پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی
1
پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی
پنہاں درازیٔ پر طاؤس شب ہوئی
اور قطع زلف لیلی زہرہ لقب ہوئی
مجنوں صفت قبائے سحر چاک سب ہوئی
فکر رفو تھی چرخ ہنر مند کے لیے
دن چار ٹکڑے ہوگیا پیوند کے لیے
2
فرہاد مہر نے یہ کیا طور اختیار
اس کوہ بے ستوں فلک پر لیا قرار
تیشہ لگا کے خط شعاعی کا آب دار
کی جوے ٔشیر صبح سیاہی سے آشکار
لیکن عجیب حال تھا بے شیر شاہ کا
نہر لبن میں شور تھا وا اصغراہ کا
3
یوسف غریق چاہ سیہ ناگہاں ہوا
یعنی غروب ماہ تجلی نشاں ہوا
یونس دہان ماہیٔ شب سے عیاں ہوا
یعنی طلوع نیر مشرق ستاں ہوا
فرعون شب سے معرکہ آرا تھا آفتاب
دن تھا کلیم اور ید بیضا تھا آفتاب
4
تھی صبح یا فلک کا وہ جیب دریدہ تھا
یا چہرہ مسیح کا رنگ پریدہ تھا
خورشید تھا کہ عرش کا اشک چکیدہ تھا
یا فاطمہ کا نالۂ گردوں رسیدہ تھا
کہیے نہ مہر صبح کے سینے پہ داغ تھا
امید اہل بیت کا گھر بے چراغ تھا
5
روز سفید یوسف آفاق شب نقاب
مغرب کی چاہ میں تھا جو پابند اضطراب
سقائے آسماں نے لیا دلو آفتاب
جس میں رسن شعاع کی باندھی بہ آب وتاب
یوسف کو دلو مہر میں بٹھلا کے چاہ سے
مشرق میں لایا کھینچ کے مغرب کی راہ سے
6
نکلا افق سے عابد روشن ضمیر صبح
محراب آسماں ہوئی جلوہ پذیر صبح
کھولا سپیدی نے جو مصلاے ٔپیر صبح
پھر سجدہ گاہ بن گیا مہر منیر صبح
کرتی تھی شب غروب کا سجدہ درود کو
سیارے ہفت عضو بنے تھے سجود کو
7
ظلمت جہاں جہاں تھی وہاں نور ہوگیا
پھر مشک شب جہان سے کافور ہوگیا
گویا کہ زنگ آئینے سے دور ہوگیا
باطن رسالۂ شب دیجور ہوگیا
کیا پختہ روشنائی تھی قدرت کے خامے میں
مضموں تھا آفتاب کا ذروں کے نامے میں
8
کھولے ہوا میں طائر زریں نے بال و پر
بیٹھا وہ آ کے چرخ چہارم کے بام پر
دانے ستاروں کے جو پڑے تھے ادھر ادھر
منقار زر میں چن لیے اس نے وہ سر بسر
گرمیٔ حسن مہر سے آب آب ہو گیا
گردوں پہ خشک چشمۂ مہتاب ہو گیا
9
پر تھا ہماۓ اوج سعادت شکستہ بال
جز اشک آب و دانے کا تھا دیکھنا محال
تھا پیاس سے سکینہ و اصغر کا غیر حال
منہ زرد لب کبود زباں خشک آنکھ لال
وہ دودھ دودھ کہتا تھا رو کر اشارے سے
یہ پانی پانی کہتی تھی زہرا کے پیارے سے
10
تھے خرمن فلک پہ ابھی دانۂ نجوم
بونے لگا جو تخم ستم ابن سعد شوم
غلے کے بانٹنے کو ندادی علی العموم
مانند