Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام نواب انور الدوله شفق (۴)

مرزا غالب

بنام نواب انور الدوله شفق (۴)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    پیر و مر شد!

    آداب تتمهٔ غلط نامہ ’’قاطع برہان‘‘ کو بھیجے ہوئے تین دن اور آپ کی خیر و عافیت مولوی حافظ عزیز الدین کی زبانی سنے ہوئے دو دن ہوئے تھے کہ کل آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔

    ’’قاطع برہان‘‘ کے پہنچنے سے اطلاع پائی۔ معتقدان ’’برہان قاطع‘‘ برچھیاں اور تلواریں پکڑ پکڑ کے اٹھ کھڑے ہو۔

    ہنوز دو اعتراض مجھ تک پہنچے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ”قاطع برہان‘‘ غلط ہے، یعنی ترکیب خلاف قاعدہ ہے۔ کلام قطع کیا جاتا ہے، برہان قطع نہیں ہو سکتی ہے، لو صاحب ’’ برہان قاطع‘‘ صحیح اور ’’قاطع برہان‘‘ غلط۔ مگر ’’برہان‘‘ ’’قطع ‘‘ کی فاعل ہو سکتی ہے۔ ’’قطع ‘‘ کا فعل آپ نہیں قبول کرتی۔ ”قاطع برہان‘‘ میں جو ’’برہان“ کا لفظ ہے یہ مخفف ”برہان قاطع‘‘ ہے۔

    ”برہان قاطع‘‘ کے رد کو قطع سمجھ کر ”قاطع برہان‘‘ نام رکھا تو کیا گناہ ہوا؟ دوسرا ایراد (۱) یہ ہے کہ،

    با انگلستان ستیز بے جا

    ”انگلس“ کانون تلفظ میں نہیں آتا۔ میں پوچھتا ہوں کہ خدا کے واسطے ”انگلس“ اور انگریز کانون بہ اعلان کہاں ہے؟ اور اگر ہے بھی تو ضرورت شعر کے واسطے، لغات عربی میں سکون و حرکت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اگر ”انگلس“ کے نون کو غنہ کر دیا تو کیا گناہ ہوا؟

    وہ ورق چھاپے کا جو آپ کے پاس پہنچا ہے اُس کو غلط نامۂ شاملہ کے بعد لگا کر جلد بندھوا لیجے گا۔

    حضرت، کیوں اپنے مراسلے اور میرے مکتوب کا حال پوچھا؟

    ایں ہم کہ جو ابے نہ نویسند، جواب است

    سمجھ لو اور چُپ رہو۔ میں نے مانا جس کو تم نے لکھا ہے، وہ لکھے گا کہ میں نے مختار سے پوچھا۔ اُس نے یوں کہا، پھر میں نے ”یہ کہا، اب یہ بات قرار پائی ہے تو اس تقریر کو حضرت ہی باور کریں گے، فقیر کبھی نہ مانے گا۔

    ایک حکایت سنو۔ امجد علی شاہ کی سلطنت کے آغاز میں ایک صاحب، میرے نیم آشنا یعنی خدا جانے کہاں کے رہنے والے، کسی زمانے میں وار داکبر آباد ہوئے تھے، کبھی کہیں کے تحصیلدار بھی ہو گئے تھے۔ زبان آور اور چالاک۔ اکبر آباد میں نوکری کی جستجو کی، کہیں کچھ نہ ہوا، میرے ہاں دو ایک بار آئے تھے۔ پھر وہ خدا جانے کہاں گئے۔ میں دلی آرہا، کم و بیش بیس برس ہوئے ہوں گے۔ امجد علی شاہ کے عہد میں اُن کا خط ناگاہ مجھ کو بہ سبیل ڈاک آیا۔ چوں کہ اُن دنوں میں دماغ درست اور حافظہ برقرار تھا، میں نے جانا کہ یہ وہی بزرگ ہیں خط میں مجھ کو پہلے یہ مصرع لکھا،

    از بخت شکر دارم و از روزگار ہم

    آپ سے جدا ہو کر ہیں برس آوارہ پھرا۔ جے پور میں نوکر ہو گیا وہاں سے دو برس کے بعد کہاں گیا اور کیا کیا۔ اب لکھنے آیا ہوں وزیر سے ملا ہوں، بہت عنایت کرتے ہیں۔ بادشاہ کی ملازمت انہی کے ذریعے سے حاصل ہوئی ہے۔ بادشاہ نے ”خانی“ اور ”بہادری“ کا خطاب دیا ہے۔

    مصاحبوں میں نام لکھا ہے۔ مشاہرہ ابھی قرار نہیں پایا۔ وزیر کو میں نے آپ کا بہت مشتاق کیا ہے۔

    اگر آپ کوئی قصیدہ حضور کی مدح میں اور عرضی یا خط جو مناسب جانئے، وزیر کے نام لکھ کر میرے پاس بھیج دیجئے گا تو بے شک بادشاہ آپ کو بلائیں گے اور وزیر کا خط مشعر(۲) فرمان طلب آپ کو پہنچے گا۔ میں نے اُسی عرصے میں ایک قصیدہ لکھا تھا جس کی بیت اسم یہ ہے،

    امجد علی شہ آنکه به ذوق دعائے او

    صد رہ نماز صبح قضا کرد روزگار

    متردد (۳) تھا کہ کس کی معرفت بھیجوں۔ تو کلت علی اللہ بھیج دیا۔ رسید آگئی صرف، پھر دو ہفتے کے بعد ایک خط آیا کہ ’’قصیدہ وزیر تک پہنچا، وزیر پڑھ کر بہت خوش ہوا، بہ آئین شائستہ پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ میں متوقع ہوں کہ میاں بدر الدین مہر کن سے میری مہر خطابی کھدوا کر بھیج دیجئے۔ چاندی کا نگینہ مربع اور قلم جلی۔‘‘ فقیر نے سرانجام کر کے بھیج دیا۔ رسید آئی اور قصیدے کے بادشاہ تک گزرنے کی نوید، بس پھر دو مہینے تک اُدھر سے کوئی خط نہ آیا۔ میں نے جو خط بھیجا، الٹا پھر آیا۔ ڈاک کا یہ توقیع(۴) کہ ’’مکتوب الیہ یہاں نہیں‘‘ ایک مدت کے بعد حال معلوم ہوا کہ اُس بزرگ کا وزیر تک پہنچنا اور حاضر رہنا سچ، بادشاہ کی ملازمت اور خطاب ملنا غلط۔ ’’بہادری‘‘ کی مہر تم سے بہ فریب حاصل کر کے مرشد آباد کو چلا گیا۔ چلتے وقت وزیر نے دو سو روپے دیے تھے۔

    ایک قاعدہ کلیہ دلی کا سمجھ لو۔ خالق کی قدرت مقتضی اس کی ہے کہ جو اس شہر پناہ کے اندر پیدا ہو، مرد یا عورت، خفقان و مراق (۵) اُس کی خلقت و فطرت میں ہو۔

    آٹھ دس برس کے بعد ساون کے اخیر مہینہ خوب برسا۔ لیکن نہ دریا جاری ہوئے نہ طوفان آیا۔ ہاں شہر کے باہر ایک دن بجلی گری۔ دو ایک آدمی، کچھ جانور تلف ہوئے، مکان گرے، دس بیس آدمی دب کر مرے۔ دو تین شخص کو ٹھے پر سے گر کر مرے، مراقیوں نے غل مچانا شروع کیا۔

    اپنے اپنے عزیزان به سفر رفتہ کو لکھا، جابجا اخبار نویسوں نے اُن سے سن کر درج اخبار کیا۔ لو، اب دس بارہ دن سے مہینہ کا نام نہیں۔ دھوپ آگ سے زیادہ تر تیز ہے، وہی خفقانی صاحب اب روتے پھرتے ہیں کہ کھیتیاں جل جاتی ہیں۔ اگر مینہ نہ برسے گا تو پھر کال پڑے گا۔

    مکانات کے گرنے کا حال یہ ہے کہ چار پانچ برس ضبط رہے۔ یغمائی (۶) لوگ کڑی، تختہ، کواڑ، چوکھٹ، بعض مکانات کی چھت کا مسالا سب لے گئے۔ اب اُن غربا کو وہ مکان ملے تو اُن میں مرمت کا مقدور کہاں، فرمایئے مکانات کیوں کر نہ گریں۔

    صبح دوشنبه ۱۳ صفر ۱۲۷۹ء

    ۱۱ ماه اگست (۱۸۶۲ء)

    (۱) ایراد: اعتراض

    (۲) مشعر : مقدس، سرکار، دربار کی طرف سے۔

    (۳) متردد: تردد میں/جھجک میں۔

    (۴) توقیع :مہر شده، تصدیق شده۔

    (۵) خفقان و مراق: وہم اور گھبراہٹ کی مبالغے کے ساتھ امیری۔

    (۶)یغمائی: اچکے، لوٹ مار کرنے والے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے