Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیرنگیٔ ریاض جہاں یادگار ہے

یکتا امروہوی

نیرنگیٔ ریاض جہاں یادگار ہے

یکتا امروہوی

MORE BYیکتا امروہوی

    1

    نیرنگیٔ ریاض جہاں یادگار ہے

    نیزے پہ آفتاب قیامت سوار ہے

    زہراؐ کا سر کھلا ہے کفن تار تار ہے

    تربت میں بو تراب کے دل پر غبار ہے

    بلوہ میں بے نقاب ہے کنبہ بتول کا

    بے گور و بے کفن ہے نواسہ رسول کا

    2

    آب و غذا ہے لشکر کفار کے لیے

    درے ہیں آل احمد مختارؐ کے لیے

    بے چادری ہے عترت اطہار کے لیے

    زنجیر خاردار ہے بیمار کے لیے

    کانٹوں سے بے قرار جو ہوتے ہیں آبلے

    ہر بار بار پھوٹ پھوٹ کے روتے ہیں آبلے

    3

    چھالوں کو ربط و ضبط ادھر نوک خار سے

    تن گرم اختلاط و محبت بخار سے

    دست فگار دست و گریباں مہار سے

    دل ہتکڑی کا ہاتھ میں رکھتے ہیں پیار سے

    لطف و کرم سمجھتے ہیں ظلم شدید کو

    گردن گلے لگاتی ہے طوق حدید کو

    4

    درے ہیں یا کہ ٹھوکریں کھانے کے واسطے

    آگے غبار راہ بتانے کے واسطے

    منزل پہ فرش خاک بچھانے کے واسطے

    بیڑی ہے شب کو پاؤں دبانے کے واسطے

    غش نے گرادیا جو مصیبت نصیب کو

    درد جگر نے اٹھ کے سنبھالا غریب کو

    5

    ایسا مریض بستۂ زنجیر ہائے ہائے

    گرنے پہ بے گناہ کو تعزیر ہائے ہائے

    سادات کی یہ شان یہ توقیر ہائے ہائے

    ہر شہر میں یہ چاند ہوں تشہیر ہائے ہائے

    لکھا ہے جس دیار میں یہ قافلہ گیا

    ناکے پہ اک ہجوم تماشے کو آ گیا

    6

    ناقوں کو اس روش سے بھگاتے ہیں نابکار

    بچے زمین گرم پہ گرتے ہیں بار بار

    دم بھر کہیں ٹھہرنے نہ پاتے تھے بے قرار

    مہلت نماز کی بھی نہ ملتی تھی زینہار

    دن بھر تو کاہشوں میں وہ مہتاب وار تھے

    منزل پہ چین کیا ہو کہ شب زندہ دار تھے

    7

    گردش میں تھے نصیب کی صورت وہ رشک ماہ

    پہنچی قریب شہر حلب شام کی سپاہ

    گمراہ خوف شاہ سے ٹھٹکے میان راہ

    دہشت سے زرد تھا پسر سعد رو سیاہ

    نامہ شہ حلب کو لکھا عز و جاہ سے

    کاغذ بھی روسیہ ہوا اس کے گناہ سے

    8

    اپنے ستم کا عذر بھی لکھا سرور بھی

    مضموں خوشامدوں کے بھی الفاظ زور بھی

    باطن میں پاس کفر بھی ظاہر میں دور بھی

    لفظوں سے انکسار بھی پیدا غرور بھی

    مضموں وہ نوک جھونک کے نکتے خراش کے

    فقرہ لکھے حسام قلم سے تراش کے

    9

    لکھا کہ اشتیاق زیارت کمال ہے

    ظاہر ہے شکل سے جو طبیعت کا حال ہے

    ہنگام خواب بھی یہی دل کو خیال ہے

    قدموں سے دور ہوں فقط اتنا ملال ہے

    یاں تک پہنچ گیا ہوں بڑے اشتیاق سے

    کیا متفق نصیب ہوا اتفاق سے

    10

    ہر چند آپ کا بھی ہے خادم یہ خیر خواہ

    لیکن امیر شام کی طاعت پہ ہے نگاہ

    مجھ کو بھی داغ ہے کہ چھپا فاطمہؐ کا ماہ

    حاکم کا حکم تھا یہ ملازم ہے بے گناہ

    گو لوگ یہ کہیں گے کہ میں نے برا کیا

    پر حق یہ ہے کہ حق رفاقت ادا کیا

    11

    تم بھی نہ غم کرو کہ یہ جائے سرور ہے

    خاطر امیر شام کی سب کو ضرور ہے

    یاں حق کا پاس عقل و متانت سے دور ہے

    اس سے بگاڑنے میں سراسر قصور ہے

    ایسا نہ ہو جناب کے حق میں زبون ہو

    کیا سرخروئی ہے کہ ہزاروں کا خون ہو

    12

    آج اس کے زیر حکم ہے وہ شیر دل سپاہ

    جس نے کیا کنندۂ خیبر کا گھر تباہ

    سکہ تھا جن کی ضرب کا ماہی سے تابہ ماہ

    ان پر کیے وہ ظلم کہ اللہ کی پناہ

    خنجر سے سر قلم کیا اس بے عدیل کا

    کاٹا تھا جس کے باپ نے پر جبرئیل کا

    13

    وہ مرتضی کہ جن کا دو عالم میں شور تھا

    چالیس پہلوانوں کے مانند زور تھا

    پیل فلک بھی جن کے مقابل میں مور تھا

    بہرام آسماں بھی تلاشیٔ گور تھا

    خالق نے جس کو یاد کیا عرش پاک پر

    اس کے پسر کی لاش کو چھوڑ آئے خاک پر

    14

    جب خاک میں ملا دیا گھر بوترابؑ

    پھر اور کس کو تاب و تحمل عتاب کا

    ہر طرح خیر خواہ ہوں دل سے جناب کا

    ایسا نہ ہو کہ ہو کوئی باعث حجاب کا

    دولت بھی اقتدار بھی شاہی بھی جائے گی

    لشکر بگڑ گیا تو نہ پھر کچھ بن آئے گی

    15

    دنیا میں جب کہ مال نہیں پھر مآل کیا

    زر سے خدا ملے گا نبیؐ اور آل کیا

    گو آفتاب رو بھی ہو بے زر جلال کیا

    مفلس کا مثل ماہ ہو شہرہ کمال کیا

    بے زر پہ جرم بندگی ٔبے نیاز ہیں

    نیت تو ہے تنور میں گرم نماز ہیں

    16

    بے سیم و زر زراعت دیں پائمال ہے

    افلاس میں عبادت حق بھی محال ہے

    سجدہ میں سر ہے سر میں پریشاں خیال ہے

    اعمال ہیں صحیح جو کیسہ میں مال ہے

    مفلس کا پاؤں ڈگتا ہے راہ سلوک میں

    دانا بھی بھول جاتے ہیں تسبیح بھوک میں

    17

    زر کی بدولت اہل دول کا وقار ہے

    والہ تبار بھی ہے تو بے اعتبار ہے

    مفلوک مثل خار نگاہوں میں خار ہے

    تھوڑا بھی مال ہو تو بڑا اقتدار ہے

    زر تھا تو یہ خلیلؑ نے کعبہ بنالیا

    بے مال کیا کسی نے یہاں نام پالیا

    18

    ہاں میہمان کیجئے فوج امیر کو

    آپ آئیے کہ بھیجئے اپنے وزیر کو

    بے اطلاع واں نہیں لایا بہیر کو

    روکا ہے میں نے راہ میں جم غفیر کو

    یاں سے جو کوچ ہو تو وہیں پر مقام ہو

    تجویز ہو مقام تو حاضر غلام ہو

    19

    آراستہ ہو شہر دوکانیں سجیں تمام

    ہو آئینہ صفائی میں ہر ایک قصر و بام

    ہر ایک جا ہو آمد لشکر کی دھوم دھام

    کوچوں میں بہرسیر فراہم ہوں خاص و عام

    ہر اک بشر کو آل پیمبرؐ کی دید ہو

    قربانٔی حسینؑ کی ہر گھر میں عید ہو

    20

    باہم ہو خلق بہر تماشہ دم سحر

    بلوے میں فاطمہ کو دکھاؤں گا ننگے سر

    پہنے ہوئے ہو طوق ید اللہ نامور

    نوک سناں پہ ہے سر شبیرؑ خوں میں تر

    رہگیر شان رب ہدا آج دیکھ لیں

    نیزے پہ شکل صاحب معراجؐ دیکھ لیں

    21

    تحریر تیرہ دل نے رواں سوئے شاہ کی

    ہر لفظ میں بھری تھی سیاہی گناہ کی

    پر شاہ کو ولا تھی شہ دیں پناہ کی

    یوسفؑ کی طرح چاہ تھی زہراؐ کے ماہ کی

    دن رات یاد تھی شہ عالی مقام کی

    تسبیح تھی حسین علیہ السلام کی

    22

    حضرت کے ذکر و فکر میں رہتا تھا صبح و شام

    کچھ ملک کا خیال نہ کچھ سلطنت سے کام

    دربار میں بھی گر کبھی آیا برائے نام

    حضرت ہی کے خیال میں دل سے کیے کلام

    اے دل یہ کیا ہوا شہ عالی مقام کو

    اللہ خیرت بھی نہ لکھی غلام کو

    23

    ممنون ہوں میں لطف و عنایات شاہ کا

    سبط نبیؐ میں خلق ہے شیر الہ کا

    دل سے خیال رکھتے ہیں اس خیر خواہ کا

    پر یہ چلن نہ تھا کبھی زہرا کے ماہ کا

    بھولے ہیں کیوں مجھے شہ ذی جاہ خیر ہو

    پہنچی نہ کیوں خبر مرے اللہ خیر ہو

    24

    بے التفاتٔی شہ دیں بے سبب نہیں

    اکبر کا بیاہ ہو تو کچھ اس کا عجب نہیں

    یہ بھی مگر حمیت شاہ عرب نہیں

    شادی کے دن میں اور ہماری طلب نہیں

    کاموں میں خط کے لکھنے کی فرصت نہیں ملی

    ایسے کہیں گھرے ہیں کہ مہلت نہیں ملی

    25

    درباریوں سے گاہ یہ کہتا تھا وہ حزیں

    کیوں صاحبو یہ جائے تعجب ہے یا نہیں

    یہ کیا ہوا کہ بھول گئے ہم کو شاہ دیں

    کھٹکا یہ ہے کہ آپ کے درپے ہیں اہل کیں

    کہنے میں دشمنوں کے نہ آئیں خدا کرے

    ایسا نہ ہو حسینؑ سے کوئی دغا کرے

    26

    زہرا کے چاند کا مجھے صدمہ کمال ہے

    خواب و خورش حرام ہے تغیر حال ہے

    اس درد و غم میں نیند کا آنا محال ہے

    دیکھے ہیں ایسے خواب کہ ہر دم خیال ہے

    اک تو غم فراق نے بے جان کردیا

    خوابوں نے اور حال پریشان کردیا

    27

    جھپکی جو شب کو آنکھ تو دیکھا عجیب خواب

    دریا کنارے پیٹتا ہے اک جگر کباب

    دیکھا نہ تھا کبھی یہ تلاطم یہ انقلاب

    دریا قریب اور مسافر پہ قحط آب

    پاس اس کے ایک شیر پڑا ہے کچھار میں

    پہلو میں مشک خون کا دریا کنار میں

    28

    رویا وہ شخص یوں کہ فلک تک صدا گئی

    آواز درد میرا کلیجہ ہلا گئی

    اک لڑکی پیٹتی ہوئی دریا تک آگئی

    تھرا کے تب وہ لاش عرق میں نہاگئی

    اس سانحہ پہ اور مرا خون گھٹ گیا

    بچی قریب آئی تو لاشہ الٹ گیا

    29

    رویا میان خواب میں نیساں سے بیشتر

    اشکوں سے ہوگیا مرا بستر تمام تر

    اثنائے خواب پیٹ لیا میں نے اپنا سر

    لب پر کبھی فغاں کبھی نوحہ زبان پر

    چونکا تو درد اور بھی دو چند ہوگیا

    حیرت سے آنکھ کھل گئی منہ بند ہوگیا

    30

    خواب دوم سے اور زیادہ ہوا قلق

    بکھرے ہوئے ہیں خاک پہ قرآن کے ورق

    کیا دیکھتا ہوں ایک بیاباں ہے لق دوق

    یہ دیکھتے ہی ہوگیا چہرہ کا رنگ فق

    ہر چند لاکھ ضبط کیا اضطراب میں

    اس حادثہ پہ چونک پڑا عین خواب میں

    31

    تعبیر سوچ کر مرا سینہ دو نیم ہے

    قرآں کی مثل آل رسول کریمؐ ہے

    شاہد خود اس سخن پہ الف لام میم ہے

    ان حرفوں میں یہ رمز غفور الرحیم ہے

    جوان سے پھر گیا وہ مطیع خدا نہیں

    قرآن اور آل محمدؐ جدا نہیں

    32

    خواب سوم نے اور ہلایا مرا جگر

    قندیلیں چند ہیں ار کوفہ پہ جلوہ گر

    مہتاب و آفتاب سے روشن زیادہ تر

    ان سے لہو ٹپکتا ہے ہردم زمین پر

    جلوہ کو ان کے دیکھ کر دل داغ داغ تھے

    ان کے چراغ نور کے چشم و چراغ تھے

    33

    آنکھیں کھلی تھیں دیکھ کے وہ نور کے چراغ

    چونکا تو میرا دل ہوا صدمہ سے داغ داغ

    ڈھونڈا جو میری فکر نے تاویل کا سراغ

    فوراً پکاری عقل کہ اے صاحب دماغ

    یہ نور اور شے میں ہو امر محال ہے

    چشم و چراغ نور پیمبرؐ کی آل ہے

    34

    آخر کا ہے وہ خواب کہ دل بے قرار ہے

    ناقہ پہ ایک حور بہشتی سوار ہے

    بیکس کی پشت نوک سناں سے فگار ہے

    شال عزا پکارتی ہے سوگوار ہے

    بالوں سے منہ چھپا ہوا ہے بے نصیب کا

    بازو بندھا ہوا ہے رسن سے غریب کا

    35

    اس خواب کے خیال نے کھویا ہے میرا چین

    دنیا میں حور خلد ہے حیدرؑ کی نور عین

    ہمشان فاطمہؐ ہے وہی خواہر حسینؑ

    یارب ملال میں نہ ہو بنت شہ حنین

    کھٹکا یہ ہے کہ حال شہ دیں نہ غیر ہو

    یا بے نیاز بازوئے زینب کی خیر ہو

    36

    کہتے تھے یہ وزیر نہ گھبرائیے جناب

    ہوتے نہیں خیال کے قابل تمام خواب

    رہتا ہے اضطراب میں خاطر کو پیچ و تاب

    گردش میں فکر رہتی ہے مانند آفتاب

    ظاہر میں خود حضور کو جو اضطراب ہیں

    دل مطمئن رہے یہ پریشان خواب ہیں

    37

    خط کے نہ آنے کا بھی سبب آشکار ہے

    گرمی غضب کی ہے کہ ہوا بے قرار ہے

    خود آسماں کے سر پہ ردائے غبار ہے

    پانی پہ لوٹتی ہے زمیں وہ بخار ہے

    موجیں ہیں بے قرار کہ حالت تباہ ہے

    دریا میں خود صدف کو بھی پانی کی چاہ ہے

    38

    حدت کا ذکر گر کوئی شاعر کرے رقم

    مانند شمع ہاتھ میں جلنے لگے قلم

    ڈھونڈے سے بھی دوات میں پائے نہ نام نم

    ہر دائرہ میں نائرہ دکھلائے سوز غم

    شمع قلم پہ تختہ ٔکاغذ پتنگ ہو

    مسطر کے ہر نشان میں بجلی کا رنگ ہو

    39

    یہ ذکر تھا کہ آکے پکارا یہ اک غلام

    حضرت کسی نے آپ کو بھیجا ہے کچھ پیام

    قاصد کو اذن ہو تو وہ آئے پئے سلام

    نامہ بھی ان کے پاس ہے اے شاہ نیک نام

    نامہ کے نام سے ہوا سامان چین کا

    سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ ہے شقہ حسینؑ کا

    40

    فرمایا نامہ بر کو بلاؤ مرے حضور

    بخشا مرے حضور نے آخر مجھے سرور

    لایا ستم شعار کا نامہ وہ بے شعور

    ناری کے خط کو دیکھ کے غم کا ہوا وفور

    بدلا خیال نامۂ خود کام دیکھ کر

    نامہ سے ہاتھ کھینچ لیا نام دیکھ کر

    41

    منشی سے یہ کہا کہ لفافہ کو چاک کر

    پڑھ کر سنا خط پسر سعد بد سیر

    سر نامہ چاک کرکے جو نامہ پہ کی نظر

    دیکھا وہ حال دور کہ تھرا گیا جگر

    جوش بکا سے آنکھوں کے ساغر چھلک پڑے

    آواز بند ہوگئی آنسو ٹپک پڑے

    42

    گھبرا گیا وزیر کہ رونے کی وجہ کیا

    کس کی سنانی کا ہے یہ خط کون مرگیا

    بولا بڑھا کے ہاتھ کہ دیکھوں تو میں ذرا

    مضموں پڑھا تو روکے پکارا وہ باوفا

    لو باغ لٹ گیا شہ بدر و حنین کا

    سرکٹ گیا حضور تمہارے حسینؑ کا

    43

    لکھتا ہے فخر سے پسر سعد روسیاہ

    میں نے کیا ہے شیر الٰہی کا گھر تباہ

    اک دوپہر میں کٹ گئے خویش ورفیق شاہ

    اصغر کے بچپنے پہ بھی میں نے نہ کی نگاہ

    تیغ جفا سے کاٹ لیا سر حسینؑ کا

    بے گور ہے ابھی تن اطہر حسینؑ کا

    44

    جنگل میں میں نے لوٹ لیا فاطمہؐ کا گھر

    نیزہ پہ رکھ کے لایا ہوں سبط نبیؐ کا سر

    سیدانیوں کو روز پھراتا ہوں دربدر

    قیدی ہے میری قید میں شبیرؑ کا پسر

    پھر اس پہ معذرت یہ سنو اس پلید کی

    میرا نہیں قصور خطا ہے یزید کی

    45

    سلطاں نے تاج پھینک کے حالت تباہ کی

    ہلنے لگا مکان وہ فریاد وہ آہ کی

    سر پیٹ کر پکارا دوہائی الہ کی

    محشر ہوا پناہ رسالت پناہ کی

    اولاد فاطمہؐ پہ یہ صدمہ گزر گیا

    سید کا خون ہوگیا اور میں نہ مرگیا

    46

    مجھ کو گلا تھا بھول گئے خیر خواہ کو

    یہ کیا خبر کہ فوج نے گھیرا ہے شاہ کو

    گھر سے بلا کے لوٹ لیا بے گناہ کو

    امت نے خود ستایا رسالت پناہ کو

    نادم ہوں اپنے فعل پہ اللہ کیا کروں

    بہر کمک پہنچ نہ سکا آہ کیا کروں

    47

    پہنچا حرم سرا میں جو یہ شور بار بار

    ڈیوہٹری تک آگئے حرم شاہ نامدار

    شہزادیاں تڑپ کے جو ہوتی تھیں بے قرار

    پردہ سنبھالتی تھیں کنیزیں یہ حال کال زار

    پردہ کے پاس خاص محل کو نہ کل پڑی

    ہے ہے حسینؑ کہکے کھلے سر نکل پڑی

    48

    چادر کو روک کر ہوئی آگے کوئی کنیز

    روکر کہا اری مجھے پردہ ہو کیا عزیز

    بی بی کے آگے لونڈی کی حرمت ہے کون چیز

    زینبؐ ہیں ننگے سر تجھے اتنی نہیں تمیز

    ان کی طرح کہاں میں خدا کی عزیز ہوں

    بے پردہ وہ ہے آج میں جس کی کنیز ہوں

    49

    دربار عام میں یہ قیامت تھی آشکار

    کون آیا کیا ہوا نہ کھلا کچھ یہ زینہار

    بسمل ادھر رئیس ادھر شاہ بے قرار

    شہزادیوں میں ہائے حسینا کی تھی پکار

    کہتی تھی کوئی شمر نے آفت یہ ڈھائی ہے

    بی بی کو میری لوٹ لیا ہے دہائی ہے

    50

    شاہ حلب تھا جو ہر آئینۂ شرف

    بیٹی خدا نے دی تھی اسے درۃ الصدف

    سینہ تھا اس کا محو ولائے شہ نجف

    یاں درفشاں تھی بزم وہ سوتی تھی اس طرف

    یہ شور سن کے چونک پڑی نیم جاں ہوئی

    دریائے غم میں ڈوب کے گوہر فشاں ہوئی

    51

    بولی یہ کیا ہوا کہ قیامت بپا ہوئی

    یہ کون مرگیا کہ مرے گھر عزا ہوئی

    مخلوق کس کے واسطے محو بکا ہوئی

    دولت سرائے خاص بھی ماتم سرا ہوئی

    ہے ہے مجھے تو فکر ہے جان بتولؐ کی

    بی بی کے لال تجھ کو ضمانت رسولؐ کی

    52

    چلائی اک کنیز مفصل خبر نہیں

    راحت میں تھیں حضور میں بیٹھی رہی نہیں

    یہ تو سنا ہے میں نے لڑائی ہوئی کہیں

    اک فتح نامہ دیکھ کے سلطاں ہوئے حزیں

    ایسا کوئی غریب شہید جفا ہوا

    مرنے سے جس کے خلق میں محشر بپا ہوا

    53

    یہ سن کے مثل درد اٹھی غم کی مبتلا

    دروازہ تک گئی تھی کہ دیکھا یہ ماجرا

    ماں باپ آرہے ہیں کھلے سر برہنہ پا

    دل تھام کر کہا ارے لوگو یہ کیا ہوا

    ماں نے کہا ارے مری تقدیر سوگئی

    جنگل میں فاطمہ کی بہو رانڈ ہوگئی

    54

    بولی یہ کیا یہ کیسے یہ کس روز یہ کہاں

    چلائی ماں ابھی اسی عشرہ کے درمیاں

    دشت بلا میں لٹ گیا زہرا کا بوستاں

    بے گور و بے کفن ہیں ابھی تک شہ زماں

    نیزے پہ رکھ کے لائے ہیں سر دل ملول کا

    ہے ہے اسیر ظلم ہے کنبہ بتولؐ کا

    55

    مڑ کر پدر کی سمت پکاری وہ دل کباب

    کیوں بابا جان سچ ہے یہ مضمون پیچ و تاب

    بے گور و بے کفن ہے ابھی ابن بو تراب

    ہم پر بھی کچھ ہے حق امام فلک جناب

    تم جاؤ کربلا میں سوئے فوج جاتی ہوں

    تم تربتیں بناؤ میں سر لے کے آتی ہوں

    56

    یہ کہکے ساتھ لی سپہ ہمت ووقار

    مردانہ بھیس کرکے چلی بہر کارزار

    آئی سوئے عدو صفت قہر کردگار

    خیمہ میں چھپ گیا پسر سعد نابکار

    غل تھا خدا کے دوست تلے انتقام پر

    شام حلب کی فوج چڑھی ملک شام پر

    57

    اک فوج آرزو ہوس انتقام میں

    رعب و جلال ایک طرف انتظام میں

    محشر کی چال ڈھال ہر اک خوش خرام میں

    تائید غیب تیغ کی صورت نیام میں

    چہروں کو بحر نور جو کہئے تو آب کیا

    کاغذ کی ناؤ ہے ورق آفتاب کیا

    58

    لشکر پہ آپڑی سپہ درۃ الصدف

    دم میں بہائے خون کے دریا ہر اک طرف

    بسمل تھا ہر پرا تو پریشاں ہر ایک صف

    کیا جوش پر تھی بحر ولائے شہ نجف

    دریا بہادئے تھے شہ دیں کی راہ میں

    ڈوبے ہوئے تھے ساقی کوثر کی چاہ میں

    59

    طوفاں میں سر بھی پیر رہے تھے حباب وار

    کشتی بنی ہوئی تھی ہر اک تیغ آبدار

    ناری تھے ایک وار میں بحر فنا کے پار

    دار بقا تلک بھی گئی تھی لہو کی دھار

    غنچے اسی کا رنگ دکھاتے ہیں آج تک

    دنیا میں سرخ پوش گل آتے ہیں آج تک

    60

    خونخوار خوار ہو کے لہو میں نہاگئے

    ملک حلب کے آئینے جوہر دکھاگئے

    دوزخ میں بھاگ بھاگ کے اہل جفا گئے

    بدنام ہو کے نام خود اپنا مٹا گئے

    نام اک طرف مٹائے نشان مزار بھی

    چھانے جو کوئی خاک نہ پائے غبار بھی

    61

    مردوں کی طرح خود وہ زن نیک خو لڑی

    مثل نگاہ شامیوں سے دوبدو لڑی

    جوہر دکھائے فوج کو با آبرو لڑی

    شاہ حلب کی دختر آئینہ رو لڑی

    یوں درۃ الصدف جو لڑی آب و تاب سے

    خون شفق کی نہر بہی آفتاب سے

    62

    تلوار تھی کہ برق لیے تھی وہ نیک زن

    زن سے چلی حسام تو بے دم تھے تیغ زن

    کس منہ سے تیغ کو کہیں محبوب کم سخن

    اس کی زبان تیز سے خود بولتا تھا رن

    غل تھا یہ اوج ختم اسی نازنیں پہ ہے

    باتیں فلک سے کرتی ہے اور سر زمیں پہ ہے

    63

    تھی ختم مردمی اسی دختر کے نام پر

    برش کا جامہ قطع ہوا اس حسام پر

    وہ تیغ جب چمک کے چلی اژدھام پر

    غل تھا کہ لو قمر کی چڑھائی ہے شام پر

    کھوئی کدورت آئینہ لا جواب نے

    ظلمت کے گھر کو لوٹ لیا آفتاب نے

    64

    کہتی تھی سر پہ شامت اعمال بار بار

    اس پر ہی فخر تھا کہ ہیں یکتائے روزگار

    ہم سے نہ ور ہوا پسر شیر کردگار

    اب وہ غرور کیا ہوا اے فوج نابکار

    نامرد عورتوں سے بھی سر بر نہ ہوسکے

    پردہ نشینوں کے بھی برابر نہ ہوسکے

    65

    منہ کو جھلم سے ڈھانپا ہے پاس حیا یہ ہے

    مردوں سے ہے بڑھی ہوئی ہمت وفا یہ ہے

    کہتے ہیں اس کو رنگ شجاعت وغا یہ ہے

    شیریں جھکی ہے کوہ کنی پر مزایہ ہے

    پردہ نہ کھل سکا یہ کسی اہل ہوش پر

    یوسفؑ کا ہے لباس زلیخا کے دوش پر

    66

    مریخ کے لباس میں زہرہ ہے جلوہ گر

    یا مشتری ہے جلوہ نما صورت قمر

    عفت نقاب بن گئی خود روئے پاک پر

    مردم سے ہے حجاب نظر کو دم نظر

    ظاہر ہے مثل نور بصر اور نہاں بھی ہے

    بو کی طرح چھپی ہے مگر پھر عیاں بھی ہے

    67

    اللہ رے اس کے رخش کی تیزی دم وغا

    خود جس کے دیکھنے کی صبا کو رہی ہوا

    دیکھا کسی جگہ تو یہ دیکھا یہ جا وہ جا

    سم میں قمر کا دور تو خورشید کی ضیا

    رکھا جہاں قدم وہاں جلوہ غضب کا تھا

    سم چار آئینہ تھے کہ تازی حلب کا تھا

    68

    گرتے ہیں پھول بن کے شرارے زمین پر

    تھے گردباد یا کہ غبارے زمین پر

    نقش قدم کے تھے یہ اشارے زمین پر

    بکھرے ہوئے ہیں چاند ستارے زمین پر

    تھامے ہوئے رکاب سواری میں تھا قمر

    نقش قدم کی آئینہ داری میں تھا قمر

    69

    کہئے جو اس کو حور تو اس میں کہاں یہ چال

    لکھئے اگر پری تو کہاں اس میں یہ کمال

    مانیں اگر غزال تو ایسی کہاں ہے یال

    شاعر کی فکر سمجھیں تو یہ بھی ہے اک خیال

    پرنور جوڑ بند ہیں گویا بلور کے

    حق نے ہوا کو ڈھالا ہے سانچے میں نور کے

    70

    گلگوں جو تھا نسیم تو ابر بہار تیغ

    برسا رہی تھی خون کا مینہ آبدار تیغ

    وہ درۃ الصدف کی جواہر نگار تیغ

    غل تھا کہ پھل سے پھول بنی شعلہ بار تیغ

    سب پر ہے حسن سبزہ جوہر کھلا ہوا

    آئینٔہ حلب پہ ہے مینا کیا ہوا

    71

    کہئے تھے خود شقی یہ تغافل حذر حذر

    اسباب جنگ کی بھی ہمیں تو نہیں خبر

    کھولے ابھی نشان نہ باندھی ابھی کمر

    اس مرگ ناگہاں کا گماں بھی نہ تھا ادھر

    ہم کو یہ دھیان تھا ہمیں یکتا و فرد ہیں

    یہ اب کھلا کہ اور بھی دنیا میں مرد ہیں

    72

    ہم کو یہ فخر تھا کہ ہوے شہ پہ فتحیاب

    پر اب کھلی مروت فرزند بوتراب

    امت کا پاس کرگئے شاہ فلک جناب

    ورنہ قیامت آتی جہاں میں دم عتاب

    دیتا بھلا کوئی یہ اذیت حسینؑ کو

    منظور تھی خود اپنی شہادت حسینؑ کو

    73

    ٹکڑے اڑائے دیتی ہے تلوار کیا کریں

    لاکھوں کا خون پی گئی خونخوار کیا کریں

    حربہ بھی ہاتھ میں نہیں پیکار کیا کریں

    مجبور سرجھکاتے ہیں ناچار کیا کریں

    اللہ یہ ہمیں کسی عنوان چھوڑ دے

    ہم چھوڑ دیں حرم کو جو یہ جان چھوڑ دے

    74

    بدلی سی اٹھ کے فوج پہ چھائی گھٹا کی طرح

    سر پر ڈراتی شکل سے آئی بلا کی طرح

    کس کس ادا سے جان نکلای قضا کی طرح

    آواز میں بھی اس کی اثر تھا دعا کی طرح

    لشکر کو تھا ثبات نہ ہوش گریز تھا

    جوہر کا نقش چال میں سیفی سے تیز تھا

    75

    مانند شمع چرب زبانی ہے تیغ میں

    بحر فنا کی تیز روانی ہے تیغ میں

    نار سقر کی شعلہ فشانی ہے تیغ میں

    کس آگ کا بجھا ہوا پانی ہے تیغ میں

    دل جل کے آبلے ہوئے ناسور ہوگئے

    شامی سفید پڑگئے کافور ہوگئے

    76

    ٹپکا لہو سے تیغ کا جو بن لڑائی میں

    پھولا ہوا تھا خاک پہ گلشن لڑائی میں

    ڈستی تھی موذیوں کو وہ ناگن لڑائی میں

    تیغوں سے لڑ رہی تھی جھنا جھن لڑائی میں

    جھنکار وہ کہ حشر بپا ہو ہوا پھرے

    چھاگل پہن کے جیسے کوئی دلربا پھرے

    77

    نام آوروں کو بھی نہ رہا پاس نام و ننگ

    یہ گرداڑی کہ ہوگیا خاکی ہوا کا رنگ

    غفلت یہ ہے کہ پاؤں بھی سوتے ہیں وقت جنگ

    صیقل کی طرح مورچہ چھوڑا کہیں نہ زنگ

    آتش چھپی زمین میں خاک آسمان میں

    جلوہ تھا تربتوں میں اندھیرا جہان میں

    78

    زخمی ہر اک کا سینہ و سر چور ہاتھ پاؤں

    زخموں سے چور چلنے سے معذور ہاتھ پاؤں

    گردن سے سر تو جسم سے ہیں دور ہاتھ پاؤں

    گویا تھے شمع تیغ سے بے نور ہاتھ پاؤں

    خود کام ہاتھوں ہاتھ لحد کو رواں ہوئے

    کافور ہو کے قبر کے اندر نہاں ہوئے

    79

    سر پر پڑی کہ خانۂ زیں پر نظر پڑی

    زیں کاٹ کر چلی تو ز میں پر نظر پڑی

    گاو زمیں کے قلب حزیں پر نظر پڑی

    واں سے اٹھی تو عرش بریں پر نظر پڑی

    ہر ایک جا حسام سے محشر عیاں ہوا

    حق کے مکان کا بھی لقب لا مکاں ہوا

    80

    وہ خود پر نہ بکتر و جوشن پہ بند تھی

    کیا برق تھی کہ سنگ نہ آہن پہ بند تھی

    راکب پہ بند تھی نہ وہ تو سن پہ بند تھی

    راہ اماں بھی فرقٔہ رہزن پہ بند تھی

    شعلے بلاتے تھے کہ ادھر آؤ ذوق سے

    دوزخ کا در کھلا ہے چلے جاؤ شوق سے

    81

    دل سے کسی کے حسرت دنیا نکل گئی

    کافر کی جان لے کے تمنا نکل گئی

    ناز و ادا سے جب سوئے اعداد نکل گئی

    غل تھا کدھر وہ رشک مسیحا نکل گئی

    اللہ رے تیری چال قیامت مچا گئی

    ٹھوکر کے اشتیاق میں مردہ جلا گئی

    82

    بسمل پھڑکتے تھے کہ پھر آئے کسی طرح

    اک بار پھر گلے سے لگائے کسی طرح

    پھر اک نگاہ ناز دکھائے کسی طرح

    زندہ مرے پڑے ہیں جلائے کسی طرح

    کتنے رقیب ہوگئے کتنے جلے کٹے

    محشر کی چال تھی کہ ہزاروں گلے کٹے

    83

    جوہر سے یہ ثبوت تھا ہر خوش کلام پر

    تسبیح فاطمہؐ ہے زبان حسام پر

    دریا کی طرح چڑھتی ہے افواج شام پر

    پانی پلارہی ہے شہیدوں کے نام پر

    کہتی تھی غیر پر بھی کرم کی نگاہ ہے

    قاتل کو جس نے شیر دیا اس سے راہ ہے

    84

    خیموں کو چھوڑ چھوڑ کے بھاگے وہ اہل شیر

    نیزوں کے سر پہ رہ گئے فوج خدا کے سر

    دوڑی ہوائے شاہ میں وہ سوختہ جگر

    چلائی کس سناں پہ ہواے شاہ بحر و بر

    حضرت خطا معاف کہ میں جانتی نہیں

    مولا کنیز آپ کو پہچانتی نہیں

    85

    اک سر کو پھر سناں سے اتارا بہ درد و غم

    سینہ پہ رکھ کے بولی کہ اے کشتۂ ستم

    روئے ہو اس طرح سے کہ آنکھوں پہ ہے ورم

    یہ تو کہو تمہیں ہو شہ آسماں حشم

    عباسؑ ہو کہ اکبرؑ یوسفؑ جمال ہو ؟

    صدقے گئی تمہیں مری بی بی کے لال ہو؟

    86

    ماتم کیا کہ منہ پہ جگر آ کے رہ گئے

    ساتھی تمام خاک پہ غش کھا کے رہ گئے

    وہ بین تھے کہ غیر بھی چلا کے رہ گئے

    کشتوں کے سر بھی نیزوں پہ تھرا کے رہ گئے

    ماتم ہوا جہاں میں شہ مشرقین کا

    نوحہ تھا ہر زبان پہ ہے ہے حسینؑ کا

    87

    عابد سے روکے زینبؑ ناچار نے کہا

    غیروں کو ہے یہ پاس کہ کرتے ہیں یوں عزا

    ہے ہے ہمیں تو روح پیمبرؐ سے ہے حیا

    ہم نے یہ نہ کچھ نبیؐ کے نواسے کا غم کیا

    سمجھے نہ ہم عزیز شہ مشرقین کو

    تھم کر نہ دو گھڑی کبھی روئے حسینؑ کو

    88

    دنیا کی ہے یہ رسم کہ مرتا ہے جب بشر

    اس کے عزیز روتے ہیں منہ ڈھانپ ڈھانپ کر

    ہم لوگ تو نہ روئے نہ روئیں گے عمر پھر

    ہم سے تو غیر بڑھ گئے اے غیرت قمر

    اللہ اس کا اجر دے اس نوجوان کو

    کس طرح رو رہا ہے مرے بھائی جان کو

    89

    سجاد ناتواں نے یہ سمجھایا بار بار

    مہلت کہاں ہے آپ کو اے آسماں وقار

    روتے ہیں خود حسینؑ کو محبوب کردگار

    منہ ڈھانپتی ہیں فاطمہ زہرا جگر فگار

    روئیں نہ گر حضور تو اس میں گلا نہیں

    منہ ڈھانپیں کس طرح سے کہ سر پر ردا نہیں

    90

    واں درۃ الصدف نے سنی جب کہ یہ صدا

    مردانہ وہ لباس اتارا بصد بکا

    سر لے کے آئی قیدیوں میں غم کی مبتلا

    بولی ارے کوئی یہ بتاؤ مجھے ذرا

    پہچانتی نہیں ہوں عجب پیچ و تاب ہیں

    زینب ہے جن کا نام کدھر وہ جناب ہیں

    91

    زینبؐ نے سر جھکا کے کہا اے وفا شعار

    تجھ سے بھی اور شاہ سے بھی ہوں میں شرمسار

    تعظیم دی تجھے نہ انہیں روئی زینہار

    زخمی ہے پشت اٹھ نہیں سکتی نحیف و زار

    محرومیٔ عزا سے یہ مضطر محن میں ہے

    ماتم ہو کس طرح مرا باز و رسن میں ہے

    92

    روکر وہ بولی آپ کا احساں ہے خلق پر

    امت کی پردہ پوشی کو پھرتی ہو ننگے سر

    زیبا ہے ہم جو شرم سے مرجائیں ڈوب کر

    ہم سے نہ کچھ ہوئی مدد شاہ بحر و بر

    پر یہ بتائیے کہ یہ سرکس ولی کا ہے

    عباسؑ کایہ سر ہے کہ سبط نبیؑ کا ہے

    93

    پہچان کر وہ سر یہ پکاری وہ نوحہ گر

    اے بی بی میری گود کے پالے کا ہے یہ سر

    ہم صورت رسولؑ ہے یہ غیرت قمر

    ہے ہے بڑے دکھوں سے پلا تھا مرا پسر

    اک عمر کھو کے لال یہ پایا تھا ہائے ہائے

    اٹھارہ سال جوگ کمایا تھا ہائے ہائے

    94

    شیدائے شاہ پاک نے رو رو کے یہ کہا

    بتلائیے مجھے سر سلطان کربلا

    گو خواہر حسینؑ کو اٹھنا محال تھا

    شور بکا کی طرح اٹھی غم کی مبتلا

    نیزہ بتایا ہاتھ کلیجہ پہ مار کے

    چھاتی پہ رکھ لیا سر سرور اتار کے

    95

    پھر منہ کو منہ پر رکھ کے پکاری بہ شور و شین

    معلوم ہے کچھ آپ کو اے شاہ مشرقین

    یہ تم کو لینے آئی ہے زہرا کے نورعین

    جنگل میں چھوڑ جاؤ گے خواہر کو اے حسینؑ

    اب کس طرح سے پائیں گے شاہ انام کو

    تم کربلا کو جاؤ گے ہم ملک شام کو

    96

    جاتے تو ہو مگر نہ مجھے بھولیو ذرا

    اکبر کو پیار کیجیو اے سرور ہدیٰ

    ہم بھی ادھر کو آئیں گے لایا اگر خدا

    گر مرگئے تو حشر پہ دیدار پھر رہا

    ممکن نہیں کہ چین ہو تم کو زمانے میں

    اغلب یہ ہے کہ قبر بھی ہو قید خانے میں

    مأخذ:

    Khandan-e-Shameem Ki Marsia Goyi (Pg. 36)

    • مصنف: DR.Azeem Amrohvi
      • اشاعت: 2009
      • ناشر: S.Shameem Raza -S.Taqi Raza
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے