نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کردوں
گنگ کو، ماہر انداز تکلم کر دوں
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
اس ثنا خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح
جدّ اعلیٰ سے نہ ہوگا کوئی اعلیٰ مداح
باپ مداح کا مداح ہے دادا مداح
عم ذی قدر ثنا خوانوں میں یکتا مداح
جو عنایات الٰہی سے ہوا نیک ہوا
نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا
طبع ہر ایک کی موزوں قد زیبا موزوں
صورت سرو ازل سے ہیں سراپا موزوں
نثربے سجع نہیں، نظم معلیٰ موزوں
کہیں سکتہ نہیں آ سکتا، کجا ناموزوں
تول لے عقل کی میزاں میں جو فہمیدہ ہے
بات جو منہ سے نکلتی ہے وہ سنجیدہ ہے
خلق میں مثل خلیق اور تھا خوش گو کوئی کب
نام لے دھو لے زباں کوثر و تسنیم سے جب
بلبل گلشن زہرا و علی عاشق رب
متبع مرثیہ گوئی میں ہوئے جس کے سبب
ہو اگر ذہن میں جودت ہے کہ موزونی ہے
اس احاطے سے جو باہر ہے وہ بیرونی ہے
بھائی خوش فکرت و خوش لہجہ و پاکیزہ خصال
جن کا سینہ گہر علم سے ہے مالا مال
یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحر حلال
اپنے موقع پہ جسے دیکھیے لاثانی ہے
لطف حضرت کا یہ ہے رحمت یزدانی ہے
کیوں نہ ہو بندۂ موروثیٔ مولا ہوں میں
قلزم رحمت معبود کا قطرہ ہوں میں
جس میں لاکھوں در و مرجاں ہیں وہ دریا ہوں میں
مدح خوانِ پسرِ حضرتِ زہرا ہوں میں
وصف جوہر کا کروں یا صفت ذات کروں
اپنے رتبے پہ نہ کیوں آپ مباہات کروں
مبتدی ہوں مجھے توقیر عطا کر یارب
شوقِ مداحیِٔ شپیر عطا کر یارب
سنگ ہو موم وہ تقریر عطا کر یارب
نظم میں رونے کی تاثیر عطاکر یا رب
جد و آبا کے سوا اور کوئی تقلید نہ ہو
لفظ مغلق نہ ہوں گنجلک نہ ہوں تعقید نہ وہ
وہ مرقع ہو کہ دیکھیں اسے گر اہل شعور
ہر ورق میں کہیں سایہ نظر آئے کہیں نور
غل ہو یہ ہے کششِ مو قلم طرۂ حور
صاف ہر رنگ سے ہو صنعت صانع کا ظہور
کوئی ناظر جو یہ نایاب نظیریں سمجھے
نقشِ ارژنگ کو کاواک لکیریں سمجھے
قلمِ فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمعِ تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
صاف حیرت زدہ مانیؔ ہو تو بہزادؔ ہو دنگ
خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں صفِ جنگ
رزم ایسی ہو کہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی
بجلیاں تیغوں کی آنکھوں میں چمک جائیں ابھی
روزمرہ شرفا کا ہو سلامت ہو وہی
لب و لہجہ وہی سارا ہو متانت ہو وہی
سامعیں جلد سمجھ لیں جسے، صنعت ہو وہی
یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی
لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہووے
مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہووے
ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے
سرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے
زیب ہے خالِ سیۂ چہرۂ گلرو کے لیے
داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد
بزم کا رنگ جدا، رزم کا میداں ہے جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
فہم کامل ہو، تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کے رلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محفوظ ہوں، رقت بھی ہو تعریف بھی ہو
ماجرا صبحِ شہادت کا بیان کرتا ہوں
رنج و اندوہ و مصیبت کا بیاں کرتا ہوں
تشنہ کاموں کی عبادت کا بیاں کرتا ہوں
جاں نثاروں کی اطاعت کا بیاں کرتا ہوں
جن کا ہمتا نہیں، ایک ایک مصاحب ایسا
ایسے بندے نہ کبھی ہوں گے ، نہ صاحب ایسا
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یادِ الٰہی میں طیور
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں رخِ مولا سے ظہور حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا، چاند کا چہرہ فق تھا
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
اوس نے فرشِ زمرد پہ بچھائے تھے گہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر
دشت سے جھوم کے جب بادِ صبا آتی