پیر و مرشد!
بارہ بجے تھے، میں ننگا اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ آدمی نے آکر خط دیا: میں نے کھولا، پڑھا، بھلے انگر کھایا کرتا گلے میں نہ تھا۔ اگر ہوتا تو میں گریبان پھاڑ ڈالتا، حضرت کا کیا جاتا، میرا انقصان ہوتا۔
سرے سے سنیئے، آپ کا قصیدہ بعد اصلاح بھیجا۔ اُس کی رسید آئی، کئی کئے ہوئے شعر الٹے آئے۔ اُن کی قباحت پوچھی گئی، قباحت بتائی گئی۔ الفاظ قبیح کی جگہ بے عیب الفاظ لکھ دیئے گئے، لو صاحب، یہ اشعار بھی قصیدے میں لکھ لو۔ اُس نگارش کا جواب آج تک نہیں آیا۔ شاہ اسرار الحق کے نام کا کا غذ ان کو دیا۔ جواب میں جو کچھ انہوں نے زبانی فرمایا وہ آپ کو لکھا گیا۔ حضرت کی طرف سے اس تحریر کا بھی جواب نہ ملا۔ شعر،
پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
سوچتا ہوں کہ دونوں خط پیرنگ تھے، تلف ہونا کسی طرح متصور نہیں۔ خیر، اب بہت دن کے بعد شکوہ کیا لکھا جائے، باسی کڑھی میں ابال کیوں آئے، بندگی بے چارگی۔
پانچ لشکر کا حملہ، پے بہ پے اس شہر پر ہوا، پہلا باغیوں کا لشکر اُس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔ دوسرا لشکر خاکیوں کا، اُس میں جان و مال و ناموس و مکان و مکین و آسمان وزمین و آثار ہستی سراسرلٹ گئے۔ تیسر الشکر کال کا، اُس میں ہزار ہا آدمی بھو کے مرے، چوتھا لشکر ہیضے کا، اُس میں بہت سے ے پیٹ بھرے مرے۔ پانچواں لشکر تپ کا، اُس میں تار تپ کا، اُس میں تاب و طاقت عمو ماًلٹ گئی، مرے آدمی کم لیکن جس کو تپ آئی، اُس نے پھر اعضا میں طاقت نہ پائی۔ اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہیں کیا۔ میرے گھر میں دو آدمی تپ میں مبتلا ہیں : ایک بڑا لڑکا اور ایک میرا داروغہ۔ خدا ان دونوں کو جلد صحت دے۔
برسات یہاں بھی اچھی ہوئی ہے، لیکن نہ ایسی کہ جیسی کالپی اور بنارس میں، زمیندار خوش، کھیتیاں تیار ہیں، خریف کا بیڑا پار ہے۔ ربیع کے واسطے پوہ ماہ میں مہینہ درکار ہے۔ کتاب کا پارسل پرسوں ارسال کیا جائے گا۔
اہاہاہا، جناب حافظ محمد بخش صاحب ! میری بندگی، مغل علی خاں غدر سے کچھ دن پہلے مستقی (۱)ہو کر مر گئے۔ ہے ہے کیوں کر لکھوں، حکیم رضی الدین خاں کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی اور احمد حسین خاں اُن کے چھوٹے بھائی بھی اُسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کر آئے تھے، غدر کے سبب جا نہ سکے، یہیں رہے۔ بعد فتح دہلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔ طالع یار خاں ٹونک میں ہیں، زندہ ہیں، پر یقین ہے کہ مردے سے بدتر ہوں گے۔ میر چھوٹم نے بھی پھانسی پائی۔ حال، صاحبزادہ میاں نظام الدین کا یہ ہے کہ جہاں سب اکا بر شہر کے بھاگے تھے، وہاں وہ بھی بھاگ گئے تھے۔ بڑودے میں رہے، اورنگ آباد میں رہے، حیدر آباد میں رہے۔ سال گذشتہ یعنی جاڑوں میں یہاں آئے۔ سرکار سے اُن کی صفائی ہو گئی لیکن صرف جان بخشی۔
روشن الدولہ کا مدرسہ، جو عقب ’’کو توالی چبوترہ‘‘ ہے وہ، اور خواجہ قاسم کی حویلی جس میں مغل علی خاں مرحوم رہتے تھے وہ، اور خواجہ صاحب کی حویلی، یہ املاک خاص حضرت کالے صاحب کی اور کالے صاحب کے بعد میاں نظام الدین کی قرار پا کر ضبط ہوئی اور نیلام ہو کر روپیہ سرکار میں داخل ہو گیا۔ ہاں قاسم جان کی حویلی، جس کے کاغذ میاں نظام الدین کی والدہ کے نام کے ہیں وہ اُن کو یعنی میاں نظام الدین کی والدہ کو مل گئی ہے۔ فی الحال میاں نظام الدین پاک پٹن گئے ہیں۔ شاید بہاولپور بھی جائیں گے۔
۱۸۶۰ء
(۱) مستسقی: جسے استسقا کا عارضہ لاحق ہو جائے، جس میں بہت پیاس لگتی ہے، قحط کے اندیشے میں پیاسی زمین اور مخلوق کے لیے نماز استسقا بھی ادا کی جاتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.