گے تو قصیدے دونوں بھیج دوں گا۔

    غالبؔ

    مرقومه سه شنبه ۱۹۔ ماہ اپریل ۱۸۵۹ء

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے